
یمنی رہنمائوں میں عبداللہ السعیدی کا اہم مقام ہے۔ وہ ۹ سال تک اقوامِ متحدہ میں یمن کے مستقل مندوب رہے اور یمنی عوام کے خلاف علی عبداللہ صالح کی حکومت کے سفاک کریک ڈائون پر احتجاج کرتے ہوئے مارچ ۲۰۱۱ء میں مستعفی ہو گئے۔ گزشتہ ماہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ استنبول آئے تو ان کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ اس انٹرویو میں عبداللہ السعیدی نے ترک رہنما مصطفی کمال پاشا کے سیکولر ماڈل کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے موجودہ اعتدال پسند اور اسلام نواز ماڈل کو قابل قبول اور قابلِ تقلید قرار دیا۔ یہ انٹرویو علی عبداللہ صالح کے ترکِ اقتدار اورامریکا روانگی سے قبل ریکارڈ ہوا۔ صدر علی عبداللہ صالح کے امریکا چلے جانے کے بعد اب اقتدار ان کے نائب منصور ہادی کے ہاتھ میں ہے۔ عبوری حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئین کی تشکیل نو، حکومتی ڈھانچے کا تعین اور انتخابات کا انعقاد ہے۔
عبداللہ السعیدی سے انٹرویو میں یمن کے حالات، خطے کی صورتحال اور ملک کے مستقبل پرگفتگو ہوئی۔ انٹرویو کے اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔
٭… آپ نے مارچ ۲۰۱۱ء میں ۵۲ ہلاکتوں پر استعفیٰ دیا۔ کیا یہ حکومت مخالف تحریک میں ٹرننگ پوائنٹ تھا؟ عبداللہ السعیدی: مجھے ہلاکتوں پر بہت صدمہ پہنچا۔ میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ حکومتی منصب پر مزید رہوں۔ پرامن مظاہرین کے خلاف اس طرح بے دردی سے کارروائی کا فورسز کے پاس کوئی اختیار نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اقوام متحدہ میں سفیر کے منصب پر رہا تو اپنے ضمیر کے مطابق کوئی بات نہ کہہ سکوں گا۔ اس منصب پر رہنے کا میرے پاس کوئی اخلاقی جواز نہ رہا تھا۔ میں نے اصلاحات کامشورہ دیا تھا مگر نظرانداز کر دیا گیا۔
٭… اصلاحات سے کیا تبدیلی متوقع تھی؟
عبداللہ السعیدی: کرپشن کے خلاف لڑنا لازم ہے۔ ملک شمال اور جنوب میں منقسم ہے۔ شمالی اور جنوبی یمن ایک ہو چکے ہیں۔ مگر نادیدہ تقسیم ہے۔ جنوب میں لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کرپٹ لوگوں کو قبول کر رہی ہے۔
٭… آپ نے طویل مدت سفارتی عہدوں پر کام کیا ہے۔ اب ایک تھنک ٹینک میں کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
عبداللہ السعیدی: میری نئی جاب بھی بہت اچھی ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر پر میری نظر ہے۔ ہر ملک کے منفرد حالات ہیں۔ میں کانفرنس میں شرکت کرتا ہوں۔ عرب دنیا کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا میرا فرضِ منصبی ہے۔ استنبول آتا رہا ہوں۔ ۱۹۹۶ء میں سلطنت عثمانیہ کے آرکائیوز کا جائزہ لینے آیا تھا۔ تب میں تحقیق کر رہا تھا۔ بحیرۂ احمر کے حنیش جزائر پر دعوے کے حوالے سے یمن اور اریٹیریا کے درمیان مصالحت کے لیے قائم کمیشن کی طرف سے بھی میں استنبول آیا۔
٭… یمن میں لوگ ترکی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عبداللہ السعیدی: یمن کے لوگ ترکی کے بارے میں مجموعی طور پر مثبت رائے رکھتے ہیں۔ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ترکی ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بہت خوش ہیں کہ ترکی میں اب ایک اسلام نواز حکومت ہے۔
٭… علی عبداللہ صالح کے نائب منصور ہادی کے بارے میں یمن میں اپوزیشن کی مجموعی رائے کیا ہے؟
عبداللہ السعیدی: ان کے بارے میں اپوزیشن کی رائے مثبت ہے۔ لوگوں کو ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ وہ ۲ سال کے لیے عبوری صدر کے منصب پر فائز رہیں، نئے آئین کی راہ ہموار کریں، حکومتی نظام کے تعین میں مرکزی کردار ادا کریں اور عام انتخابات کی تیاری کی نگرانی کریں۔ اس سلسلے میں ایک کمیشن کا قیام ناگزیر ہے۔ اگر ریفرنڈم میں سیاسی اصلاحات کو منظوری ملی توعام انتخابات کی راہ تیزی سے ہموار ہوگی۔
٭… یمن میں حکومت کے خلاف تحریک کیسی رہی؟
عبداللہ السعیدی: مصراور شام میں زیادہ خون خرابہ ہوا۔ یمن میں پرتشدد واقعات بھی کم ہوئے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی کم رہی۔ یمن مختلف ادوار سے گزرا ہے۔ یہ رومن سلطنت سے پرانا ملک ہے۔ ملک قبائل میں منقسم ضرور ہے مگر مجموعی طور پر لوگ مل کر رہتے ہیں۔ باہم لڑائی کم ہوئی ہے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ یمن میں لوگ چونکہ زیادہ مسلح ہیں اور اس لیے زیادہ خون خرابہ ہوگا مگر ایسا نہیںہوا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ لوگ مل کر رہتے ہیں۔ ۱۸ مارچ ۲۰۱۱ء کو فورسز نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ شارٹ شوٹرز اور اسنائپرز نے ۵۰ سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا مگر پھر بھی عوام مشتعل نہ ہوئے اور پرامن مظاہرے کرتے رہے۔ یمنی عوام کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ وہ قتل و غارت کو پسند کرتے ہیں۔
یمن میں امن کی گفت و شنید کے ساتھ ساتھ لوگ مظاہرے بھی کرتے رہے کیونکہ وہ اصلاحات چاہتے تھے۔ شمالی یمن میں مجموعی طور پرغیر موثر حکومت ہے۔ جب حالات خراب ہوئے تو بہترین فورسز کو یمن سے نکال کر صنعا میں صدارتی محل کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا۔ شمال میں قتل و غارت زیادہ ہوئی۔ سلافیوں کو قتل کیا گیا۔ پھر زیدیوں کو کافر قرار دیا گیا۔ حکومت نے وہاں کرپشن پر قابو پانے کو ترجیح نہیں دی۔
٭… القاعدہ کا یمن میں کہاں تک اثر ہے؟
عبداللہ السعیدی: یمن کے بحران میں القاعدہ محض ایک فریق ہے۔ چند علاقوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا اثر ہے۔ حکومت نے شمالی یمن میں اپنی عملداری قائم کرنے پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی۔
٭… عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے حوالے سے ترکی کا کیا کردار ہے یا ہو سکتا ہے؟
عبداللہ السعیدی: ترکی نے اعتدال پسند طرزِ عمل اختیار کر کے عرب دنیا میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے) نے سیکولر نظام سے متصادم ہونے کے بجائے اس سے اشتراکِ عمل کے ذریعے اس کے اثرات گھٹانے کی کوشش کی۔ یہ کہا جارہا تھا کہ اسلام پسند عناصر سیاحت کی راہ میں دیوار بنیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں ترک سیاحت ۸ ارب ڈالر کما کر دیتی تھی۔ گزشتہ برس ترکی نے سیاحت کے شعبے سے ۳۰ ارب ڈالر کمائے؎ اسلام پسند عناصر نے قومی وحدت کو اہمیت دی اور سیکولر قوتوں کے ساتھ مل کر اپنی پوزیشن منوائی اور مستحکم کی۔ اگر اسلامی وراثت کے احیاء کی بات نظام سے متصادم ہو کر کی جاتی تو مؤثر نہ ہوتی۔
ترکی میں رونما ہونے والی تبدیلیاں عرب دنیا کے لیے محرک کا درجہ رکھتی ہیں۔ کمال اتاترک کا متعارف کرایا ہوا سیکولر ماڈل عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ اعتدال پسندی ہی کو قبول اور برداشت کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ترکی میں اعتدال پسند رویے کی بنیاد رکھی ہے۔
٭… ترکی سے یمن کیا چاہتا ہے؟
عبداللہ السعیدی: یمن میں حالات خاصے مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ مصراورشام کی طرز پر یہاں بہت خون خرابہ نہیں ہوا۔ اس حوالے سے یقینی طور پر ترکی بھی یمن پر کم ہی توجہ دے گا۔ شام اور لیبیا ترکی کے لیے فطری طور پر زیادہ اہم ہیں۔ شام چونکہ ترکی کا پڑوسی ہے اس لیے اس پر ترکی کا زیادہ متوجہ ہونا فطری ہے اور حیرت انگیز نہیں۔
یمن اور ترکی کے تاریخی روابط بھی ہیں۔ یمن نے ترکی کے خلاف اجتماعی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیاتھا۔ آج بھی ترکی میںیمن کے لوگوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
٭… انسانی حقوق کی یمنی خاتون توکل کرمان کو امن کا نوبل انعام دیے جانے پر آپ کی کیا رائے ہے؟
عبداللہ السعیدی: مغرب دراصل یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اب اسلام پسندوں سے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسلامی نظریات اور تہذیب کی بات کرنے والوں کو حکومتی امور میں آزمایا نہیں گیا لیکن اب مغرب انہیں گرین سگنل دے رہا ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی حکومت بھی قبول کی جائے گی۔ اخوان اور دیگر اسلام پسند گروپوں کے بارے میں بہت کچھ فرض کر لیا گیا ہے۔ ایک عام رائے یہ ہے کہ اسلام پسند عناصر صرف کہنے کی حد تک ہیں۔ اگر انہیں حکومت دی گئی تو ناکام ثابت ہوںگے۔ مسئلہ یہی ہے کہ پہلے سے طے کر لیاگیا ہے کہ وہ حکومت نہیں کر پائیں گے، یہ غلط ہے۔ انہیں بھی حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ان کی صلاحیتوں کا پتہ چلے۔ اخوان المسلمون نے ہر ملک میں اس کے حالات کے مطابق فروغ پایا ہے۔ کہیں وہ لچکدار ہے اور کہیں کم لچکدار۔ اگر ہم اخوان اور دیگرگروپوں کو حکومتی سطح پر آزمائے بغیر کوئی رائے قائم کریں گے تو یہ زیادتی ہوگی۔
٭… یہ خدشہ بھی تو ہے کہ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں کہیں پورے خطے میں اخوان المسلمون کے اثرات قائم نہ ہو جائیں؟
عبداللہ السعیدی: اخوان کا طرز عمل ہر ملک میں مختلف ہے۔ اس حوالے سے بدگمانیوں کی گنجائش نہیں۔ ہمیں تمام انڈے ایک باسکٹ میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے گروپوں اور لوگوں میں شدت کا فرق پایا جاتا ہے۔
اخوان کے بارے میں مغرب کی رائے میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ محسوس کیا جارہا ہے کہ اب وہ اخوان اور اس سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو آزمانا چاہتا ہے۔ یہ اچھی تبدیلی ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ تیونس کے اسلام پسند لیڈر راشد الغنوشی نے کہا ہے کہ وہ حکومت چلانے کے تو خواہش مند ہیں مگر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنا پسند نہیں کریں گے۔ اس سے سوچ کی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے۔ ساتھ میں اخوان کے رہنمائوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ تہذیبوں یا ثقافتوں کے تصادم کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے۔
میری رائے یہ ہے کہ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی گروپوں کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ توقعات پر پورے نہ اترے تو عوام ووٹ کے ذریعے انہیں ہٹا دیں گے۔
(عبداللہ السعیدی آج کل نیویارک کے انٹرنیشنل پیس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۱ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں یمن کے مستقل مندوب رہے۔ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۲ء تک وہ نائب وزیر خارجہ رہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۲ء تک انہوں نے نیشنل آربیٹریشن کمیشن فار اریٹیریا میں خدمات انجام دیں۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۱۱؍دسمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply