
زبان فکر و خیال یا جذبے کے اظہار و ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔ Oliver Wendell Holmes کے مطابق:
[english]”Language is the blood of the soul into which thoughts run and out of which they grow.”[/english]
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ اس طرح زبان انسان کی تمام پچھلی اور موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے۔ زبان ایک ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جاسکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہے۔ یہ خیالات کی حامل اور آئینہ دار ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان کے بغیر خیالات کا وجود ممکن نہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا خیال کہ جس کے لیے کوئی لفظ نہ ہو دماغ میں نہیں آسکتا۔ شاید اسی لیے یونانی زبان کا ترجمہ کرتے ہوئے انسان کو حیوانِ ناطق کہا گیا۔ حیوانِ ناطق سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان بول سکتا ہے‘ بولتے تو سب جانور ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ انسان سوچ سمجھ کر بول سکتا ہے۔ لارڈ ٹینی سن (Lord Tennyson) نے کیا خوب کہا تھا کہ:
[english]”Words like nature, half reveal
And half conceal the sould within”[/english]
زبان انسانی زندگی کا اہم جُز ہے۔ اسی لیے مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے کہ ’’زبان پر جو چوٹ پڑتی ہے‘ وہ زبان پر نہیں پڑتی‘ دلوں پر پڑتی ہے‘‘۔ مقامی یا مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جلد (Second Skin) بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات‘ تہذیب و تمدن‘ ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں‘ اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات‘ اس کی تہذیب‘ اس کی تاریخ‘ اس کی قومیت۔۔ سب کچھ مٹ جائے گا۔
Berton کی کہاوت ہے کہ “Help brezhoneg, breizh ebat’ یعنی (without Breton, there is no Brittany) ’’برٹن زبان کے بغیر برٹنی بھی نہیں ہے۔‘‘ بلاشبہ مادری زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے‘ اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی‘ سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم‘ سائنس اور ثقافت کی قراردادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ قومیتی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلّمہ ہے۔ چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم‘ رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔
اسی لیے اقوامِ متحدہ کی تعلیمی‘ سائنسی اور ثقافتی تنظیم UNESCO کے رُکن ممالک کے نیز تنظیم کے صدر دفتر میں ہر برس ۲۱ فرورری کو مادری زبانوں کا عالمی دن (IMLD) منایا جاتا ہے‘ اس دن کا مقصد لسانی و ثقافتی رنگا رنگی اور کثیر اللسانیت کو فروغ دینا ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر انسان ۶۷۰۰ سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں مگر ان مادری اور مقامی زبانوں کو چند زبانوں کے وائرس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ خاص طور پر انگریزی دنیا کی ہزاروں مقامی زبانوں کو نگل گئی ہے اور ابھی بھی اس کی زبان خوری ختم نہیں ہوئی۔ چند اقوام اور طبقات کی لسانی دہشت گردی سے زبانیں محبت و اخوت کے بجائے نفرت و تقسیم کا موجب بننے لگی ہیں۔ اس سے عالمگیریت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ عالمی امن کے لیے مادری اور مقامی زبانوں کا تحفظ و احترام ناگزیر ہے تاکہ لسانی رنگارنگی سے برداشت و رواداری کا کلچر فروغ پائے۔ چنانچہ نومبر ۱۹۹۹ء میں یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ہر سال ۲۱ فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ ایسے زمانے میں جب عالمگیریت کی ترجیحات میں صرف چند زبانیں ہی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور یونیسکو نے لسانی تنوع اور کثیر اللسانی تعلیم و تدریس کے فروغ و تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ مادری زبانوں کے عالمی دن کا تصور یونیسکو کو کینیڈا کی ایک تنظیم “Mother Language Lovers of the World” نے تجویز کیا‘ اس پر یونیسکو کا کہنا تھا کہ یہ تجویز کسی ممبر ملک کی طرف سے آنی چاہیے۔ چنانچہ بنگلہ دیش نے یہ مہربانی کی اور اس دن کے لیے ۲۱ فروری کے دن کو بھی بنگالی زبان کی لسانی تحریک کے دن کے حوالے سے اہمیت دیتے ہوئے منتخب کیا گیا۔
مادری زبانوں کا عالمی دن مشرقی پاکستان میں ’’لسانی تحریک کے دن‘‘ ۲۱ فروری ۱۹۵۲ء کی یاد میں منایا جاتا ہے‘ جب ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا لسانی مسئلے پر دفعہ۱۴۴ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ صبح سوا گیارہ بجے سے یہ ہڑتال اور احتجاج جاری تھا۔ دوپہر ۲ بجے دستور ساز اسمبلی کی اراکین کا راستہ روکا گیا تو پولیس حرکت میں آگئی۔ سہ پہر ۳ بجے کے قریب فائرنگ ہو گئی‘ جس سے طلبا عبدالجبا راور رفیق الدین احمد موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ ابوالبرکات زخمی ہو کر رات ۸ بجے دم توڑ گیا۔ اس سے سارا مشرقی پاکستان سراپا احتجاج بن گیا۔ ۲۲ فروری کو بڑا احتجاج ہوا جس پر فائرنگ سے ۴ سے ۸ لوگ مارے گئے۔ لسانی مسئلے پر ریاستی پولیس نے بنگالی بولنے والوں کا قتل عام کیا۔ بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) میں لوگ غیرسرکاری طور پر یہ دن مناتے رہے‘ تاہم ۱۹۵۶ء میں پہلی مرتبہ ۲۱ فروری کو حکومتی سرپرستی میں یہ دن منایا گیا اور اسی روز مادری زبان کی جدوجہد کی تحریک میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں شہید مینار کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ پھر ۲۹ فروری ۱۹۵۶ء کو بنگالی کو سرکاری سطح پر پاکستان کی بنیادی ریاستی زبانوں میں سے ایک کا درجہ دے دیا گیا۔ یہی لسانی تحریک بعد ازاں سقوط ڈھاکا کا ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔ اسی دن کی یاد میں یونیسکو کے ممبر کی حیثیت سے بنگلہ دیش نے مادری زبانوں کے عالمی دن کی تجویز منظور کروائی۔
مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر آسٹریلیا میں مقیم ہنگری نژاد پروفیسر اسٹیفن وورم (Stephen Wurm) کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے جو خود پچاس سے زیادہ زبانوں کو جانتا اور مہارت رکھتا ہے اور جس نے “Atlas of the world’s Language in Danger of Disappering” مرتب کیا۔ اس اٹلس میں پروفیسر اسٹیفن وورم نے وضاحت کی ہے کہ اس وقت دنیا میں تین ہزار سے زیادہ مادری اور مقامی زبانیں خطرات کا شکار ہیں اور کرۂ ارض سے آہستہ آہستہ ماں بولیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں‘ ان کا تحفظ اور بقا ضروری ہے۔ مادری زبانوں کی بقا اور تحفظ کی کاوشوں کے ثمرات کی ایک مثال انگلینڈ کی ایک مقامی ماں بولی کورنش “Cornish” کی ہے جو کہ متروک ہو گئی تھی مگر حالیہ کاوشوں سے اس ماں بولی کا کامیابی سے احیا ہوا ہے اور اب ایک ہزار سے زائد لوگ کورنش زبان بولنے لگے ہیں۔ مادری زبانیں بطور ذریعۂ اظہار و ابلاغ فرد کی شخصیت کی تشکیل و تکمیل میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ چیک ری پبلک کے صدر Jan Kavan نے جنرل اسمبلی سے مادری زبانوں کے حوالے سے خطاب میں کہا تھا کہ:
[english]”Mother Language is the most powerful instrument of preserving and developing our tangible and intangible heritage.”[/english]
یونیسکو کے ۳۱ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۲ نومبر ۲۰۰۱ء کے بعد یونیسکو نے ثقافتی رنگارنگی کے حوالے سے جاری کردہ عالمی اعلامیے کی منظوری دی‘ جس میں یونیسکو کی تنظیم نے لسانی رنگارنگی کی حوصلہ افزائی کرنے والے رکن ممالک کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا عہد کیا۔ زبانیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ ہیں۔ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کاوشیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم‘ رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد پر بین الاقوامی یکجہتی کو بڑھاوا دینے کا اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ لسانی اور ثقافتی رنگارنگی اُن آفاقی اَقدار کی نمائندگی کرتی ہے جو معاشروں کے اتحاد اور ہم آہنگی کو تقویت دیتی ہیں۔ لسانی رنگارنگی ہر انسان کے لیے اس کی مادری زبان اور خاص کر اس میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کے اِدراک نے یونیسکو جیسے ادارے کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کے بارے میں فیصلہ کرنے پر مائل کیا۔
اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ مادرِ وطن میں مادری زبانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک عام ہے اور ہم نے عصری اور عالمی فکر و دانش سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ متحدہ پاکستان میں لسانی مسئلے سے دنیا بھر نے سبق سیکھ لیا اور عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا رہے گا‘ مگر ہم آج بھی لسانی رنگارنگی کی مہک سے محروم اور زبانوں کے مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم سے سبق سیکھ کر کئی ممالک نے اپنی لسانی پالیسیوں کو ازسرِ نو مرتب کیا اور اب بہت سے ممالک اپنے علاقوں میں روایتی طور پر نظرانداز کی جانے والی یا خطرات سے دوچار زبانوں کو تحفظ اور فروغ دے رہے ہیں۔ جبکہ ہم آج بھی علاقائی‘ مادری اور قومی زبانوں کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ ہمارے ہاں لسانی مسئلے نے جو گہرے اور منفی اثرات مرتب کیے‘ ان کی قیمت ہم ۱۹۷۱ء میں بھی چکا چکے ہیں۔ جمہوری ممالک میں جمہور کی زبان یا زبانیں ہی قومی یا سرکاری زبانیں ہو سکتی ہیں۔ عوام کا دل موہ لینے کے لیے عوام ہی کی بولی کارکرگر ہو سکتی ہے۔ ہم نے علاقائی اور مادری زبانوں سے جس سوتیلے سلوک کو روا رکھا‘ اُس کا خمیارہ ہم بھگت رہے ہیں۔ آج ہم تہذیبی شناخت اور تاریخی سانجھ سے محروم ہو کر قومیتی مسائل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے لسانی مسئلے کو غیرفطری طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور قوم کو اپنی اپنی علاقائی زبانوں سے محروم کرنے کا جبر روا رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قوم نے کھرے‘ سچے اور سماجی تناظر میں سوچنے کے بجائے غیروں کی زبانوں سے غیروں کے انداز میں سوچنا شروع کر دیا۔ ہم نے انگریزی اور اردو کے ذریعے قومی یکجہتی کے حصول کی کوشش کی اور جارج برنارڈ شاہ کی اس بات کو فراموش کر دیا کہ:
[english]”England and America are two countries divided by common language.”[/english]
بلاشبہ پھولوں کی رنگارنگی گلدستے کا حُسن اور طاقت ہوتی ہے‘ قباحت اور کمزوری نہیں۔ جس قوم کو اپنی کوئی چیز اچھی نہ لگے اور دوسروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہو‘ وہ کیا زندہ رہ سکتی ہے۔ قوم بے جان افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہوتا‘ بلکہ قوم معتقدات‘ تاریخ‘ عصبیت‘ ثقافت اور انفرادیت پر اِصرار سے ہی وجود میں آتی ہے اور استحکام حاصل کرتی ہے۔ مذکورہ قومی عناصر کے اظہار کا اہم ذریعہ زبان ہی تو ہوتی ہے۔ جب لوگوں سے اُن کی زبان چھین لی جائے تو ان سے سب کچھ چھین لینے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی قومی یکجہتی کے گلدستے کی تشکیل کے لیے زبانوں کی رنگارنگی کو اہمیت اور فروغ دینا ہو گا۔ ہمارے ہاں سندھی‘ پشتو‘ بلوچی‘ پنجابی‘ سرائیکی جیسی زبانیں ہماری اجتماعی غفلت کا شکار ہیں۔ جب تک ہم مادری زبانیں بولنا‘ انہی میں سوچنا اور انہیں تعلیم و تحقیق کا ذریعہ نہیں بنائیں گے‘ قومی یکجہتی سے محروم رہیں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے‘ جب ہم اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دیں گے۔ مادری زبان کے ذریعے ہی وہ تعلیم و تربیت مانوس اور جانے پہچانے ماحول میں حاصل کر سکتا ہے۔ اپنے ماحول اور مٹی سے جڑے رہنے اور اس کے ساتھ اُنسیت سے ہی بچوں میں اعتماد‘ توازن‘ احساسِ ملکیت اور قومی یکجہتی پیدا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم و تدریس کے جدید نظریات میں بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان ہی میں دی جاتی ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ کسی ملک‘ علاقے یا صوبے کے لوگوں کو ان کی مادری زبان سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کیا ایسی ریاستیں جہاں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی ہو‘ آئینی‘ قانونی‘ اخلاقی‘ سیاسی اور سماجی حوالے سے جدید جمہوری ریاستیں کہلانے کی حقدار ہو سکتی ہیں؟ ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ہمارا اجتماعی رویہ اور حکمرانی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اور ہم پھر بھی خود کو مہذب انسان سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر ہرشندر کور نے درست تجزیہ کیا ہے کہ مادری زبان بچے کی شخصیت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اپنی ماں کو حقیر اور چھوٹا سمجھنے والے اپنے آپ کو اور اپنی تہذیب کو بھی کم تر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور جن کی تہذیب حقیر ہو‘ وہ زمانے میں معتبر نہیں ہو سکتے۔ پنجابیوں نے پنجابی زبان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے‘ اس نے دھیرے دھیرے پنجابیوں کو ان کی اصل سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زبان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔
۲۱ فروری کو ہر سال منعقد ہونے والا مادری زبانوں کا عالمی دن ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم کب تک اپنی مادری زبان سے یہ سلوک جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی مادری زبان کے ساتھ جو کیا ہے‘ ہم سب اس پر شرمندہ ہیں۔ میں اپنی بات کو مشہور شاعرہ میری ڈورو کی نظم ’’زبان کا سوگ‘‘ پر ختم کرنا چاہتا ہوں‘ جس کا ترجمہ خالد سہیل نے کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ میری ڈورو کی یہ نظم ہمیں شرمندہ کر پاتی ہے کہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ شرمندگی کا پسینہ قوموں کی زندگی میں ترقی کے سفر میں زادِ راہ کا کام کرتا ہے۔ میری ڈورو لکھتی ہے کہ:
’’زبان کا سوگ‘‘
میں اپنی مادری زبان ڈائرنگن سے محروم ہو گئی ہوں
میں افسردہ ہوں
اس تباہی پر میری آنکھیں پُرنم ہیں
میری زبان کے نرم و گداز الفاظ
چکنا چور ہو کر ماضی میں بکھر گئے ہیں
ہم پر جب انگریزی مسلط ہو گئی
تو ہم اپنی مادری زبان ڈائرنگن بھلا بیٹھے
اور اسے تہذیب و ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیا
اے میری مادری زبان
تمہیں کھونے پر
ہم بہت شرمندہ ہیں!
[مضمون نگار گجرات یونیورسٹی میں رجسٹرار ہیں]
(بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ۔ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply