
سوال:۔ اپنے شوہر ڈاکٹر محمد مرسی کی بحیثیت صدرِ جمہوریہ مصر، کامیابی کی خبر سُن کر آپ کو کیسا لگا؟
جواب:۔ بہت سارے مصریوں کی طرح میں بھی اس خبر کو سُن کر خوش ہوئی۔ محض اس لیے نہیں کہ کامیاب ہونے والا صدر میرا شوہر ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ مصر کی تاریخ کے انقلابِ عظیم کا امیدوار ہے، جسے کامیاب بنانے کے لیے مصر کے سارے مخلصین نے قربانی دی ہے اور مجھے پورا یقین تھا کہ اللہ ہمیں ہر گز بے یار ومددگار نہیں چھوڑے گا۔ ڈاکٹر محمد مرسی ہمارے اندر ہمیشہ امید کی شمع روشن کرتے رہتے تھے اور اللہ عزوجل کی ذات ہمہ صفات پر کلی اعتماد کی تاکید کرتے تھے اور سورۂ یونس کی آیت نمبر ۸۱ ’’یقینا اللہ تعالیٰ مفسدین کے عمل کو بار آور نہیں کرتا‘‘ برابر وردِ زبان رہتی تھی۔ میں سنتی تھی کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتے تھے ’’اے بار الٰہی! آپ سب کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اور ساری چیزیں آپ کے احاطۂ علم میں ہیں کہ میں اپنے بلد عزیز کے لیے خیر کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا‘‘۔ صدارتی انتخابات کے نتیجے کے اعلان سے پہلے ملک کے اندر پروپیگنڈے اور افواہوں کا طوفان ہر طرف بپا تھا۔ لیکن جہاں ایک طرف افواہوں کا طوفان برپا تھا وہیں ہم ان ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے تھے، جو باری تعالیٰ میں بلند ہو کر کہہ رہے تھے، ’’اے پروردگار! ہمیں بے سہارا نہ چھوڑیو‘‘۔ نتیجے کے اعلان کے بعد میری یہ آرزو تھی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی، مگر میں ڈھیر سارے عائلی ظروف کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی اور اپنے شوہر کی کامیابی کے بعد جب میں اُن سے ملی تو میں نے ان سے کہا ’’میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ کے قدم جما دے اور آپ مصر کے تعلق سے جس خیر کے آرزو مند ہیں، اس کی تکمیل کے ذریعے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے‘‘۔
سوال:۔ صدر جمہوریہ کی بیگم کی حیثیت سے آپ کا کردار کیا ہوگا؟
جواب:۔ جہاں تک اپنے شوہر کے ساتھ میرے کردار کا تعلق ہے، تو میرے خیال میں ان کے تئیں میری جو ذمہ داریاں ماضی میں تھیں، آج ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوں گی۔ ڈاکٹر مرسی سیاسی میدان میں پہلی بار نہیں آئے ہیں۔ اس سے پہلے جماعت اخوان المسلمون کے مکتب الارشاد کے ممبر تھے۔ پھر ’’جسٹس اینڈ فریڈم‘‘ پارٹی کے صدر بنے اور نہ جانے کتنی بار وہ گرفتار کیے گئے اور حوالۂ زنداں کیے گئے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوا کہ جماعتی ضرورت کے باعث انہیں اپنی فیملی سے دور رہنا پڑا۔ زندگی میں ان کا طریقِ کار یہ ہے کہ وہ جس جگہ اور جس منصب پر ہوتے ہیں، اپنی مطلوبہ ذمہ داریوں کو مکمل صورت میں ادا کرنے کے لیے انتہائی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے مسلسل مصروف ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ماضی کے مقابلے میں اب انہیں ہمارے تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی اور جہاں تک وطنِ عزیز کا تعلق ہے تو میرے اوپر وہی ذمہ داری ہے جو تمام مصری خواتین پر عائد ہوتی ہے اور وہ یہ کہ میں اپنے وطن کے لیے فکرمند رہوں اور حتی المقدور اس کی خدمت کروں۔
الحمدللہ ایک مدت دراز سے اللہ نے مجھے رضاکارانہ اور سماجی کاموں میں شرکت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ہاں البتہ اس سے پہلے میں اپنے کو نمایاں نہیں کرتی تھی اور میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ سرکاری ریکارڈ میں میرا نام نہ آنے پائے۔ کیونکہ سابقہ نظام ہمیشہ ڈاکٹر محمد مرسی کے تعاقب میں رہتا تھا اور میں اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر کسی اجتماعی سرگرمی میں میرا اور میرے شوہر کا نام پایا گیا تو سرے سے اس اجتماعی کام کو روک دیا جائے گا اور بسا اوقات اس کام کو انجام دینے والے سارے ہی لوگوں کو پریشانی سے دوچار ہونا پڑ جائے اور میں آج بھی ماضی کی طرح اپنی اجتماعی سرگرمیوں میں لگی ہوئی ہوں۔ لیکن اب ان شاء اللہ یہ کام زیادہ قوی اور وسیع پیمانے پر ہوگا اور جہاں تک سیاسی فیصلوں کا تعلق ہے تو یہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں ان میں کسی طرح مداخلت کرتی ہوں۔ بلکہ اُن فیصلوں کا علم مجھے بھی اسی وقت ہوتا ہے جب پوری مصری قوم کو ہوتا ہے۔
اگر میں کہوں کہ فیصلوں سے متعلق کسی چیز کے بارے میں صدر محترم سے کوئی سوال نہیں کرتی ہوں تو اس میں ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ملک کے عام مسائل و امور کی بابت میری ان کی گفت شنید ہوتی ہی نہیں اور میں ان سے بہت زیادہ ملاقات کا موقع بھی نہیں پاتی ہوں، کیونکہ ان کا وقت بہت تنگ ہے۔ ہاں البتہ اپنے علاوہ دوسرے مصریوں کی طرح میں بھی ملک کے اندر سیاسی افق پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ جمائے رہتی ہوں۔ میں بھی صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی صلاحیتوں اور صدارتی ادارے میں موجود اُن کے معاونین پر بھرپور اعتماد کرتی ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود میرا اللہ پر اعتماد ہر چیز سے بڑھ کر ہے اور میرا یقین کامل ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
سوال:۔ آپ نے قاہرہ میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی ویمن جنرل سیکرٹریٹ میں ’’رضاکار برائے ترقی‘‘ کے نام سے ایک منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے کون سی فکر کارفرما ہے؟
جواب:۔ منصوبے کا مقصد ڈاکٹر محمد مرسی صدر مصر کی معاونت کے لیے عوامی کوششوں کو یکجا کرنا ہے تاکہ ملک کی ترقی کے منصوبے کو بروئے عمل لایا جاسکے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کا نعرہ ’’ترقی کا انحصار قوم کے عزم و ارادے پر‘‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک اس وقت تک کامیابی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا جب تک سرکاری کوششوں کے ساتھ قومی جدوجہد بھی شامل نہ ہو جائے۔ ہم نے اس منصوبے کا آغاز اس لیے کیا ہے کہ ملک کے اندر اس کی حیثیت ایک مضبوط داخلی محاذ کی ہے۔ بالعموم عورت ہی خاندان کے اندر ترقی کی خاطر جدوجہد کے لیے فضا بناتی ہے اور خاندان کے تمام افراد کو ملک کی ترقی ہی کی خاطر کام کرنے کے لیے آگے بڑھاتی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ سماج کے مختلف طبقات سے خواتین کی کافی بڑی تعداد نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ یقینا یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لیے عوامی صف بندی ان شاء اللہ کامیابی کی اولین ضمانت ہوگی۔
سوال:۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ آپ کو ذرائع ابلاغ سے دشمنی ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ میں ذرائع ابلاغ کی دشمن نہیں ہوں۔ میں نے چاہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں اپنے آپ کو پیش کروں اور لوگوں سے گفتگو کروں۔ میری آرزو تھی کہ میں صحافیوں کے سامنے ایک اسلام پسند صدر کی بیوی کی حیثیت سے ایک اچھی تصویر پیش کرتی اور ایک ایسی مسلمان عورت کی شکل میں اُن کے سامنے آتی جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور وطن کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی ذرائع ابلاغ پر مجھے بہت زیادہ اعتماد نہیں ہے اور اسی قلتِ اعتماد کے باعث میں ذرائع ابلاغ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ کھلا ہوا جھوٹ اور سر سے پیر تک گھڑی ہوئی افواہیں پھیلانا ان کا شیوہ ہے۔ گزشتہ دنوں بعض صحافیوں کی طرف سے میری فیملی اور میرے شوہر کے تعلق سے جو پروپیگنڈا مہم چھیڑی گئی تھی، اس کی وجہ سے میں سارے صحافیوں سے معذرت کرنے لگی۔ میری اس بیزاری کا مقصد صحافیوں کو موردِ الزام ٹھہرانا ہرگز نہیں ہے، بلکہ میں ایسا اس سبب کر رہی ہوں کہ کہیں میری بات کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جائے یا میری بات سے کوئی ایسا نتیجہ نکالا جائے جس کی وہ متحمل نہ ہو۔ میری اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں اظہارِ رائے کی آزادی کی نفی کر رہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی معاملے میں اظہار رائے ایک الگ چیز ہے اور دوسروں کے خلاف زبان درازی کرنا اور ان کی اہانت و رسوائی کے درپے ہونا، ایک دوسری ہی چیز ہے۔ آپ کسی سے اختلاف رائے کریں یا کسی کے خلاف ہوا خیزی کریں، ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ آپ کسی پر تنقید کریں یا کسی کے خلاف افتراپردازی کریں، دونوں میں بہت نمایاں فرق ہے۔ میں سورۂ نور کی آیت: ’’تم اس کو معمولی سمجھ رہے تھے، وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی‘‘ کا بھرپور شعور رکھتی ہوں۔
سوال:۔ آپ کے دوپٹہ اوڑھنے پر ہونے والی تنقید کو آپ نے کیسے لیا؟
جواب:۔ بعض حلقوں کی جانب سے میرے ذاتی لباس پر ہونے والے تبصرے نے مجھے اور زیادہ ثابت قدم کر دیا۔ اس لباس کی بدولت میری شان اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ میں اس لباس کو تقریباً تیس سال سے پہن رہی ہوں اور کبھی میں نے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بعض شخصیات جن کا میں احترام کرتی ہوں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں، انہوں نے مجھے دوپٹہ ترک کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے میں لوگوں کی نگاہ میں بہت زیادہ مقبول ہو جائوں گی، لیکن میں ان سارے لوگوں سے مؤدبانہ گزارش کرتی ہوں کہ وہ دوسروں کے جذبات کا احترام کریں جس طرح وہ دوسروں سے اپنے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے: ’’لوگوں کے ساتھ ویسا معاملہ کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ لوگ معاملہ کریں‘‘۔ اس موقع پر ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی بیوی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ جب ان کے شوہر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں بھی حجاب پہننے پر ترکی کے سیکولر عناصر کی طرف سے انتہائی رکیک حملوں کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اسی طرح ترکی کے صدر عبداللہ گل کی بیوی کے حجاب پہننے پر بھی سیکولر طبقے نے بڑا زبردست حملہ کیا تھا، لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے نہ اپنا لباس تبدیل کیا اور نہ اپنے سروں سے حجاب ہی اُتارا۔ میں ان دونوں کا بڑا احترام کرتی ہوں اور انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور ترکی کی ترقی میں حجاب ذرا بھی رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ حق یہ ہے کہ یہی دینِ اسلام جو حجاب پہننے کی تاکید کرتا ہے، اسی نے رجب طیب اردگان کو اپنے ملک کی اصلاح اور اس کی ترقی پر بھی آمادہ کیا۔
سوال:۔ بعض لوگ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کا اسلامی پس منظر مصر اور مغرب کے تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب:۔ میں ان لوگوں سے کہوں گی، بے چین نہ ہوں، اہل مغرب ایسے لوگوں کا احترام کرتے ہیں جن کے اندر خود اعتمادی ہو اور جو اپنے مذہب کے پابند ہوں اور ان اندیشوں کے گرفتار لوگوں سے میری گزارش ہے کہ خدارا اپنے ذاتی اندیشوں کے اظہار کے لیے مغرب کی آڑ نہ لیں۔ میں دیارِ مغرب میں بہت رہی ہوں۔ اپنے شوہر کے بیرونی سفر کے دوران ان کے ساتھ بھی مغربی معاشرے سے اختلاط کا موقع ملا ہے اور میں بالفعل وہاں پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے رابطے میں رہی ہوں۔ میں نے وہاں پر مختلف نسلوں اور مذاہب کے ماننے والے لوگوں سے باقاعدہ ملاقاتیں کی ہیں، مگر میں نے ان ملاقاتوں میں نہ اپنے سر سے دوپٹہ اُتارا اور نہ کسی مرد سے کبھی مصافحہ کیا اور میں نے دیکھا کہ غیر مسلم میرے حجاب کا احترام کرتے ہیں، بلکہ بسااوقات مصر کے بعض مسلمانوں سے کہیں زیادہ وہ احترام کرتے ہیں، اور میرے اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو انہوں نے قدر و تحسین کی نگاہ سے دیکھا، جبکہ خود ہمارے ملک میں بہت سے مسلمان دینی تعلیمات کی پابندی کرنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔
اس لیے میرے خیال میں ہمارے اسلامی پس منظر سے لوگوں کوخوفزدہ کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے اور ان شاء اللہ ہمارا اسلامی پس منظر مصر کی ترقی کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے برعکس اسلام سے ہماری وابستگی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ممد و معاون ثابت ہوگی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ادوار میں مسلمانوں نے دین اسلام کا صحیح فہم حاصل کیا اور حسن اہتمام کے ساتھ اپنے جملہ معاملات میں اسے نافذ کیا، وہ عالم اسلام کے روشن ترین ادوار تھے۔ بلکہ ہم نے اپنے روشن ادوار میں علم اور تہذیب و ثقافت کو دیارِ مغرب تک پہنچایا ہے، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اپنے دین پر کاربند تھے اور اس وقت ہمارے سارے علوم و فنون چشمۂ صافی تصور کیے جاتے تھے اور آج بھی مغرب کے انصاف پسند ہمارے ماضی کے کارناموں کی شہادت دیتے ہیں۔ دنیا نے آج تک ایسی کوئی علمی اور اخلاقی تہذیب نہیں دیکھی جیسا کہ اس نے ہمارے ان ادوار میں دیکھا تھا جبکہ ہم نے اسلام کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ اس دینِ عظیم کا بنیادی جوہر یہ ہے کہ مختلف افکار و معتقدات اور مختلف طبقات کے لوگوں کے ساتھ یکساں طور پر عدل و انصاف ہو اور سب کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی آزادی میسر ہو، اور معاشرے کے سارے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ہم نے اپنے علمائے کرام کی زبانی بارہا سُنا ہے کہ ’’عدل پرور حکومت کو دوام حاصل ہوتا ہے، خواہ وہ کافر حکومت کیوں نہ ہو اور ظالم حکومت ہلاک ہو جاتی ہے خواہ وہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہو‘‘۔
سوال:۔ انقلاب کے بعد سے مصری خواتین کن مسائل سے دوچار ہیں؟
جواب:۔ انقلاب سے پہلے مصر میں کچھ لوگوں نے خواتین کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی مگر درحقیقت یہ صرف ایک مخصوص و متعین قسم کی خواتین کی خدمت تھی۔ ان لوگوں نے ان لاکھوں مصری خواتین کو دانستہ طور پر نظرانداز کر دیا تھا جو انتہائی تلخ مسائل سے نبرد آزما ہیں، بلکہ میں کہہ سکتی ہوں کہ انقلاب سے پہلے کی حکومتوں میں ان کے حقوق بُری طرح پامال کیے گئے اور مزید برآں ان کے دوشِ ناتواں پر ایسی گراں بار ذمہ داریاں ڈالی گئیں کہ جنہیں پہاڑ بھی مشکل ہی سے اٹھا سکتا تھا۔ ناخواندگی، غربت اور کام کے مواقع سے محرومی اور گھر سے بے دخلی، غرضیکہ بے شمار مسائل ہیں جن کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ اللہ سے دست بدعا ہوں کہ مجھے اور خواتین کے میدان میں کام کرنے والی دوسری مخلص مصری خواتین کو اس بات کی توفیق دے کہ ہم ملک کے اندر خواتین کے حالات کو بتدریج بہتر بنا سکیں اور انہیں ترقی کی منزل کی طرف گامزن کر سکیں۔
سوال:۔ جماعت ’’اخوان المسلمون‘‘ سے اب آپ کا تعلق کس طرح کا ہے، جبکہ آپ مصر کی خاتونِ اول ہوگئی ہیں۔
جواب:۔ مصر کی خاتونِ اول ہونا میرے لیے باعث فضیلت بالکل نہیں ہے۔ میں اس بات کو اَولیٰ و افضل سمجھتی
ہوں کہ میں مصر کی خادمۂ اول بنوں۔ اس لیے کہ قوم کا سردار اس کا خادم ہوتا ہے۔ لوگ کنگھی کے دانتوں کے مانند برابر ہیں اور اُن میں افضل وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار اور اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ وفادار بندہ ہے۔ جہاں تک اخوان کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت کا سوال ہے تو میرا تعلق اس وقت ملک کی ساری جماعتوں سے ہے، ان میں اخوان المسلمون بھی شامل ہے۔ لیکن اب میرا وقت اور میری ساری جدوجہد پورے مصر کے لیے وقف ہونی چاہیے اور میں کوشش بھی کرتی ہوں کہ کسی متعین جماعت کے بجائے مصر کے مفاد کے لیے کام کروں۔ میں اس جماعت کا تہہ دل سے احترام کرتی ہوں اور اس سے میرا قلبی لگائو ہے۔ لیکن میرا اب اخوان المسلمون سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔
(بشکریہ: ’’المجتمع‘‘ کویت۔ ۱۱؍ اگست ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply