
حال ہی میں ایک مشہور امریکی پریزینٹر کا شام کے صدر بشارالاسد سے انٹرویو ایک اہم موقع تھا جس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ بات بجائے خود بہت اہم تھی کہ عرب دنیا میںبیداری کی لہر اٹھنے کے بعد بشارالاسد نے پہلے بار امریکی میڈیا سے بات کرنا قبول کیا۔ ایک امریکی براڈ کاسٹر سے گفتگو کے لیے رضامند ہونا اس امر کا اشارہ تھا کہ بشارالاسد امریکی رائے عامہ کے ذریعے عالمی برادری تک اپنا کیس پیش کرنا چاہتے ہیں اور چند ایک امور کی وضاحت بھی کرنے کے موڈ میں ہیں۔
یہ اندازہ لگانا کسی بھی طور مشکل نہیں کہ بہت سے صحافیوں، بالخصوص یورپ سے تعلق رکھنے والوں نے یہ انٹرویو پوری توجہ سے سنا۔ بشارالاسد نے ایک بار پھر یہ بات واضح کردی کہ وہ یورپ کے حکمرانوں اور میڈیا پر مکمل بھروسہ نہیں رکھتے۔ اور شاید وہ کچھ ایسے غلط بھی نہیں ہیں۔ یہ بات بھی حیرت انگیز نہیں کہ بشارالاسد کسی ترک صحافی سے گفتگو کے لیے راضی نہ ہوئے کیونکہ چند ماہ کے دوران شام اور ترکی کے تعلقات میں خاصی سرد مہری پیدا ہوچکی ہے۔
میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کی قومیت کی بنیاد پر سیاسی اور سفارتی تجزیے مناسب بات نہیں لیکن جہاں غیر سرکاری تنظیمیں نہ ہوں، سول سوسائٹی کے ادارے نہ ہوں اور صحافت بھی آزاد نہ ہو وہاں حکمران پرانے طور طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی صحافی کسی بھی قومیت یا ملک کی نمائندگی نہیں کرتا، مگر بشارالاسد جیسے حکمران اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر صحافی کسی نہ کسی قومیت کا ترجمان ہوتا ہے اور اس حقیقت کو وہ بہت اہمیت دیتے ہیں۔
بشارالاسد نے ایک بار پھر واضح کردیا کہ جمہوریت کی عینک آنکھوں پر سجاکر شام کی طرف نہ دیکھا جائے کیونکہ اُنہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ شام ایک جمہوری ملک ہے۔ اُنہوں نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں تسلیم کی کہ شام کی موجودہ سیاسی قیادت یا حکمراں سیٹ اپ ملک کے لیے مکمل طور پر موزوں نہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بشارالاسد نے یہ تسلیم کیا کہ ملک کو تبدیلی کی ضرورت ہے مگر جمہوریت کے وارد ہونے کا واضح ترین مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی جائے۔
انٹرویو کے دوران بشارالاسد کا ایک اہم جملہ یہ تھا کہ وہ ملک یا مسلح افواج کے مالک نہیں ہیں۔ شاید وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بعث پارٹی کا سیٹ اپ موجود ہے اور وہ واحد حکمران نہیں بلکہ ایک حکمراں طبقے کے نمائندے ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ذمہ دار میںنہیں، حکمراں طبقہ ہے‘‘۔
ایسی بہت سی وجوہ ہیں جن کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ بشارالاسد نے کہا وہ مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ترک وزیر خارجہ احمد دائود اُغلو سے ایک گھنٹے تک بحث کی جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کو ترکی کی وساطت سے مغرب کے قریب لے جایا جائے تاہم اُن کے اپنے اندرونی حلقے کے کچھ لوگ ایسا کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بشارالاسد کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کا ہاتھ تھامنے سے وہ گریز کی راہ پر گامزن ہیں۔
شام جیسے آہنی پردے کے پیچھے رہنے والے ممالک کے بارے میں درست طور پر معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے تاہم بشارالاسد کے انٹرویو سے ہم چند ایک امور کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بشارالاسد نے اپنے انٹرویو میں کئی مواقع پر کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے تنہا ذمہ دار نہیں۔ یہ عالمی برادری کے لیے واضح پیغام تھا کہ ہر معاملے میں صرف انہی کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے بلکہ حکمراں طبقے کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ تھا کہ ان حکومتوں کو بھی نشانہ بنایا جائے جو شام کے حکمراں طبقے کی مدد کر رہی ہیں۔ ملک میں جاری قتل و غارت پر افسوس کا اظہار کرکے انہوں نے شاید یہ اشارہ دینے کی کوشش کی کہ ملک کو مکمل خانہ جنگی اور شدید قتل و غارت سے وہی بچاسکتے ہیں۔
بشارالاسد نے انٹرویو میں یہ ثابت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا کہ شام میں بین الاقوامی مداخلت بعث پارٹی کی حکمرانی کو مزید مستحکم کرے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر شام میں خانہ جنگی ہوئی تو اس کے خاتمے پر بننے والی حکومت لازمی طور پر مغرب نواز نہیں ہوسکتی۔ کیا دنیا میں کوئی ہے جو اس بات کو نہ سمجھ سکے؟ بشارالاسد واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت گئی تو اسلام پسند عناصر شام پر قابض ہو جائیں گے اور یہ بات مغرب کے حق میں ہوگی نہ اسرائیل کے۔ بشارالاسد نے حکمراں طبقے کو نشانہ بنانے کی بات کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ایک اعتبار سے ترکی کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۹ دسمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply