
ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرقِ وُسطیٰ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، خارجہ امور پر امریکی حکومت کے مشیر اور ایک معروف دانشور ہیں۔ اس وقت وہ امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ڈین اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نصر امریکا کے معروف ادارے ’کونسل آن فارن افیئرز‘ کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی محکمۂ خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی سے قبل وہ ٹفٹس یونیورسٹی کے ’فلیچر اسکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی‘ میں بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر نصر ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۱ء تک صدر براک اوباما کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان رچرڈ ہالبروک کے خصوصی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
موصوف کے اس انٹرویو میں بعض باتیں حقائق کے برخلاف ہیں۔ دیوبندی علما کو قیامِ پاکستان کا یکسر مخالف کہنا اور تحریکِ پاکستان میں قادیانیوں کے کردار سے متعلق دعوے ایسے ہیں، جن پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ مولانا مودودی کو اسلامی بنیاد پرستی کا نکتۂ آغاز قرار دینا بھی محلِ نظر ہے۔ موصوف کی پاکستان میں قادیانی مسئلے کے آغاز سے متعلق معلومات بھی ناقص ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا یہ انٹرویو پاکستان اور مسلم دنیا کے متعلق امریکی دانشور طبقے کے خیالات کو سمجھنے میں کار آمد ہوسکتا ہے۔ (ادارہ)
آپ کے خیال میں اسلام میں فرقہ واریت کی بنیاد کیسے پڑی اور اسلام کی تاریخ میں ایسے کون سے واقعات تھے جنہوں نے آنے والی صدیوں میں فرقہ وارانہ تصادم اور کشیدگی کو جنم دیا؟
یہ ایک بہت مشکل موضوع ہے۔ درحقیقت اس مسئلے کا تعلق تنوع یا اختلافِ رائے سے ہے اور اس بارے میں ہمارے دو رویے ہوتے ہیں۔ یا تو آپ اختلافِ رائے کو تسلیم کرتے ہیں یا اس کی موجودگی سے یکسر انکاری ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جب اسلام کی نام لیوا قابلِ ذکر قوتیں اس اختلافِ رائے اور دین کی مختلف تشریحات کی اجازت نہیں دیتیں۔ ان میں ایک رویہ جماعتِ اسلامی جیسی تنظیموں کا ہے جن کا ردِعمل پُرامن ہوتا ہے اور دوسری جانب ’القاعدہ‘ جیسے گروہ ہیں جو اس مسئلے پر متشدد رویہ اپناتے ہیں۔ لیکن مسئلہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ دونوں ہی طرح کے گروہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ سُنّی اسلام کی ایک سے زیادہ تشریحات بھی ہوسکتی ہیں۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کا باہمی تنازع بھی اس تنوع اور اختلافِ رائے کو تسلیم نہ کرنے کے رویے کا مظہر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے آغاز سے ہی متنوع رہا ہے۔ پیغمبرِ اسلام محمدؐ رسول بھی تھے اور حکمران بھی۔ اسی لیے ہم اسلامی ریاست کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ایک ایسی ریاست جو شریعت کی بنیاد پر قائم ہو۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کون سی شریعت اور کس کی شریعت؟ اب اگر اسلام صرف ذاتی عقائد سے بحث کرتا تو یہ کہنا آسان ہوتا کہ آپ جو چاہے عقائد رکھیے، کیوں کہ آپ کے عقائد آپ کی ذات تک محدود رہیں گے اور اسلامی تاریخ کے بیشتر دور میں مسلمانوں کے عقائد ان کا ذاتی معاملہ رہے ہیں۔
لیکن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے شروع ہونے والی اسلامی بنیاد پرستی کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس کے نظریات اسلام کی اس تاریخ سے منسلک نہیں۔ تنوع، تاریخ کا لازمی نتیجہ ہے۔ اور اس اصول کا عیسائیت، ہندو مت، یہودیت اور اسلام، سب پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ مختلف ثقافتوں اور ماحول میں مذہبی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں بھی تنوع اور اختلافِ رائے جنم لیتا ہے اور مختلف مذہبی نظریات، عقائد اور تعلیمات کا نتیجہ بھی تنوع اور اختلافِ رائے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی تنازع کی مثال کئی شاخوں والے ایک درخت کی سی ہے جس کی شاخیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود درختوں کی صورت اختیار کرجاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور سُنّی مکاتبِ فکر کے درمیان اختلافات آج بھی وہی ہیں جو ۱۴۰۰؍سال قبل تھے۔ ان کے درمیان سیاسی اور ثقافتی اختلافات، عقائد، قوانین اور مذہبی اداروں کے دائرہ اختیار پر اختلافات اور بحث ساتویں صدی عیسوی سے چلی آرہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اکیسویں صدی میں اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ یہ شیعہ اور سُنّی ایک دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئے ہیں؟ درحقیقت یہ مسئلہ تاریخی نہیں، بلکہ موجودہ دور کا ہے۔ کیوں کہ تاریخ کے بیشتر ادوار میں یہی شیعہ اور سُنّی بغداد سے کراچی اور دہلی سے لکھنؤ تک پُرامن بقائے باہمی کے تحت زندگیاں گزارتے رہے ہیں۔ مختلف معاشروں میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان شادی بیاہ عام بات تھی اور دونوں فرقوں کے افراد کے مابین خوشگوار سماجی تعلقات معمول کی بات تھے۔
میری رائے میں دونوں فرقوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کی ایک جڑ اسلامی بنیاد پرستی ہے جس نے دورِ جدید میں اسلام کے مزاج کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس بنیاد پرستی کا آغاز ۱۹۳۰ء کی دہائی سے ہوا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ تیل کی دولت نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو طاقت بخشی جو مخصوص سخت گیر نظریات کی حامل تھیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی کے پھیلنے میں جہاں سیاست اور تاریخ کا ہاتھ ہے، وہیں دولت بھی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ انہیں الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کو کئی لوگ محض ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ بعض دیگر افراد کے نزدیک یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
میرے خیال میں یہ مسئلہ مذہبی بھی ہے اور سیاسی بھی، اور کیوں نہ ہو۔ آخر کو پاکستان میں اس کے قیام سے ہی سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان سے ہجرت کیوں کی تھی؟ ظاہر ہے اس لیے کہ وہ مسلمان تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب آپ اس نئے وطن کے لیے سیکولر شناخت کا انتخاب کرسکتے تھے۔ لیکن ایسا ہونے سے قبل ہی ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد آگئی جس نے واضح کردیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور جب آپ نے یہ کہہ دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس ملک میں سیاست اسلام کے مطابق ہوگی اور یہیں سے یہ مسئلہ سیاسی ہوجاتا ہے۔
اب اگر یہ مان لیا جائے کہ اسلام سیاست کا ایک اہم جزو ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ کون سا اسلام؟ ہم اکثر کہتے ہیں کہ شریعت ہی اصل قانون ہے۔ لیکن کس کی شریعت؟ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی یا جعفری؟ ہمارے پاس تو شریعت کے پانچ بنیادی مکاتبِ فکر موجود ہیں۔ یہ مسئلہ اُس وقت بھی اٹھا تھا، جب جنرل ضیاء الحق نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان چوں کہ ایک اسلامی ریاست ہے، لہٰذا تمام مسلمان اپنی زکوۃ ریاست کو دیا کریں گے، کیوں کہ تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے۔ عباسی اور اموی خلفا کے دور میں زکوۃ کا انتظام و انصرام ریاست کے پاس ہوتا تھا۔ لیکن جنرل ضیاء کے اس حکم پر شیعوں نے ردِعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو سُنّی ریاست بنایا جارہا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے کیوں کہ پاکستان میں اسلام بھی سیاسی ہی رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی ۷۵ سے ۸۰ فیصد آبادی سُنّی ہے، وہ آخر شیعہ اقلیت کے بارے میں اتنی حساس کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو پاکستان میں طاقت کے سرچشموں کا تاریخی جائزہ لینا ہوگا۔ یہ درحقیقت طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔ پاکستان کو کنٹرول کرنے کی لڑائی اور مقاصدِ پاکستان کی تشریح کرنے کی لڑائی۔
ذرا ۱۹۵۳ء کو یاد کیجیے، جب پاکستان میں پہلے پہل قادیانی مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت جب ایک قادیانی کو وزیرِ خارجہ نامزد کیا گیا تو دیوبندی علما نے اس پر اعتراض کیا۔ اس وزیر نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا، وہ پنجاب میں پیدا ہوا تھا اور خود کو پاکستانی کہتا تھا۔ لیکن دیوبندی علما کا اصرار تھا کہ وہ شخص پاکستانی ہی نہیں کیوں کہ وہ سُنّی العقیدہ نہیں ہے اور اسی لیے اسے وزیر کا منصب بھی نہیں سونپا جاسکتا۔ ان علما نے اِسی پر بس نہیں کی، بلکہ انہوں نے تمام قادیانیوں کو ہی غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس دلچسپ حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھیے کہ دیوبندی علما کی اکثریت نے پاکستان کے قیام کی ہی مخالفت کی تھی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ نہ صرف اس کے شہری بن گئے بلکہ رہنما بھی قرار پائے، کیوں کہ وہ بھی سُنّی تھے اور ریاست بھی سُنّی ہوچکی تھی۔ اس کے برعکس شیعہ اور قادیانی، جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا، انہیں سرے سے پاکستانی ہی تسلیم نہیں کیا گیا، کیوں کہ پاکستان ایک سُنّی ریاست قرار پاچکا تھا۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اختیار کے حصول اور اس سرزمین کی شناخت کے تعین کی کوششیں ہی اس مسئلے کی بنیاد ہیں۔
پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہاں جاری تشدد میں ہر ممکن حد تک کمی لائی جائے۔ ریاست کو اس بارے میں سنجیدہ ہونا ہوگا۔ تشدد کے خاتمے کے لیے قومی اتفاقِ رائے تشکیل دینا ہوگا جو میری رائے میں اس وقت عنقا ہے۔ میرا ایک عرصے سے پاکستان آنا جانا ہے اور مجھے ان دوروں کے دوران اس بارے میں بہت سے شکوے شکایتیں سننا پڑتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جاری تشدد کے خلاف تاحال کوئی قابلِ ذکر مزاحمت پیدا نہیں ہوسکی ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کو اس تشدد کو روکنا ہوگا اور پھر سوچنا ہوگا کہ معاشرے کے بکھرے ہوئے تار و پود کو پھر سے کس طرح سمیٹا اور جوڑا جائے۔
عام تاثر ہے کہ سعودی عرب اور ایران پاکستان میں اپنی ’پراکسی‘ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ تاثر کتنا درست ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی سے پاکستان پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟
ایران اور سعودی عرب نے پاکستان میں اپنی پہلی ’پراکسی‘ لڑائی ۱۹۸۰ء کی دہائی میں لڑی تھی جس میں، میری رائے کے مطابق، سعودی عرب فاتح رہا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سرگرم ایران کے حمایت یافتہ عناصر کا اُن عناصر سے کوئی مقابلہ ہی نہیں، جنہیں سعودی عرب کی آشیرباد حاصل ہے۔ میری رائے میں پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں ایک اہم کردار سعودی عرب اور ایران کی اس سرمایہ کاری کا بھی ہے جو یہ ودنوں ملک ماضی میں پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے والے مدارس اور تنظیموں کے قیام اور نظریات کو فروغ دینے کے لیے کرتے رہے ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان بھی آج کل وہی کچھ بھگت رہا ہے، جو عراق، لبنان اور شام بھگت چکے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ کشیدگی اور ’پراکسی‘ جنگ کا میدان گرم ہونے کا امکان موجود ہے۔ لیکن ایسا ہونا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ اب پاکستان اپنے مسائل کو اپنے تئیں حل کرنے کا اہل ہوچکا ہے۔ اس لیے ایران کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کا امکان اب بہت کم ہے۔ خود ایرانی حکومت کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی ہے کہ پاکستان میں آباد شیعوں کے تحفظ کی ذمہ داری اس پر نہیں بلکہ پاکستانی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ایرانی حکومت یہ ذمہ داری اپنے سر لینے پر آمادہ نہیں اور چاہتی ہے کہ پاکستان اس مسئلے سے خود نبٹے۔
لیکن اگر مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید ابتر ہوئی تو پاکستان کو لازماً اس کے منفی اثرات بھگتنے پڑیں گے۔ کیوں کہ پاکستان کے اسلام پسند عناصر مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے، اس سے خود کو متعلق سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ دولتِ اسلامیہ (داعش) کے پُرتشدد نظریات کو پاکستان میں بھی کچھ حمایت میسر آجائے جس سے لازمی طور پر یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔
آپ نے اپنی کتاب ’دی ڈسپینسیبل نیشن‘ میں موقف اختیار کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال میں کوئی سرگرم کردار ادا کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ کیا آپ کے خیال میں ’دولتِ اسلامیہ‘ (داعش) کے عروج کے بعد امریکا اس حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرے گا؟
میرے خیال میں امریکا اس پالیسی پر نظرثانی کرچکا ہے۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ اوّل تو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی مداخلت کے خاتمے کا فیصلہ تھا جس کا نتیجہ عراق سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لیکن اس فیصلے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ امریکا شام اور وہاں جاری بحران کے خاتمے میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہ کرسکا۔ امریکا کی اس بے عملی کا نتیجہ داعش کے عروج کی صورت میں نکلا۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں فوجی مداخلت سے گریز کی امریکی حکمتِ عملی نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ امریکا کے لیے اس حکمتِ عملی پر کاربند رہنا ناممکن ہوگیا۔
جب دولتِ اسلامیہ کی کارروائیاں حد سے بڑھیں تو صدر براک اوباما نے دوبارہ خطے میں سرگرم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری رائے میں انہوں نے یہ فیصلہ مجبوراً کیا ہے، کیوں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی راہ نہیں تھی۔ لہٰذا امریکی فوجیوں کو دوبارہ عراق بھیجا گیا ہے گو کہ ان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یوں وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ صدر براک اوباما مشرقِ وسطیٰ سے گریز کی جو پالیسی بنا چکے تھے، انہیں اس پر نظرثانی کرنا پڑی ہے، کیوں کہ اُن کے لیے اس پر عمل درآمد ممکن نہیں رہا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امریکا کی یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام رہی ہے، کیوں کہ اس نے مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔ میرے خیال میں واشنگٹن اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیوں کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف اس کی کارروائی کا ہدف صرف شدت پسند تنظیم کا زور توڑنے اور اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت کے خاتمے تک محدود ہے۔ امریکا نے دولتِ اسلامیہ کی تشکیل کا سبب بننے والے حالات، یعنی عراق اور شام میں جاری خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں دونوں ریاستوں کی کمزوری، کو درست کرنے کے لیے کسی عزم یا جوش و خروش کا اظہار نہیں کیا ہے۔
تو کیا ایران کے ساتھ امریکا کی بڑھتی ہوئی قربت کو مشرقِ وسطیٰ کے انہی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے؟
اوباما انتظامیہ ہمیشہ سے ہی ایران کے ساتھ تنازعات طے کرنے کی خواہاں تھی۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ ایران کا مسئلہ حل کرنا ان کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان کے خیال میں اگر امریکا ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، تو اسے ایران کے ساتھ اپنے تنازعات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ خود امریکی صدر کی ٹیم یہ سمجھتی ہے کہ اس تنازع کو حل کرکے صدر اوباما تاریخ میں امر ہوسکتے ہیں۔
صدر براک اوباما کے پہلے دورِ صدارت میں صدر محمود احمدی نژاد کی وجہ سے ایران کے ساتھ معاملہ کرنا ان کی انتظامیہ کے لیے بہت مشکل ہوگیا تھا۔ شاید ایران بھی اس وقت اپنے تنازعات طے کرنے میں سنجیدہ نہیں تھا۔ لہٰذا امریکا نے ایران پر پے در پے اتنی پابندیاں عائد کیں کہ تہران کو یہ احساس ہونے لگا کہ تنازع کو حل کیے بغیر اس کا گزارہ مشکل ہوجائے گا۔
پھر ایران میں صدر روحانی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ فریقین کے درمیان مذاکرات میں سنجیدگی آنی شروع ہوئی۔ صدر روحانی خود بھی جوہری تنازع کے حل کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں لہٰذا مذاکرات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ امریکا کے تعلق کی نوعیت خطے کے دیگر ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ صدر براک اوباما کبھی بھی ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے حامی نہیں رہے اور ایرانی بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اسی لیے اوباما انتظامیہ نے عراق، شام، لیبیا یا یمن کی طرح ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے بجائے اقتصادی پابندیوں کا راستہ اختیار کیا۔
(مترجم: ابنِ ریاض)
“Interview: Dr Vali Reza Nasr”.
(“Newsline Magazine” December 12, 2014)
جناب ولی نصر کا تجزیہ کئی پہلووں سے قابل تعریف ہے۔ لیکن مسلمانوں میں موجودہ فرقہ واریت کے فروغ اور عدم برداشت کا سبب بیان کرنے میں اسی دقیانوسی استدلال کا شکار ہوگئے ہیں جو عام طور سے مسلم دانشوروں کے بیانیئے میں کافی دنوں سے رائج ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انسانی سماج میں فکری اختلافات کا سر چشمہ صرف مذہب ہی رہا ہے یا اس کے پیچھے دوسرے بڑے محرکات پائے جاتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے یہ دعوی درست نہیں۔ قدیم یونان سے جدید دور تک مذہب کے علاوہ بھی خالص انسانی سیکولر افکار نے باہم دست و گریباں ہونے والی فرقہ واریت کو جنم دیا ہے۔ لہذا مذہب ہو یا لامذہب انسانی سماج سے کامل ہم آہنگی کی توقع ایک خیالی بات ہے۔ اب اگر لا مذہبی اختلافات کے باوجود، بلکہ اس کی بنیاد پر لڑی جانے والی گرم اور سرد جنگوں کے باوجود، سیکور قرارداد مقاصد کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی تو مذہبی قرارداد مقاصد کو مذموم گردان نے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ سے بھی یہ دلیل میل نہیں کھاتی کیونکہ نصر صاحب بھی تسلیم کریں گے کہ اسلام کی ابتدائی صدی سے ہی مذہبی اختلاف کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان گوہوں کی تشکیل ہوتی رہی اور مسلم ریاستوں نے اسلامی قوانین، اداروں اور اسلامی معاشرتی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے فرقہ واریت کے مسائل کو کامیابی کے ساتھ قابو میں رکھا۔ اور اس حقیقت کو بھی سامنے رہنا چاہئے کہ ابتداءً سے آج تک مسلم سماج میں اختلاف فکر و فرقہ کے سلسلے میں صرف دو ہی رویہ اقرار اور انکار کا نہیں بلکہ قابل قبول انکار و اقرار کا بھی رہا ہے جسے سواد اعظم کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے اور اسی سواد اعظم کے تئیں مسلم حکومتیں اپنا رجحان رکھتی تھیں اور مسلم معاشرہ اسے طاقت بخشتا تھا۔ مسلم اقتدار اور مسلم معاشرہ کی ہم آہنگی سے وہ امن و سکون میسر آتا تھا جہاں فرقہ وارانہ اختلافات عام طور سے اپنی حد میں رہتے تھے اور اگر کبھی فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کرتے تو ریاست اور معاشرہ دونوں ہی اس پر قابو پانے کے لئے متحرک ہو جاتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جناب ولی نصر نے اختلاف اور فکری تنوع کے بارے میں جماعت اسلامی کے کس فکری یا عملی رویے سے وہ نتیجہ نکالا ہے یا قادیانی مسئلہ پر علماء کے اصل موقف کے بارے میں کن ماخذ پر اپنی رائے پیش کی ہے۔ جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ علماء کا عمومی موقف قدامت کے ساتھ ساتھ تجدید و اجتہاد کے اقرار اور تجدد پسندی اور مغربیت کے استرداد کی طرفف ہمیشہ سے ہی مائل رہا ہے۔ سے