قومی اہداف کیلئے فلسطینیوں کا سیاسی اشتراکِ عمل ضروری ہے
جنوری ۲۰۰۶ء میں پورے فلسطین میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو حماس اکثریتی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ حماس نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے اسمٰعیل ھنیہ کو نامزد کیا۔ انہیں فلسطین کی منتخب قومی حکومت کی قیادت کرنے کا اعزاز ملا۔ لیکن فلسطینیوں کا اپنے معاملات چلانے کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھنا اور تحریک مزاحمت جاری رکھنے کے لیے کوشاں رہنا پہلے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو گوارا نہ تھا۔ بعد ازاں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا یہ جادو صدر محمود عباس اور ان کی جماعت پر بھی چل گیا اور منتخب قومی فلسطینی حکومت کو توڑنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ یہ کوششیں فلسطینی اتھارٹی نے اپنے تئیں آسانی سے کامیاب بنائیں البتہ غزہ میں آج بھی ھنیہ حکومت قائم و دائم ہے۔ حتیٰ کہ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت بھی اس حکومت کو زَک نہیں پہنچا سکی۔ اس منتخب حکومت کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے چند روز قبل مرکز اطلاعات فلسطین کو خصوصی انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے تحریک مزاحمت کو درپیش چیلنجوں اور مستقبل کے امکانات کا احاطہ کیا ہے۔
حماس اور فتح کے درمیان قاہرہ میں مذاکرات کی شروعات اور مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات سے متعلق ایک سوال پر فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا:
’’پہلی بات جو اہم ہے وہ یہ کہ فلسطین میں پایا جانے والا انتشار حقیقی نہیں ہے۔ تاہم اس سطحی انتشار سے نجات کے لیے ٹھوس اور حقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے مذاکرات کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے۔ ضروری ہے کہ حقیقی بہتری اور قومی مفادات کے حصول کے لیے باہمی تعاون اور سیاسی اشتراک عمل کے اصولوں کو اپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے تاکہ عوامی مینڈیٹ کا احترام اور تحفظ بھی ممکن ہو‘‘۔ قومی مفادات اور ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے واضح کیا کہ فلسطینی عوام اسرائیل سے آزادی کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان مذاکرات کے دوران یا بعد میں قومی مفادات اور ایجنڈے کو کسی بھی قسم کے گروہی، سیاسی یا وقتی مفاد کے تابع نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ’’قومی کاز‘‘ کے سلسلے میں کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں لانا چاہیے۔ مسئلہ فلسطین ہی ہم سب کی اولین ترجیح رہنی چاہیے اور غزہ کی پٹی ہو یا مغربی کنارا دونوں کو مفاہمانہ انداز میں مل کر کام کرنا چاہیے۔
حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات کی بنیاد کیا ہونی چاہیے؟ اسمعیل ھنیہ کا مؤقف تھا:
’’حماس مخلصانہ انداز میں خالصتاً قومی اور عوامی مفادات کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہے۔ حماس کی قیادت سمجھتی ہے کہ یہ مذاکرات قومی مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ حماس کی کوشش اور خواہش ہے کہ تمام فلسطینی جماعتیں ان مذاکرات میں اسی مخلصانہ جذبے اور سنجیدہ سوچ کے ساتھ حصہ لیں اور قومی عزت و وقار اور آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کی محافظ بن جائیں۔ ہم ان مذاکرات کے ذریعے تنظیم آزادیٔ فلسطین کی جمہوری بنیادوں پر ازسرِنو تشکیل اور فلسطین کاز کے لیے مخلص قومی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں‘‘۔
فلسطینیوں کی قومی حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ:
’’ایسی حکومت جو ہر قسم کے بیرونی دبائو سے آزاد ہو… جو اسرائیل سے مرعوب نہ ہو۔ جسے اسرائیل یا اس کی سرپرست قوتوں کا خوف نہ ہو۔ فلسطینی عوام کے جذبات اور مفادات ملحوظ رکھنے کو اپنی ترجیح اول سمجھتی ہو… جس کی دیانت اور صلاحیت شک و شبہ سے بالاتر ہو اور فلسطینی عوام کے مسائل کے حل کے لیے دن رات ایک کرنے کا عزم رکھتی ہو۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ایسی قومی حکومت بنانے میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی اور غزہ اور مغربی کنارے میں ایک ہی سیکورٹی فورس کا قیام بھی ممکن ہو جائے گا جو اسرائیل کے مطالبات کے سامنے جھکنے کی بجائے فلسطینی عوام اور ان کے حق مزاحمت کا تحفظ کر سکے۔
اس سوال پر کہ کچھ عرصہ قبل جو عناصر مذاکرات کی مخالفت کرتے تھے۔ اب وہ بھی بڑی شدت کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ فلسطینی عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر یوں جواب دیا:
’’مذاکرات پر آمادہ ہونے کے کسی دوسرے کے محرکات اور اسباب کیا ہیں، اس بات سے قطع نظر ہماری خواہش ہے کہ قومی مفادات کے حصول اور قومی وحدت کے لیے کوششیں کامیاب ہوں، تاکہ فلسطینی عوام پر مسلط کیے جانے والے بیرونی ایجنڈے کی راہ مسدود ہو، تمام فلسطینی سیاسی جماعتیں فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لیے یکسو ہو کر آگے بڑھ سکیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حماس کی روزِ اوّل سے یہ کوشش رہی ہے کہ آنے والے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ قومی سیاسی پروگرام ترتیب دیا جائے تاکہ فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور ایک ایسی فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہو جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو‘‘۔
جاری مذاکرات کے ذریعہ قوم کے حقیقی اہداف تک پہنچنے کے آپ کس قدر امکانات دیکھتے ہیں؟ اسماعیل ھنیہ کی آنکھوں میں امید کی چمک کو اس سوال کے بعد جھانکنا مشکل نہ تھا۔ یوں محسوس ہوا گویا وہ اپنے ایک ایک لفظ سے امید کے چراغ جلا رہے ہوں:
’’قومی خواہشات اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے اگر ماضی کے معاہدات اور تجربات کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نہ ہو۔ ماضی کے معاہدات اور معاہداتی دستاویزات جن میں میثاق قاہرہ ’’نیشنل ری کونسیلیشن‘‘ معاہدہ مکہ، غزہ میں انتفاضہ کی طویل و مشترکہ جدوجہد اور مغربی کنارے میں فلسطینی جماعتوں کی باہمی ہم آہنگی، یہ ایسے سنگ ہائے میل ہیں جنہیں سامنے رکھا جائے تو جاری مذاکرات بھی غیر معمولی نتائج کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘‘۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فلسطینی عوام کے اس نمائندے کا کہنا تھا ’’باہمی ہم آہنگی اور فضا کو خوشگوار بنانے اور اعتماد سازی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اسیروں کو فی الفور رہا کیا جائے، سیکورٹی اداروں کے فلسطینیوں پر ہی ہوتے رہنے والے حملوں کو روک دیا جائے اور سیکورٹی فورس کے یکطرفہ اور اندھے استعمال کے سدباب کے لیے سیکورٹی کا مشترکہ میکانزم متعارف کرایا جائے۔ نیز فلسطینی عوام کے ریلیف سے متعلقہ اداروں پر عائد پابندیاں اور لگائی گئی قدغنیں ختم کر دی جائیں تو سب دشواریاں خود بخود دور ہو جائیں گی اور باہمی فاصلے ختم ہو جائیں گے‘‘۔
امید بونے والے اسماعیل ھنیہ نے ماضی کے تمام تر معاہدات کے باوجود سیاسی اسیروں کی رہائی ممکن ہو سکنے کی جانب توجہ دلائے جانے پر کہا:
’’ بلاشبہ حماس کے لیے یہ امر باعث تشویش ہے کہ ماضی میں حماس اور فتح کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں سیاسی اسیروں کی رہائی کا طے ہوتا رہا لیکن فلسطینی اتھارٹی نے ایسے وعدوں اور معاہدوں پر عمل نہ کیا۔ نہ صرف یہ کہ سیاسی اسیران کی رہائی ممکن نہ ہوئی بلکہ اسیران پر تشدد میں اضافہ کر دیا گیا جو بدستور جاری ہے۔ اسی طرح ماضی کے معاہدوں میں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور الزام تراشی بند کرنے پر بھی اتفاق ہوتا رہا لیکن عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ اسرائیل اور اس کی سرپرست طاقتوں کی حماس کے خلاف الزام تراشیوں کو رام اللہ والوں نے اپنے لیے موقع غنیمت جانا، تاہم امید ہے اب کی بار ماضی کے تجربات سے سبق سیکھا جائے گا اور دشمنوں کی بولی نہیں بولی جائے گی‘‘۔
اسماعیل ہنیہ کے اس جواب پر جب ان سے کہا گیا کہ غزہ میں حکومت پر بھی انتقام اور ردعمل میں کی گئی کارروائیوں کا الزام لگتا رہا ہے؟ تو انہوں نے بغیر لگی لپٹی کہا:
’’معصوم عن الخطاء ہونے کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ غزہ میں دانستہ طور پر کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا‘‘۔
مذاکرات کی کٹھنائیوں کے بارے میں انہوں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:
’’ہم جانتے ہیں کہ مذاکرات کا راستہ اس قدر آسان نہیں اور نہ ہی اس راستے پر پھول ہی پھول ہیں، اس کے باوجود ہم سیاسی میکنزم کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک ذاتی مفاد ترجیح نہیں بلکہ قومی مفاد عزیز تر ہے۔ اسی چیز کی ہم دوسروں سے بھی بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ جتنی ذمہ داری ہماری ہے اسی قدر دوسروں کی بھی ذمہ داری ہے‘‘۔
حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات پر بات چیت کا سلسلہ ذرا طول ہونے لگا تو حماس حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ سے غزہ پر مسلط کردہ حالیہ اسرائیلی جنگ کے بعد ہنیہ حکومت کی ترجیحات کو موضوع سوال بنایا گیا:
’’غزہ میں فلسطینی عوام نے جس جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا وہ صہیونی فوج کی تاریخی شکست کا موجب بنا۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے اس سنہری دور نے فلسطینی عوام کے جذبہ جہاد، جذبۂ اتحاد اور جذبہ اخلاص کو مزید جلا بخشی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ فلسطینی عوام کے اس جذبے کو ماند نہ پڑنے دیا جائے نیز متاثرین جنگ اور شہداء کے خاندانوں کی امداد اور بحالی کے کام کو جنگی بنیادوں پر جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ سفارتی، سیاسی اور ابلاغی میدان میں ایسی فضا پیدا کی جائے کہ اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑے تاکہ متاثرین جنگ کی بحالی کا آغاز ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے مختلف محکموں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جو بحالی کے امور کی براہِ راست نگرانی کرے گی۔ ہم اس حوالے سے یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی تفریق اور امتیاز کے بغیر تمام متاثرین جنگ کی بحالی ممکن بنائی جائے گی، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کے لیے فلسطینی عوام اور حکومت کو وسیع پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے‘‘۔
فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جیلوں میں قید کیے گئے ہزاروں فلسطینی شہریوں کے مستقبل کے حوالے سے اس عوامی وزیراعظم نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی طاقتوں کی طرف سے پردہ ڈالنے کی کوششوں پر افسوس ظاہر کیا۔ ان کے الفاظ تھے:
’’مختلف حیلوں اور حربوں کے ذریعے اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور نام نہاد اسرائیلی جنگ بندی بھی درحقیقت ایک چال ہے لیکن فلسطینی عوام نے اس چال کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس کی قید میں اسرائیلی فوجی قیدی گیلاد شالیت کو طاقت کے ذریعے رہا کرانے میں ناکامی کے بعد اسرائیل نے مجبوراً جنگ بندی کا اعلان کیا۔ گویا اسرائیلی حکومت کے لیے سو پیاز اور سو جوتے دونوں ہی پورے ہو گئے تھے لیکن اسے حاصل کچھ نہ ہو سکا۔ اب اسرائیل جنگ بندی کے ذریعے بھی اپنے فوجی کی رہائی کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن اعلان کردہ جنگ بندی کی خود ہی خلاف ورزی کر کے معصوم فلسطینیوں پر بمباری بھی کرتا رہتا ہے‘‘۔ انہوں نے دو ٹوک کہا ’’قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہمارے نزدیک اسرائیل سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ فلسطینی اسمبلی کے اسپیکر اور بیالیس منتخب ارکان کے ساتھ ساتھ ہمارے ہزاروں شہری اسرائیل کی قید میں ہیں۔ ان فلسطینی قیدیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جن کی زندگی کسی بھی طرح گیلاد شالیت سے کم اہم نہیں ہے۔ اس لیے ہم اسرائیل کو بتانا چاہتے ہیں کہ گیلاد شالیت کی رہائی صرف اسی صورت ممکن ہو گی کہ پہلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے لیکن اسرائیل کی بعض سیاسی جماعتیں اس معاملے میں رکاوٹ ہیں‘‘۔
حماس کے بارے میں مصری حکمرانوں کو گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار بنانے والے عناصر کے بارے میں اسماعیل ہنیہ یوں گویا ہوئے:
’’فلسطین اور مصر کے تعلقات کی نوعیت فلسطین کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات سے کافی مختلف ہے۔ مصر کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخی اعتبار سے ایک اہمیت ہے۔ ہم مصر کے ساتھ جغرافیائی، دینی، ثقافتی اور تاریخی بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ تاہم اس میں دو رائے نہیں کہ حماس اور قاہرہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن یہ اختلافات بہت سطحی نوعیت کے اختلافات ہیں۔ ان اختلافات کے پس منظر میں نظریات نہیں بلکہ بعض پالیسیاں ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مصر کی پالیسیاں اور اقدامات کیا رہے ہیں حماس نے کبھی مصر کے لیے خطرہ بننے کی نہیں بلکہ ہمیشہ اس کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ حماس نے کبھی مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے۔ البتہ یہ تاثر درست ہے کہ بعض عناصر حماس اور مصر کے درمیان اختلافات کو بڑھاوا دینے کے لیے سازشوں میں رہتے ہیں‘‘۔
یہ عناصر کون ہیں؟ اسماعیل ہنیہ کا جواب تھا…
’’یہ وہ لوگ ہیں جو عرب ممالک کے ساتھ حماس کے تعلقات کے بارے میں حماس کے مؤقف سے یا تو ناواقف ہیں یا حماس کی تاریخ سے بے بہرہ ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ایسے عناصر کی رائے میں اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات قانونی طور پر جائز اور درست ہیں اور حماس کی پالیسیاں غلط ہیں۔ اس سے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسے عناصر کس کی خدمت بجا لا رہے ہیں اور کس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے حقائق کے برعکس موقف اختیار کیے ہوئے ہیں‘‘۔
جواں ہمت وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے تمام فلسطینی عوام کو بالعموم اور اہل غزہ کو بالخصوص صحرائے سینا کی جانب دھکیلنے کی تجاویز اور سازش کے بارے میں بے باکانہ انداز اختیار کیا:
’’فلسطینی عوام کی جڑیں اسی سرزمین میں ہیں، ہمیں نہ تو صحرائے سینا کی جانب دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہم فلسطین کے کسی اور علاقے میں منتقل ہونے کو تیار ہیں۔ ہمارا جینا مرنا ہماری اپنی سرزمین پر ہو گا۔ اب تو وہ وقت قریب ہے کہ دنیا بھر میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور فلسطینی عوام کی اپنے وطن واپس آنے کی راہ ہموار ہو۔ اس لیے اگر کوئی غلط فہمی میں ہے تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور ان سے اپنے وطن کا حق کوئی نہیں چھین سکتا‘‘۔
اسماعیل ہنیہ نے غزہ پر اسرائیلی جنگ کے بعد غیر ملکی وفود کی آمد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’فلسطینی عوام ان غیر ملکی وفود کی آمد کو مفید اور نتیجہ خیز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان وفود کی غزہ آمد سے اسرائیلی مظالم بے نقاب ہوں گے اور عالمی برادری کو یہ معلوم ہو گا کہ اسرائیلی افواج نے معصوم فلسطینی شہریوں پر کس طرح جارحیت مسلط کی۔ ایسے بیرونی وفود کی آمد سے بجاطور پر فلسطینی عوام سوچتے ہیں کہ اب غزہ کی راہداریوں کے کھلنے کا بھی امکان پیدا ہو گا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’غزہ آنے والے امریکی و یورپی وفود کا رویہ حماس کی حکومت کے ساتھ عدم تعاون پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود حماس کی حکومت نے ان ممالک کے وفود کے ساتھ بھی ہر ممکن تعاون کی کوشش کی ہے‘‘۔
اسماعیل ہنیہ نے اس خصوصی انٹرویو کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک کے عوام کی طرف سے اہلِ غزہ کے ساتھ جس یکجہتی، ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا گیا اس کی تحسین کی اور کہا:
’’عالمِ اسلا م میں فلسطین کے حق میں ابھرنے والی حالیہ لہر مسلم امہ کی بیداری کا پیش خیمہ بنے گی اور مسلم امہ کی فلسطینیوں کے لیے یکجہتی قبلہ اول کی آزادی اور تحفظ کے لیے تزویراتی تعاون کے قالب میں ڈھل جائے گی‘‘۔
اسرائیل کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر اسماعیل ہنیہ نے کہا:
’’انتہا پسندوں کی واضح کامیابی سے اسرائیل کے لیے پیچیدگیاں بڑھیں گی اور اسرائیل سیاسی اعتبار سے مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا۔ مستقبل میں اسرائیل میں سیاسی جنگ و جدل بھی شروع ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک فلسطینی عوام کے لیے اسرائیلی حکومتوں کا تعلق ہے۔ ان سب کی سوچ اور اپروچ ماضی میں بھی وحشیانہ اور ظالمانہ تھی اور آئندہ بھی ان سے کوئی اچھی توقع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’محور‘‘ لاہور۔ اپریل ۲۰۰۹)