انٹر پول، ’’انٹر نیشنل کرمنل پولیس آرگنائزیشن‘‘ بین الاقوامی پولیس پرمبنی ایک ادارہ ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز ۱۹۱۴ء سے ہوتا ہے، جب ’’موکو‘‘ میں ۱۴ ملکوں کے نمائندے ’’کانگریس آف انٹرنیشنل کرمنل پولیس‘‘ کے تحت جمع ہوئے۔ا س اجتماع میں کوئی بہت زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی،تاہم بین الاقوامی طور پر بڑھتے ہوئے جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا،یہ جرائم دراصل یورپی تہذیب کے مکروہ شعائر اور غیر فطری طرزِ زندگی کا انسانی ردعمل تھے، خاص طور پر جب اس تہذیب نے اپنے پنجے ناجائز طور پر استعمار اور استبداد کی صورت میں ایشیائی ممالک میں گاڑنے شروع کر دیے تھے۔ دوسروں کے گھروں میں لگائی جانے والی آگ جب اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگی تو ان سامراجی قوتوں کو اپنے داخلی دفاع کی فکر لاحق ہو گئی۔ ان مقاصد کے تحت دوسرا اجتماع ۱۹۲۳ء میں ’’ویانا‘‘ میں منعقد ہوا اور اس بار بیس ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور باقاعدہ تنظیم سازی کر کے ’’انٹر نیشنل کرمنل پولیس کمیشن‘‘ (ICPC) بنالیا۔ یہ ایک تاریخ ساز پیش رفت تھی جس نے بعد میں آنے والے حالات کے لیے بنیادکاکام کیا۔ ’’ویانا‘‘ میں ہی اس تنظیم کا صدر دفترقائم کردیا گیا اور ’’ویانا‘‘ کا ہی پولیس کا سربراہ اس تنظیم کا پہلا صدر نشین مقرر ہوگیا۔ ۱۹۳۸ء تک تنظیم کام کرتی رہی لیکن جنگ کے بادل منڈلاتے ہی تنظیم کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور طبل جنگ بجنے کے بعد یہ تنظیم معطل ہوکر رہ گئی۔ میزبان ملک پر جرمنوں کے قبضے کے بعد فاتحین نے اس تنظیم کا ریکارڈ بھی ضبط کرکے برلن منتقل کر دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد جب یورپ ابھی اپنے زخم چاٹ رہاتھا کہ فرانس نے اس تنظیم کے تناظر میں ایک بہت ہی قابل قدر پیشکش کر دی۔فرانس نے صدر دفتر کے لیے اپنا شہر پیرس اور ابتدائی طور پر تنظیم چلانے کے لیے اپنی پولیس کے تجربہ کار افسران بھی پیش کر دیے۔اس طرح آئی سی پی سی کی تاسیس نوہوئی اور گزشتہ ریکارڈ نہ ہونے کے باعث اس کے جملہ قواعد و ضوابط بھی نئے سرے سے تشکیل دینے پڑے۔ ۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ جیسے ادارے نے بھی اسے اپنی متصلہ تنظیم کی حیثیت دے دی جو کہ اس تنظیم کی عالمی افق پر بہت بڑی کامیابی تھی۔شاید اس تنظیم کی اس حیثیت کی وجہ سے ۱۹۵۵ء تک اس کے رکن ممالک کی تعداد ۱۹ سے ۵۵ تک بڑھ گئی اور اس طرح پہلے سے تین گنا زائد ممالک کا ساتھ و اعتماد وتعاون اس تنظیم ’’انٹر نیشنل کرمنل پولیس کمیشن‘‘ (ICPC) کو حاصل ہوگیا۔ ۱۹۵۶ء میں اس تنظیم کے دستور پر نظر ثانی کی گئی اور بہت سے اضافے کیے گئے اور بہت سی شقوں کو حذف بھی کر دیا گیا اور ایک طرح سے نیا دستور بناکر اس تنظیم کا نیا نام منظور کیا گیا جو کہ اب دنیا میں ’’انٹر نیشنل کرمنل پولیس آرگنائزیشن‘‘ (INTERPOL) کے نام سے جانی جاتی ہے۔
۱۹۸۹ء میں انٹرپول کاصدر دفتر پیرس سے ’’لیون‘‘ میں منتقل کردیا گیا۔ انٹرپول ابتدامیں ایک یورپی تنظیم تھی اور اسے اقوام متحدہ کا جزوی تعاون حاصل تھا، لیکن اس کا دائرہ بڑھتا گیا اور گزشتہ صدی میں اسّی کی دہائی کے دوران اس کے رکن ممالک کی تعداد ۱۲۵؍تک پہنچ گئی اور اکیسویں صدی کے آغاز تک اس تنظیم میں شامل ممالک کی تعداد ۱۸۰ سے تجاوز کررہی تھی۔ اس طرح دنیاکے تمام ممالک جو آزادانہ خارجہ پالیسی رکھتے ہیں وہ اس تنظیم کے رکن بن چکے ہیں۔
انٹرپول اپنے رکن ممالک کی پولیس کے درمیان جرائم کی بیخ کنی کے لیے تعاون بڑھانے کا ذمہ دار ہے۔ اس طرح انٹرپول کے دو مقاصد وضع ہوتے ہیں کہ رکن ممالک کے اندر داخلی انتشار میں بیرونی مداخلت کے ذمہ داروں کو متعلقہ پولیس کے حوالے کرنا اور بین الاقوامی جرائم کو روکنا۔ پوری دنیامیں پولیس کے اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی یہ واحد تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے اندر تین بڑے بڑے ادارے ہیں جن کے تحت اس کی کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں اور وہ ادارے اس تنظیم کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں، ضروری راہنمائی فراہم کرتے ہیں اور اس کے جملہ معاملات کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ روز بروز کی کارروائی کے لیے جنرل سیکرٹریٹ ہے جو ایک جنرل سیکرٹری کی نگرانی میں کام کرتا ہے، جنرل سیکرٹری پانچ سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا ادارہ جنرل اسمبلی ہے، جس میں ہر رکن ملک کانمائندہ موجود ہوتا ہے، جنرل سیکرٹری کی تقرری یہی ادارہ کرتا ہے۔
جنرل اسمبلی انٹرپول کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے، بڑے اقدامات اور بڑے بڑے فیصلے یہیں پر کیے جاتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کی جاتی ہے اور کثرت رائے یا اتفاق رائے سے منظور یا مسترد کر دی جاتی ہے۔ انٹرپول کی ایک ’’ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ بھی ہے جو تیرہ اراکین پر مشتمل ہے۔ انٹرپول کے تحت دنیاکو ۱۳ بڑے حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، اس کمیٹی میں ہر حصے کی نمائندگی موجود ہوتی ہے اور کم ازکم ایک نمائندہ اپنے حصے کی نمائندگی کرتا ہے، جنرل اسمبلی اپنے سالانہ اجلاس میں ان ۱۳؍ نمائندوں کی منظوری دیتی ہے۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس تو سال بھرمیں ایک بار ہی ہوتا ہے لیکن ایگزیکٹو کمیٹی سارا سال اجتماعات منعقد کرتی رہتی ہے اور جنرل اسمبلی میں ہونے والے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے جنرل سیکرٹریٹ کو ہدایات جاری کرتی ہے اور پھر اس کی نگرانی بھی کرتی ہے اور کسی کمی بیشی کی صورت میں اس کا تدارک بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ جنرل اسمبلی کے اگلے سال کے اجلاس کا وقت آن پہنچتاہے۔
ہر رکن ملک پابند ہے کہ وہ اپنے ملک میں ’’نیشنل سینٹرل بیورو‘‘ NCB قائم کرے، یہ مقامی ادارہ انٹرپول سے اور انٹرپول کے دیگر رکن ممالک سے رابطے میں رہتا ہے۔ انٹرپول نے باہمی رابطوں، معلومات کے حصول اور ان کے ذخیرہ کے لیے اپنا ایک الگ سے مکمل نظام ترتیب دیا ہوا ہے۔ ہر سال انٹرپول کا عملہ ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں معلومات وصول کرتا ہے اور انہیں کارآمد بنانے کے لیے کئی درجوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حصولِ معلومات کے لیے انٹرپول کے کچھ خفیہ کارندے بھی دنیا بھر میں سرگرم رہتے ہیں۔ انٹرپول کا نظام دنیا کی چار بڑی بڑی زبانوں انگریزی، فرانسیسی، اسپینش اور عربی میں کام کرتا ہے۔ ۱۹۹۲ء سے متعلقہ تمام مواد کو اس طرح کمپیوٹر میں ترتیب دے دیا گیا ہے کہ کسی بھی جزو تک رسائی کرنا بہت سرعت کے ساتھ ممکن ہو جاتا ہے۔
۲۰۰۳ء میں اس نظام میں مزید جدید ترین تبدیلیاں کر کے اسے اور موثر کردیا گیا ہے، اور اب یہ مواد ان چار میں سے جس زبان میں چاہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس مواد میں مجرموں کے انگلیوں کے نقوش، ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج، دیگر جملہ معلومات، چوری شدہ مواد کی تفصیلات اور جرائم کے اوقات، جائے وقوعہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ نائن الیون امریکا میں حملوں کے واقعات کے بعد انٹرپول کے نظام میں بھی معمولی سی تبدیلیاں کی گئیں اور ۲۰۰۱ء سے سمندرپار کے ملکوں کے لیے پولیس ڈائریکٹرز کی اضافی تقرریاں عمل میں لائی گئیں تاکہ دہشت گردی پر خاطر خواہ قابو پایا جاسکے، جبکہ لاکھوں لوگوں کے مار دیے جانے کے باوجود ابھی تک ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف ہی نہیں کی جاسکی جوکہ ہنوز اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
’’انٹرپول‘‘ رکن ممالک کے داخلی قوانین کا احترام کرتا ہے اور مجرموں کی گرفتاری کے لیے براہ راست اپنے کارندے متعلقہ ملکوں میں روانہ نہیں کرتا، کیونکہ اس طرح ممالک کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت سے ان کی قومی خودمختاری متاثر ہوتی ہے، جس کی انٹرپول کے قوانین میں اجازت نہیں ہے۔ اس کے بجائے متاثرہ ملک کی درخواست پر انٹرپول ’’ریڈنوٹس‘‘ دوسرے متعلقہ ملک کو ارسال کر دیتا ہے، جہاں پہلے ملک کا مطلوب ملزم روپوش ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’یلونوٹس‘‘ گمشدہ افراد کی تلاش میں معاونت کے لیے جاری کیا جاتا ہے، ’’بلیو نوٹس‘‘ شناخت پریڈ کے لیے اور غیر قانونی محرکات کی پہچان کے لیے، ’’بلیک نوٹس‘‘ مطلوبہ افراد کی حوالگی کے لیے، ’’گرین نوٹس‘‘ ملکی ایجنسیوں کو خبردار کرنے کے لیے کہ وہ کسی دوسرے رکن ملک کے خلاف ناپسندیدہ سرگرمیاں ترک کردیں اور ’’اورینج نوٹس‘‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بم دھماکے وغیرہ کی اطلاع کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ انکوائری، گرفتاری اور تفتیش سب ہی متعلقہ ملک خود ہی کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر دونوں ملکوں کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ ہو تو یہ عمل بھی دہرایا جاتا ہے بصورت دیگر متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کرلی جاتی ہے۔
انٹرپول پوری دنیا کی پولیس ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی دفتری زبانوں میں صرف عربی ایک ایسی زبان ہے جو غیر یورپی علاقے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی وجہ بھی بآسانی سمجھ آسکتی ہے کہ عرب حکمرانوں سے رقم اینٹھنے کے لیے اور امت مسلمہ کے خلاف انہیں اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے خوش کرنا مقصود ہے۔ اپنی اقوام کے لیے یہ ادارہ کل وسائل واختیارات بروئے عمل لاتا ہے۔ لیکن افریقا اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں دو ٹانگوں پر چلنے والے انہیں انسان نظر نہیں آتے بلکہ وہ انہیں ایسا جانور گردانتے ہیں جن کے حقوق ان کے کتوں اور بلیوں سے بھی کہیں کم ہیں۔ کل انسانیت کے لیے انٹرپول کا کیا کردار ہے؟؟ یہ سوالیہ نشان یورپ کے ماتھے پر ہمیشہ کلنک کا داغ بنارہے گا۔
(بحوالہ: “mazameen.com”۔ ۴؍اپریل ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply