جنگی مقدمات اور گرفتاریاں اسلامی لہر کو روکنے کے لیے ہیں!

بنگلہ دیش کے معروف نشریاتی ادارے ’’اے ٹی این نیوز‘‘ نے سابق امیر، بنگلہ دیش جماعت اسلامی، پروفیسر غلام اعظم کا تفصیلی انٹرویو ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۱ء کو پیش کیا۔ گرفتاری سے قبل ’’اے ٹی این نیوز‘‘ نے انٹرویو کو بنگلہ اور انگریزی زبان میں اپنی ویب سائٹ میں شامل کیا۔ جسے مسئلہ کی پیچیدہ نوعیت اور بیگم حسینہ واجد حکومت کے ارادوں سے آگاہی کے لیے قارئینِ ’’معارف فیچر‘‘ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔


سوال: بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے آپ کے خلاف ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ میں مقدمہ دائر کیاگیاہے۔ اس پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟

پروفیسر غلام اعظم: جی، آپ سوالات کیجیے، لیکن پہلے مجھے ایک سوال کا جواب مطلوب ہے۔ ۱۹۷۱ء سے اب تک کے دور میں کسی نے بھی ہمیں ’جنگی مجرم‘ نہ کہا، بنگلہ دیش کی آزادی کے تیس برس بعد اس سلسلے کاآغاز ہوا۔جنگی مجرم بھی موجود رہے ہیں، تاہم شیخ مجیب نے بذاتِ خود یہ مسئلہ حل کر دیا تھا۔ انہوں نے ۱۹۵ پاکستانی افسران کو جنگی مجرم کے طور پر نامزد کیا تھا لیکن ان میں کوئی بھی سویلین (عام شہری) نہ تھا۔ اُنہیں سزا دلوانے کے لیے شیخ مجیب نے ایک فہرست تیار کی، اُن پر مقدمہ چلانے کے لیے قانون پاس کرایا، لیکن شملہ میں شیخ مجیب نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی، اس کے بعد ان تمام لوگوں کو معاف کر دیا گیا اور انہیں رہائی دے دی گئی۔ اب یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ اس قانون کی بنیاد پر مقدمہ چلائیں۔ بعدازاں ایک اور پھندا تیار کیا گیا اور اُن کی معاونت کرنے والوں کو شریکِ جرم (Collaborators) قرار دیا اور اُنہیں سزا دلوانے کے لیے الگ سے قانون منظور کرایا گیا۔ اس قانون کے تحت سزا دلوانے کے لیے ایک لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا، اُن میں سے کچھ پر مقدمہ بھی چلایا لیکن جب محسوس کیا گیا کہ گواہ ہی چند ایک مل سکے ہیں اور ثبوت بھی محدود ہیں تو انہوںنے عام معافی (General Amnesty) کے ذریعے سب کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح جنگی مجرموں کا مسئلہ اُنہوں نے حل کردیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے چالیس برس بعد یہ مسئلہ پھر اُٹھایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ دوبارہ کیوں اٹھایا گیا ہے؟

حسین محمد ارشاد کی آمرانہ حکومت کے خلاف ہم (جماعت اسلامی اور عوامی لیگ) اکٹھے تھے۔ تحریک کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، عوامی لیگ اور جماعت اسلامی سرگرم رہے۔ رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں عوامی لیگ کے راہنما بھی شریک ہوتے رہے۔ اُس وقت ہم جنگی مجرم نہیں تھے۔ بی این پی حکومت ۱۹۹۱ء میں ’عبوری حکومت کے نظام کی بدولت وجود میں آئی، اگر جنرل حسین محمد ارشاد کے عرصۂ اقتدار میں انتخابات ہوتے تو وہ لازماً دوبارہ براجمان ہوجاتے۔ ہم نے اسی لیے اپنے دستور اور منشور میں عبوری حکومت کا مطالبہ شامل کیا لیکن بی این پی حکومت نے اس سے اتفاق نہ کیا۔ بی این پی اسی صورت میں حکومت بنا سکتی تھی جب ہم ان کی مدد کرتے۔ ان کے پاس واضح اکثریت ((Absolute Majority نہ تھی، اس کے باوجود بی این پی نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ اُس وقت بی این پی نے مگورہ ڈسٹرکٹ کے محمد پورہ علاقے سے عوامی لیگ کی نشست بزورِ قوت حاصل کی۔ انہوںنے عوامی لیگ کے نمائندے کو کامیاب نہ ہونے دیا، اس پر مشتعل ہو کر عوامی لیگ نے پارلیمان کا بائیکاٹ کردیا، تحریک کی ابتدا اور عبوری حکومت کا مطالبہ شروع کردیا۔ یہ ہمارا مطالبہ تھا، ہم ہی نے عبوری نظامِ حکومت کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس تحریک میں ہم نے عوامی لیگ کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اُس وقت بھی کسی نے ہمیں جنگی مجرم نہیں کہا۔

ہم جنگی مجرم کیوں؟ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس پر بات کرنا بھی چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ صحافیوں نے ان سے بھی یہ سوال کیا ہے یا نہیں؟ آپ پوچھیے کہ ۲۰۰۱ء سے پہلے ان لوگوں کو ’’جنگی مجرم‘‘ کیوں قرار نہیں دیا گیا۔ سیکٹر کمانڈروں نے بھی یہ الزام عائد نہیں کیا تھا۔ ایک انتخاب ۲۰۰۱ء میں ہوا تھا، یہ تیسری عبوری حکومت تھی جس نے انتخاب کرایا تھا۔ اس انتخاب میں بی این پی اور جماعت اسلامی نے مل کر حصہ لیا تھا۔ بی این پی، جماعت اسلامی، جاتیو پارٹی اور اسلامی یونائیٹڈ فرنٹ انتخاب لڑے۔ اس انتخاب میں جماعت اسلامی اور یونائیٹڈ فرنٹ نے پچاس سیٹوں پر بھی انتخاب میں حصہ نہ لیا۔ تعداد اس سے بھی کم تھی۔ ۲۵۰ سیٹوں پر ان دو اسلامی جماعتوں نے حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ اُس وقت، ان سیٹوں پر بی این پی اور عوامی لیگ مدمقابل تھے۔ ان سیٹوں پر بی این پی نے تمام اسلامی ووٹ حاصل کیے۔ بی این پی اور عوامی لیگ کے تقریباً ۴۰،۴۰ فیصد ووٹ بنے۔

بی این پی کو چالیس فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ لیکن فرق مجموعی ایک فی صد سے کم کا تھا، جہاں تک سیٹوں کا تعلق تھا، عوامی لیگ کو اٹھاون سیٹیں ملی تھیں اور بی این پی کو ۱۹۷۔ ایک جیسے ووٹ رکھنے کے باوجو د سیٹوں کی تعداد میں فرق کیسے وقوع پذیر ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ بی این پی نے اسلامی جماعتوں کے ووٹ حاصل کرلیے تھے۔ فرق کی وجہ بھی یہی تھی۔ اس کی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔

بی این پی اور جماعت اسلامی جب اکٹھے انتخاب لڑتے ہیں تو عوامی لیگ ناکام ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، چٹاگانگ میئر کے انتخاب کا مرحلہ دیکھیے، جماعت اسلامی نے اپنا نمائندہ کھڑا کیا تھا۔ بیگم خالدہ ضیا کی درخواست پر ہم نے اپنا امیدوار دستبردار کرایا اور بی این پی کا نمائندہ ایک لاکھ دس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ آپ صحافی حضرات جانتے ہیں کہ جب بھی بی این پی اور جماعت اسلامی اکٹھے ہوتے ہیں، تو اکثریت بن جاتے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم میں بھی تقسیم اسی وجہ سے ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کی طرف دیکھیے، جماعت اسلامی اور بی این پی نے اکٹھے انتخاب لڑا اور عوامی لیگ ناکام ہوگئی۔ بار ایسوسی ایشن کے دیگر انتخابات اور اساتذہ کی انجمنوں کے انتخاب میں بھی ایسا ہی ہوا۔

عوامی لیگ اس حقیقت سے آشنا ہوگئی کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کے اکٹھا رہنے کی صورت میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اُس نے فیصلہ کیا کہ جماعت کو سیاست ہی سے نکال باہر کیا جائے تاکہ دونوں مل کر انتخاب نہ لڑ سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اپنی قیادت سے محروم ہوجائے، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور دیگر مرکزی قائدین نیز ہزاروں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ وہ یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی اور اس کی قیادت کا آئندہ سیاست میں کوئی کردار ہی باقی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۱ء سے جنگی مجرم جیسی اصطلاح مخالفین کی بے عزتی کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ اب انہوں نے ہم پر ایسا قانون لاگو کرنے کی کوشش کی ہے جو پاکستان کے جنگی مجرموں پر مقدمہ چلانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

سوال: ۱۹۹۲ء میں ’’عوامی عدالت‘‘ اور ۱۹۹۴ء میں ’’پبلک انکوائری کمیشن‘‘ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

پرفیسر غلام اعظم: ایک گروپ نے ایسا کیا تھا لیکن انہوں نے ’’جنگی مجرم‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔

سوال: اس مقدمے کا نام اب ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ ہے یعنی اُن جرائم پر مقدمہ جو مجموعی طور پر انسانیت مخالف ہیں۔

پرفیسر غلام اعظم: جی ہاں! وہ لوگ انسانیت مخالف اقدامات کو جنگی جرائم قرار دے رہے ہیں، دو الگ اصطلاحات استعمال کررہے ہیں اور اب وہ اُسی قانون کو استعمال کررہے ہیں جو جنگی جرائم کے لیے منظور کرایاگیاتھا۔

سوال: گزشتہ دنوں حکومت نے آپ پر باون الزامات عائد کیے ہیں، حکومت کاکہنا ہے کہ اُن کے پاس سو سے زیادہ جرائم کے واقعات کی تفصیلات موجود ہیں جن میں آپ ملوث پائے گئے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

پرفیسر غلام اعظم: میں کہوں گا کہ ان میں حقیقت نہیں ہے۔ یہ سب بہتان، الزام تراشی اور جھوٹا بیان ہے۔ انہوں نے بڑی محنت سے یہ الزام تراشے ہیں، یہی بات میں عدالت میں کہوں گا۔ انہیں مجھے عدالت میں لے کر جانا پڑے گا جہاں میں اُن سے کہوں گا کہ ان الزامات میں سے کسی ایک ہی کو ثابت کر دکھائیں۔ میرا چیلنج ہے، ان شاء اللہ وہ ایک الزام بھی ثابت نہیں کرسکیں گے۔ الزامات عائد کرکے وہ میری ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، مجھے بدنام کرسکتے ہیں، لیکن اگر وہ الزامات ثابت نہ کرسکے،تب کیا ہوگا۔

سوال: اُن کاکہناہے کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے آپریشن سرچ لائٹ کے بعد آپ کی قیادت میں کچھ لوگوں نے، ۴ ؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ٹکا خان سے ملاقات کی تھی؟

پرفیسر غلام اعظم: ملاقات جناب نورالامین کی قیادت میں ہوئی تھی، میری قیادت میں نہیں۔ اس میں نظامِ اسلام پارٹی اور مسلم لیگ وغیرہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ ملاقات میں ہم نے کہا کہ ’’۲۵ مارچ کو جورویہ اختیار کیا گیا اور جس طرح عوام الناس کا قتل عام کیا گیا… اگر یہ سلسلہ جاری رکھا تو آپ کو عوامی حمایت نہ مل سکے گی۔ آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘۔ ٹکا خان نے جواب دیا، ’’جس طرح بغاوت پھیلتی چلی جارہی تھی، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا‘‘۔ اُس وقت پورا نیا بازار جلا دیا گیا تھا۔ جہاں لکڑی کی دکانیں تھیں۔ شیل فائر کیے گئے اُن میں سے ایک شیل میرے گھر پر بھی گرا۔ ہم نے اُن سے کہا فوج جب بھی سڑکوں پر آتی ہے اپنے ہی لوگوں کے خلاف انتہائی اقدامات کرتی ہے، ایسے حالات میں عوام کدھر جائیں گے؟ ظاہر ہے وہ سیاستدانوں سے رجوع کریں گے۔ عوامی لیگ کے منتخب اراکین پارلیمنٹ (MPs) ملک چھوڑ کر بھارت جا چکے ہیں۔ اب عوام ہمارے پاس آئے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ کیا معاملہ کریں؟ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں موقع فراہم کریں۔ ہمارے پاس اگر کوئی شخص شکایات لے کر آتاہے تو ہم اُسے آپ کے پاس بھیجیں تاکہ مسئلہ حل ہوسکے۔ بریگیڈئیر رائو فرمان علی، اُس وقت موقع پر موجود تھے اور گورنر ہائوس میں رہتے تھے۔ ٹکا خان گورنر بھی تھا اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی۔ وہ کنٹونمنٹ میں رہتاتھا، ہم اُس سے وہاں ملنے گئے۔ ٹکا خان نے فرمان علی کو فوری طور پر حکم دیا کہ ’’انہیں تمام اہم ٹیلی فون نمبر دے دیے جائیں تاکہ یہ ہم سے رابطہ کرکے شکایات درج کراسکیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ امن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ میں نے کئی لوگوں کی جانیں بچائیں۔ اُن میں سے کئی ایک ابھی بھی زندہ ہیں۔ اس وقت کسی نے بتایا کہ سیف الدین کا انتقال ہوگیا۔ میں کھانا کھا رہاتھاکہ اُس کی بیوی باہر آکر صحن میں چِلّانے لگی، میں نے دریافت کیا، کیا ہوا ہے۔ اُس نے کہاکہ میرے شوہر کو آرمی والے اٹھاکر لے گئے ہیں۔ میں نے اُس کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔ رائو فرمان علی نے بتایاکہ بریگیڈئیر قاسم سرکٹ ہائوس میں ہیں، اُن کے پاس شکایت درج کراسکتے ہیں۔ میں نے بریگیڈئیر قاسم کو فون کیا۔ تقریباً دور وز بعد سرجُو میاں (سیف الدین کا عرف) میرے گھر آئے۔ میں نے سوال کیا ’’کیسے پہنچے؟‘‘ اس نے بتایا ’’وہ سرکٹ ہائوس کے نزدیک مجھے ایک کار میں لائے اور مجھے یہ کہتے ہوئے دھکیل دیا کہ غلام اعظم نے تمہاری سفارش کی ہے۔ میں بے ہوش ہوگیا تھا، جب ہوش آیا تو سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ میں کس طرح لوگوں کی مدد کرتارہاہوں۔ مجھے یہ شکایات بھی ملی تھیں کہ مسلم لیگ، نظامِ اسلام اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایسی شکایت کرکے پیسے بنایا کرتے تھے۔ انہوںنے لوگوں کی مدد بھی کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ رقم بھی بناتے رہے۔ ہم نے ایسا کام نہیں کیا۔ نہ ہم کرسکتے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس کام کا موقع ہی نہیں تھا۔ اس صورت میں فوج کی کیا مدد کی جاسکتی تھی؟ آرمی مسلح ہوتی ہے ہم اُن کی کس طرح مدد کرسکتے تھے؟

ٹکا خان سے ملاقات کے اگلے روز، کیرانی گنج میں ہمارے کچھ لوگوں کو مار ڈالا گیا۔ میں نے ٹکا خان کو فون کیا اور کہا ’’آپ نے کہاتھاکہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ اُس نے جواب دیا ’’ہمیں شکایت ملی تھی کہ جن لوگوں نے ہمارے خلاف بغاوت کررکھی ہے، انہوں نے کیرانی گنج میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس لیے ہم نے یہ کارروائی کی‘‘۔ میں نے کہا’’آپ نے دوبارہ یہ کیا ہے؟ جنہیں آپ باغی سمجھتے ہیں وہ تو بھارت پہنچ چکے ہیں، اس لیے اب صرف معصوم لوگ قتل ہو رہے ہیں‘‘۔ اس طرح سے میں نے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

۱۴؍اگست پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر ایک جلسہ عام ہوا، جس کی صدارت نورالامین کررہے تھے۔ مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے گفتگو کی۔ میں نے اپنی تقریر میں شکایت کی کہ فوج جس قسم کے اقدامات کررہی ہے، اُس سے لوگ پاکستان کے مخالف ہو رہے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ متحدہ پاکستان کے لیے کام کررہے ہیں لیکن اُن کے اقدام سے پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ جن لوگو ں نے میرے بعد تقاریر کیں، انہوںنے بھی اسی لب و لہجے میں بات کی تاہم اس کی خبر اخبارات میں نہیں آئی کیونکہ اس زمانے میں اخبارت پر سینسر لگا ہواتھا۔

سوال: اُس وقت آپ کا اپنا اخبار سنگرام بھی تو تھا؟

پرفیسر غلام اعظم: تمام اخبارات سینسر ہو رہے تھے۔ اخبارات کو یہ طاقت حاصل نہیں تھی کہ اپنی مرضی سے خبریں شائع کریں۔ صرف وہ خبریں شائع ہوسکتی تھیں جو سینسر سے بچ جاتی تھیں۔ بیت المکرم میں ہونے والی میٹنگوں میں مَیں نے اس کا تذکرہ کیا تھا، لیکن ان میں سے کوئی خبر بھی شائع نہ ہوئی۔

سوال: کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اُس زمانے میں آپ کے نام سے جو کچھ شائع ہوا وہ جھوٹ تھا اور اخبارات کو مجبور کردیا گیاتھا کہ وہ جھوٹی خبریں شائع کریں؟

پرفیسر غلام اعظم: میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں خبریں گھڑ کر شائع کرنے پر مجبو رکیا گیا۔ لیکن میں یہ کہہ سکتاہوں کہ ہماری تقاریر کو شائع کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ہر وہ چیز جو اُن کے خلاف جاتی تھی، اُس کی اشاعت پر پابندی تھی۔

سوال: کیا اس کا اطلاق تمام اخبارات بشمول سنگرام پر ہوتاتھا؟

پرفیسر غلام اعظم: جی ہاں! تمام اخبارات پر۔

سوال: انہوں نے جنگی جرائم کا سوال اٹھایا ہے کیونکہ آخری انتخاب کے بعد انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اُس وقت تک برسراقتدار نہیں آسکتے جب تک اسلامی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں تعاون کرتی رہیں گی۔ اس نقطۂ نظر کے بارے میں مجموعی طور پر آپ کا کیا خیال ہے ……موجودہ مقدمہ؟

پرفیسر غلام اعظم: یہ سارا عمل عوامی لیگ کی جانب سے اقتدار میں رہنے کا ایک حربہ ہے۔یہ اُن کی سازش ہے کہ حزبِ اختلاف آئندہ انتخابات میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے عبوری نظامِ حکومت ترک کیا ہے۔

سوال: کیا آپ بتاسکیں گے کہ آزادی کی جنگ کے نومہینوں میں آپ نے کیا کیا تھا؟

پرفیسر غلام اعظم: میں پہلے بھی کہہ چکاہوں، میں جس قدر لوگوں کی خدمت کرسکتاتھا میں نے کی۔ میں آرام سے نہیں بیٹھا، لوگ ہر وقت میرے گھر پر آتے رہتے تھے۔ مجھے دل کی تکلیف ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ میری عمر چونکہ چالیس سال سے زیادہ ہے اس لیے مجھے دوپہر کے کھانے کے بعد ایک گھنٹہ آرام کرنا چاہیے اگر یہ ممکن نہ ہو تو چند گھڑی ہی کے لیے لیٹ جائوں لیکن میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتاتھا کہ چند گھڑی کے لیے آرام کر سکتا۔

سوال: گزشتہ دنوں جو الزامات آپ پر عائد کیے گئے ہیں، اُس میں یہ بھی ہے کہ امن کمیٹی نے رضاکار، البدر اور الشمس تشکیل دیے۔

پرفیسر غلام اعظم: نہیں! امن کمیٹی نے ان کی تشکیل نہیں کی تھی انہیں حکومت نے قائم کیاتھا۔ جس طرح آج کل ہمارے پاس معاون دستے مثلاً ’انصار‘ ہیں انہیں سرکل آفیسر کہا جاتاتھا۔ ان دستوں میں عوام الناس کو بھرتی کرنے کے لیے عام اعلانات کرائے جاتے تھے۔ سرکل آفیسر اور یونین بورڈ کے چیئرمین اُن کی مدد کرتے تھے۔ ہر قسم کے لوگوں نے اُن کے ساتھ شمولیت کی، کیونکہ انہیں کچھ نہ کچھ معاوضہ ملتا تھا، خاص طور پر بے روز گار نوجوانوں نے اس میں شرکت کی۔ اُن کے پاس اتنے زیادہ پولیس افسر کہاں سے آتے؟ پھر پُل کی حفاظت کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ مکتی باہنی (سپاہ آزادی) پلوں کو تباہ کردیتے تھے۔ جب ہرجگہ پل تباہ کردیے جاتے تو فوج دیہات کو جَلا ڈالتی۔ اس لیے انہوںنے پُلوں کی حفاظت کے لیے رضا کار شروع کیے۔ ان کو ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس طرح انصار معاون فورس اب کام کررہی ہے، اس طرح کی تنظیمیں اس وقت کام کررہی تھیں۔

سوال: دانشوروں کے قتل کی چالیسویں برسی منائی جارہی ہے۔ آپ پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ جنگِ آزادی کے دوران ملک بھر میں جو قتل وغارت ہوئی اُس کے آپ بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ اُس وقت آپ جماعتِ اسلامی کے امیر تھے۔

پرفیسر غلام اعظم: اس کامطلب یہ ہواکہ میں حکومت میں تھا اور میں پوری حکومت چلا رہاتھا۔ اُس وقت پاکستان آرمی کیا کر رہی تھی؟ کیا پاکستان آرمی میری ہدایات پر کام کررہی تھی؟

سوال: اُن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی فوج آپ کے تعاون اور ہدایات پر کام کررہی تھی؟

پرفیسر غلام اعظم: یہ ثابت کرنا اُن کی ذمہ داری ہے۔

سوال: کیا آپ کو زندگی میں اس کا احساس ہواکہ جنگِ آزادی کے دوران آپ کی سرگرمیاں صحیح رُخ پر نہیں تھیں؟

پرفیسر غلام اعظم: نہیں! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

سوال: بات یہ نہیں ہے۔ ۱۹۷۱ء کے دور میں آپ کے کردار کے بارے میں مختلف لوگ مختلف باتیں کررہے ہیں۔ موجودہ نسل ایسی تفصیلات نہیں جانتی، جن کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں۔ اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟

پرفیسر غلام اعظم: میں پہلے بھی بتا چکاہوں کہ ہمارے پاس کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ لوگ ہمارے پاس آتے تھے اور آرمی کے بارے میں شکایت کرتے تھے۔ جس قدر ہماری قوت و استطاعت تھی، ہم اُن کی مدد کرتے رہے۔

سوال: تحقیقاتی افسر نے یہ الزامات، رپورٹ… طویل تحقیق و تفتیش کے بعد پیش کی ہیں؟

پرفیسر غلام اعظم: تحقیقاتی کمیٹی اُن کے اپنے ہی لوگوں نے تشکیل دی ہے اور جھوٹی گواہیاں دینے کے لیے وہ اپنے ہی لوگوں کو استعمال کررہے ہیں۔ وہ لوگوں پر ایسے الزامات عائد کررہے ہیں کہ جن کا اصرار ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ عدالت میں ایک بھی الزام ثابت نہیں کرسکتے۔

سوال: گزشتہ روز جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُن میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ جنگ آزادی کے دوران آپ ڈھاکا میں کئی منفی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے راولپنڈی اور کراچی جیسے شہروں میں پریس کانفرنسیں کیں جہاں آپ نے سپاہ آزادی ( مکتی باہنی ) کو علیحدگی پسند، بھارتی ایجنٹ، مداخلت کاروغیرہ قرار دیا۔ حکومت کی طرف سے جو رٹ کی گئی ہے، اُس میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

پرفیسر غلام اعظم: میں انہیں چیلنج دیتاہوں کہ اسے ثابت کریں۔

سوال: وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ ٹریننگ کیمپوں میں گئے۔ آپ رضا کار،البدر، الشمس کیمپوں میں گئے …محمد پور میں ستمبر کے واقعے کے دوران …جو آپ نے دیکھا بھی تھا۔

پرفیسر غلام اعظم: میں صرف ایک بار انہیں یہ بتانے کے لیے گیاتھا کہ اگر آپ معصوم لوگوں کو قتل کریں گے تو آپ کو اللہ کی رضا حاصل نہ رہے گی،جب بھی مجھے پاکستان آرمی کے کسی بھی افسر سے ملنے کا موقع ملا میں اُن سے بھی کہتاکہ عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنائیں۔ یہی بات میں ان رضا کاروں سے کہتاتھا۔

سوال: آپ پر یہ الزام بھی ہے کہ آپ نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے کہا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا جائے۔

پرفیسر غلام اعظم: پبنہ سے تعلق رکھنے والے ایک بیرسٹر عباس تھے، انہوںنے وہاں مشرقی پاکستان حکومت بنائی اور مجھے دعوت دی کہ اس حکومت کاوزیر بن جائوں، میں نے اس کا جواب تک نہیں دیا۔

سوال: یہ کب کی بات ہے؟

پرفیسر غلام اعظم: ۱۹۷۴ء یا ۱۹۷۵ء کی۔

سوال: جنگ آزادی کے دوران آزادی کی حمایتی اور مخالف قوتیں، ان دونوں کے درمیان حقیقی فرق کیا تھا؟ کس نے کیا کردار ادا کیا؟

پرفیسر غلام اعظم: اُن کا رضاکاروں سے تنازعہ تھا کیونکہ وہ حفاظت کیا کرتے تھے اور یہ حملہ کیا کرتے تھے۔ ہم اُس میں کوئی کردار ادا نہ کرسکتے تھے۔ میں نے جیساکہ پہلے بھی بتا یا جب شکایت موصول ہوئی، ہمارے پاس یہی راستہ موجود تھا کہ ان شکایات کے حل کے لیے اپنی بات پہنچا سکیں۔

سوال: آپ سے آخری سوال۔ ہم نے سنا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں اور آپ بھی اس کو سمجھ چکے ہیں کہ آپ کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ کیا آپ گرفتاری کے لیے تیار ہیں؟

پرفیسر غلام اعظم: میں اپنی زندگی میں کئی بار گرفتار ہوا ہوں۔ ایک پختہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔ اگر مجھے کسی غلطی کے بغیر ہی پھانسی پر لٹکادیا جاتاہے تو میں ’’شہید ‘‘ کا مرتبہ حاصل کروں گا۔ اسلامی تحریک کے کارکن کے طور پر میں شہادت کا متمنی ہوں۔ مجھے کسی بات کا خوف نہیں ہے۔ اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھانا چاہیے۔

(ترجمہ: محمد ایوب منیر)

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*