فیصل عبدالرؤف کو راتوں رات بین الاقوامی شہرت ملی ہے۔ نیو یارک میں نائن الیون سے قبل جس مقام پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا۔ اس کے نزدیک ہی مسجد اور اسلامی تعلیمات کے مرکز کی تعمیر کے حوالے سے فیصل عبدالرؤف کو اسلامی اور مغربی دنیا میں بہت سے لوگ پہچانتے ہیں۔ زیر نظر انٹرویو میں انہوں نے اسلامی دنیا کے انتہا پسندوں کی جنونیت پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
نیوز ویک: کیا موسم گرما کے واقعات نے آپ میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ آپ کے سوچنے اور عمل کرنے کے انداز کو بدلا ہے؟
فیصل عبدالرؤف: میں نے بہت کچھ سیکھا۔ سب سے اہم درس یہ تھا کہ لڑائی مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان نہیں۔ اصل جھگڑا تو کسی بھی مذہب کے اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے درمیان ہے۔ میں اس جنگ میں انہیں بھی شریک کرتا ہوں جو مذہب کے لیے معاندانہ سوچ اور طرز عمل رکھتے ہیں اور کسی خالق کے وجود کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔
انقلاب پسند در اصل ایسے پارٹنر ہیں جو کسی بھی معاملے میں حقیقی مطلوبہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کی سرگرمیاں ایک دوسرے کو اکسانے کا سبب بنتی رہتی ہیں۔
موسم گرما میں جب گراؤنڈ زیرو کے نزدیک مسجد اور اسلامی مرکز کی تعمیر کی مخالفت کی گئی تو بہت سے لوگوں نے ہماری حمایت کی۔ امریکا بھر کی ریاستوں سے ہمیں ای میلز آئیں اور لوگوں نے عطیات بھی دیے۔ در حقیقت چھ ممالک سے ہماری حمایت میں لوگوں نے آواز بلند کی۔ اب ہم نے اس پورے معاملے کو تحریکِ قرطبہ کا نام دے دیا ہے۔ ہم صرف سائبر اسپیس کی بات نہیں کر رہے۔ دنیا بھر میں قرطبہ ہاؤسز تعمیر کیے جائیں گے جو ان تمام لوگوں کے لیے ایک معیاری ٹھکانہ ہوں گے جو اعتدال پسند ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب یا خطے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت خاموش رہتی ہے۔ انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
نیوز ویک: گراؤنڈ زیرو کے نزدیک مسجد اور اسلامی مرکز کی تعمیر کا کیا شیڈول طے ہوا ہے؟
فیصل عبدالرؤف: میرے لیے ٹائم لائن دینا دشوار ہے۔ تعمیراتی کام اب تک شروع ہو جانا چاہیے تھا۔
نیوز ویک: آپ اس تعمیراتی منصوبے کو کیا نام دیں گے؟
فیصل عبدالرؤف: قرطبہ ہاؤس، پارک ففٹی ون۔
نیوز ویک: اگست میں جب امریکی صدر براک اوباما نے مسجد اور کمیونٹی سینٹر کے لیے حمایت کم کردی تھی تب آپ کو کیسا محسوس ہوا تھا؟
فیصل عبدالرؤف: ہم پہلے یہ سوچتے تھے کہ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ مگر خیر، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا میں وسط مدتی انتخابات کے دوران دائیں بازو والوں کو کوئی نہ کوئی اشو درکار تھا۔
نیوز ویک: اینٹی ڈی فیمیشن لیگ کے ڈائریکٹر ابراہم فوکس مین کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جنہوں نے مسجد کا مقام تبدیل کرنے پر زور دیا تھا؟
فیصل عبدالرؤف: میں تو یہی کہوں گا کہ اسلام سے خوفزدہ ہونا بھی یہودیوں کی مخالفت ہی کی ایک شکل ہے۔ جس طرح لوگ یہودیوں سے نفرت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے اُسی طرح اب اسلام اور مسلمانوں کو بھی مخالفت اور مخاصمت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جو آپ کی لڑائی ہے وہی ہماری بھی لڑائی ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے خلاف ہونے والی لڑائی میں ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
نیوز ویک: بعض حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ آپ ’’ناکافی‘‘ مسلمان ہیں؟
فیصل عبدالرؤف: یہ کہنا سراسر حماقت پر مبنی ہے۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے ایمان کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ’’کسی بھی شخص کا مواخذہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی مواخذے کا سامنا کرنا پڑے‘‘۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے ایمان کو پرکھنے کے بجائے اپنے نظریات اور اعمال پر غور کرنا چاہیے۔
نیوز ویک: کیا آپ قرطبہ ہاؤس کو کسی نئی جگہ پر لے جانا پسند کریں گے؟
فیصل عبدالرؤف: اس وقت ہم لوگوں کو اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے اور انہیں اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری موجودہ کمٹمنٹ تو یہ ہے کہ قرطبہ ہاؤس وہیں مکمل ہو جہاں اسے مکمل ہونا ہے۔
نیوز ویک: آپ نے سوال کا جواب نہیں دیا۔
فیصل عبدالرؤف: سر دست تو میں معاملات سے وابستہ رہنے کا پابند ہوں۔
نیوز ویک: حماس کی مذمت کرنے کے معاملے میں آپ کے غیر واضح رویے پر شدید نکتہ چینی بھی کی گئی ہے۔ کیا حماس دہشت گرد تنظیم نہیں؟
فیصل عبدالرؤف: حماس کو دہشت گرد تنظیم ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
نیوز ویک: ان لوگوں کی تنقید کا آپ کیا جواب دیتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ قرطبہ ہاؤس دراصل مسلمانوں کی برتری اور اجارہ داری کی علامت ہے؟
فیصل عبدالرؤف: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ ’’تم کسی بھی شخص کو اس کے اعمال کے نتیجے سے پہچان سکتے ہو‘‘۔ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں، جو منصوبہ بندی ہے اس کے حوالے سے ہم بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ ہم نے اپنے منصوبے کو تکمیل سے ہمکنار کرنے کے لیے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے مدد مانگی ہے۔ ہم نے لوگوں کو دعوت دی ہے کہ وہ آئیں، دیکھیں، بات کریں، بحث کریں اور خود اندازہ لگائیں کہ کیا یہ واقعی مسلم برتری ہے! میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں کو بلانا اور اپنے معاملات میں شریک کرنا آسان ہے مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غلط فہمیوں کو دور کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور بڑی تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو اسامہ بن لادن اور فلوریڈا کے پادری کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے جس نے قرآن کے نسخے کو شہید کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر غلط فہمیاں دور نہ کی گئیں تو توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے رہیں گے۔ یہ بے عقلی پر مبنی جنونیت اور انتہا پسندی اب ختم ہونی چاہیے۔ یہ جنون اب ہمیں روکنا ہی پڑے گا۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۳ دسمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply