مسلم قائدین کی دو روزہ عالمی کانفرنس

لاہور میں ۲۵ ،۲۶ ستمبر ۲۰۱۳ء کو اسلامی تحریکوں کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اُمت مسلمہ اور انسانیت کو درپیش سنگین بحرانوں کا جائزہ لینے، ان کے بارے میں ایک متفق علیہ مؤقف اور اُمت مسلمہ کے لیے عملی نقشۂ کار تجویز کرنے کے لیے کانفرنس میں ۲۰ ممالک کے چالیس سے زائد رہنمائوں نے شرکت کی۔ مراکش سے ملائیشیا تک اسلامی تحاریک کے ان اہم سیاسی اور فکری رہنمائوں کی پاکستان آمد بحیثیت قوم ہمارے لیے باعث اعزاز ہے۔ یہ رہنما افراد نہیں، کروڑوں انسانوں کے نمائندہ اور ترجمان ہیں۔ کئی ممالک کے عوام نے متعدد بار ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیاہے، اور اللہ کی توفیق سے ان سب رہنمائوں اور ان کی تحریکات کادامن ہر طرح کی لوٹ مار اور قوم کی امانتوں میں خورد بردکرنے سے مکمل طور پر پاک رہاہے۔

٭ تمام شرکاء کا اس امر پر اتفاق تھاکہ اسلامی تحریکوں نے اپنی تاسیس کے اول روز سے فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے پرامن جدوجہد کا راستہ منتخب کیا۔ ان میں سے کئی تحریکات پر بدترین مظالم ڈھائے گئے ، انہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے تمام اثاثہ جات لوٹ لیے گئے، لیکن انہوںنے پراُمن طریقے سے قرآن و سنت کی دعوت اور رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے ، انتخابی عمل سے گزر کر تبدیلی لانے کا راستہ ہی اختیار کیے رکھا۔ دوروز ہ کانفرنس میں شریک تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اسی پُرامن لائحہ عمل پر چلتے رہنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔

٭ اجلاس نے بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے مصری عوام کے جمہوری فیصلوں پر ڈاکا زنی کی بھی شدید مذمت کی۔ ۶عشروں سے زائد عرصے کے تاریک دور کے بعد مصری عوام اپنی قربانیوں کے ذریعے حقیقی آزادفضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے تھے، لیکن ایک ہی سال کے بعد صہیونی اور عالمی آقائو ںکی سرپرستی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ ہزاروں بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر وہ مظالم ڈھائے گئے کہ انسانیت اپنی پوری تاریخ کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئی ۔ صد آفرین کہ ان تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں کے باوجود، مصری قوم نے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔ گزشتہ تقریباً دو ماہ سے جاری ریاستی دہشت گردی کے باوجود مصری عوام نے ایک دن کے لیے بھی ملک میں قیام عدل اور بحالی جمہوریت کی جدوجہد کو ترک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مصری قوم کی تخلیق کردہ رابعہ کی علامت، نہ صرف ریاستی دہشت گردی کو مسترد کرنے کی علامت بن گئی ہے، بلکہ پوری دنیا میں عزم و ہمت اور پُرامن جدوجہد کانشان بھی بن گئی ہے۔ مصری عوام کی مسلسل جاری جمہوری جدوجہد نے پوری اُمت کے دلوں میں اُمیدوں کے چراغ روشن کردیے ہیں۔

٭ شام میں جاری قیامت صغریٰ بھی دنیا کے ہر زندہ ضمیر انسان کی نیند حرام کررہی ہے۔ ظلم وجبر کے ذریعے کئی عشروں سے شامی قوم پر مسلط ایک ڈکٹیٹر نے صرف اپنے اقتدار کی خاطر پورے ملک کوتباہ اور پوری قوم کو ذبح کرکے رکھ دیاہے۔ شام کھنڈرات میں تبدیل ہو رہاہے اور لاکھوں عوام پڑوسی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہیں۔ حقوق انسانی ، حقوق نسواں ،جمہوریت اور مساوات جیسے الفاظ کی جگالی کرنے والی عالمی برادری ، امر یکا اور روس کی سرپرستی میں بظاہر دو کیمپوں میں کھڑی ہے، لیکن عملاً ایک ہی ایجنڈا نافذ کررہی ہے۔ دونوں کا مقصدِ وحید شام میں ہونے والی قتل وغارت کو مسلسل جاری رکھنااور ناجائز صہیونی ریاست کے پڑوس میں واقع اہم مسلم ملک کو مکمل تباہی سے دوچار کرناہے۔ ۲۱؍اگست کو کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے ڈیڑھ ہزار معصوم انسانوں کا خون بھی یقیناً ایک سنگین جرم تھا۔ لیکن تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسانوں کے قتل سے آنکھیں موند ے بیٹھی عالمی برادری نے اس جرم کو بھی شامی عوام کی مدد کے بجائے شام کو اس کے وسائل اور دفاعی صلاحیتوں سے محروم کرنے کا بہانہ بنالیا۔ اجلاس کی نگاہ میں شام میں جاری تباہی ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہاں ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو اور عوام کو ان کے کامل حقوق دیتے ہوئے ملک میں حقیقی جمہوری عادلانہ نظام قائم ہو۔

٭ اُمت اسلامیہ کے اس نمائندہ اجلاس نے بنگلہ دیش میں جاری ریاستی مظالم پر بھی شدید رنج و غم کااظہار کیا ۔ نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے حکومت اپنے تمام مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ پھانسی ،عمر قید اور ۹۰،۹۰سال کی سزائیں سنائی جارہی ہیں ۔ ۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم ،مطیع الرحمن نظامی ٭ اُمت اسلامیہ کے اس نمائندہ اجلاس نے بنگلہ دیش میں جاری ریاستی مظالم پر بھی شدید رنج و غم کااظہار کیا ۔ نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے حکومت اپنے تمام مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ پھانسی ،عمر قید اور ۹۰،۹۰سال کی سزائیں سنائی جارہی ہیں ۔ ۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم ،مطیع الرحمن نظامی اور فضل قادر چوہدری سمیت لاکھوں بے گناہ اس ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں لیکن حکومت، ملک کو ایک پولیس اسٹیٹ بناتے ہوئے، ان میں بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں اور ہر انصاف پسند انسان حکومتِ بنگلہ دیش سے پُر زور مطالبہ کرتاہے کہ وہ ظلم وبربریت کی سیاست بند کرے۔ تمام سیاسی اسیروں کو رہا کرے اور ملک کو تعصبات ،اندھے انتقام اور قتل وغارت کے تاریک راستوں پر دھکیلنے کے بجائے، ملک میں حقیقی جمہوریت اور انصاف پر مبنی معاشرہ تعمیر کرنے کاآغاز ہونے دے۔

٭ یہ اجلاس گزشتہ ۶۶سال سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم وبربریت کی بھی شدید مذمت کرتاہے ، کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت اور استعمار سے آزادی کی خاطر مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے کئی قراردادوں کے ذریعے ان کے اس حق کا اعتراف کیا ہے۔ یہ اجلاس اپنے کشمیری بھائیوں سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ ساڑھے چھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے ذریعے توڑے جانے والے مظالم اور قائد حریت سید علی گیلانی کی مسلسل نظربندی کانوٹس لیتے ہوئے، کشمیری عوام کو ان کے حقوق دلوائے ۔ مسئلہ کشمیر خطے میں امن واستحکام اور پاک بھارت تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

٭ اراکان (میانمار) کے بے نوا مسلمانوں کو بھی عالم اسلام اور عالمی برادری کی طرف سے لفظی مذمت کے سوا کچھ نہیں ملا، لاکھوں بے گناہ انسانوں سے صرف ان کے جرم اسلام کی وجہ سے حق زندگی چھینا جارہاہے۔ پڑوس میں واقع مسلمان ملک بنگلہ دیش بھی لاکھوں مظلوم انسانوں کی مدد کرنے کے بجائے ظالم کا ساتھ دے رہاہے۔ اراکان کی خود مدد کرنا تو کجا، عالمی امدادی تنظیموں کے سامنے بھی تمام راستے مسدود کردیے ہیں ۔ یہ اجلاس عالم اسلام ،حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ اراکان میں انسانیت کو مسلم دشمنی کی آگ کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔

٭ سرزمین اقصیٰ بھی بدستور نوحہ کناںہے ۔ کئی سال سے غزہ میں اٹھارہ لاکھ انسانوں کا محاصرہ جاری ہے ، صہیونی افواج کے علاوہ مصر بھی دوبارہ اس محاصرے میں شامل ہوگیا ہے۔ دوسری جانب مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور اسے یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ آزادی فلسطین پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ امریکا اور عالمی برادری ایک ناجائز صہیونی ریاست کی پشتیبانی کرتے رہنے کے بجائے عدل وانصاف کا ساتھ دیں، اور فلسطینیوں کے قتل ناحق کا سدباب کریں۔

یہ اجلاس افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے اور پاکستان، یمن، صومالیہ اور دیگر ممالک پر جاری امریکی ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتا اور انہیں ان ممالک کی خود مختاری پر سنگین حملہ قرار دیتاہے۔ یہ حملے نہ صرف ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کاذریعہ بن رہے ہیں بلکہ ان تمام ممالک میں جنگ اور دہشت گردی کی آگ مزید بھڑکانے کاذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ امریکی استعمار کو افغانستان اور عراق سے فوراً اور مکمل طور پر نکل جانا چاہیے۔

عالمی اسلامی تحریکیں، عبادت گاہوں اور بے گناہ شہریوں پر ہونے والے حملوں کی بھی شدید مذمت کرتی ہیں۔ ایک سچا مسلمان نہ ظلم برداشت کرتاہے اور نہ خود کسی پر ظلم ڈھا سکتاہے۔ ان سازشوں کے پیچھے اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ اجلاس اُمت کے ہر فر د بالخصوص نوجوانوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ عقل و استدلال اور ہمدردی و احترام پر مبنی، پُرامن دعوت کی روشن راہوں کے بجائے تشدد اور بے سمت انتقام کی تاریک پگڈنڈیوں کی طرف دھکیلے جانے کی تمام اندرونی و بیرونی سازشوں سے خبردار رہیں۔ اُمت مسلمہ پوری انسانیت کے لیے خیر و بھلائی کا پیغام رکھتی ہے ۔ ہم رسول اکرم ؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنے کردار، بلند اخلاق اور ترویج علم کے ذریعے ہی شہادت حق کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔

اُمت کے تمام اہم مسائل کا جائزہ لینے اور سیر حاصل مشاورت کے بعد یہ اجلاس واضح کرتاہے کہ :-

٭ تمام تر مظالم اور سازشوں کے باوجود اسلامی تحریکات اپنی پُرامن جدوجہد جاری رکھیں گی۔

٭ اسلامی تحریکیں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر، اراکان سمیت ہر خطے کے مظلوم انسانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں۔

٭ اسلامی تحریکات ان تمام خطوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف ہر ممکن سیاسی، سفارتی، قانونی اور اخلاقی جدوجہد جاری رکھیں گی۔

٭ دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کی مدد کے لیے اعلیٰ ماہرین قانون کا ایک عالمی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے گا۔

٭ مسلم ممالک میں جاری ظلم کو بے نقاب کرنے کے لیے مشترک عالمی سفارتی جدوجہد کی جائے گی ۔

٭ عالمی اسلامی تحریکات کے مابین مزید کوآرڈی نیشن، تبادلۂ معلومات اور بھرپور تعاون کی خاطر اس کانفرنس کو ایک مستقل فورم کی حیثیت دیتے ہوئے عالمی سیکریٹریٹ قائم کیا جائے گا اور اس میں مزید تحریکات اور عالمی شخصیات کو شرکت کی دعوت د ی جائے گی ۔

٭ امت کی خواتین کے لیے تعلیم، حیا، حجاب، اسلامی تعلیمات ان کے اصل سرمایہ حیات ہیں، مسلم خاندان اور مسلم خواتین کے خلاف جانبدارانہ اور امتیازی اقدامات کے سدباب کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔

٭ اُمت کے نوجوانوں کو تباہ کن تہذیبی یلغار اور بے خدا تعلیمی نظام کی خرابیوں سے بچانے کے لیے مشترک عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

٭ اُمت کے مابین وحدت و یگانگت کی خاطر متفق علیہ اُمور کی آبیاری اور اختلافات کی خلیج کو ختم کرنے کی بھرپور جدوجہد کی جائے گی۔

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*