’روجر پل وَرز‘ سے انٹرویو

امریکی نژاد مصنف Roger Pulvers سابق سوویت یونین کی بارہا سیر کرتے رہے ہیں۔ پولینڈ میں بھی رہے اور بالآخر آسٹریلیا کی شہریت لے کر وہاں آباد ہو گئے۔ فی الحال جاپان میں مقیم ہیں۔ معاصر ’’جاپان ایشیا پیسیفک‘‘ نے ان سے ایک مفصل انٹرویو لیا ہے جس کے کچھ حصوںکا ترجمہ قارئین کے غور و فکر کے لیے درج ذیل ہے:


س: بیرونی ممالک میں ان دنوں جاپانی ثقافت کو کس طرح پیش کیا جارہا ہے؟

ج: چند ماہ پہلے ہفتہ روزہ ’’جاپان ٹائمز‘‘ میں کالم لکھتے ہوئے میں نے ایک اصطلاح MASK اختراع کی تھی تاکہ اس کے ذریعہ میں صورتِ حال کو بیان کر سکوں۔ جاپانی زبان میں اس کے مترادف جو الفاظ آتے ہیں وہ Manga، Anime، Sushi، اور Karaoke ہیں۔ میرا احساس ہے کہ باہر کی دنیا میں جاپانی ثقافت کا جس طرح استقبال کیا جارہا ہے وہ اس ایک لفظ کے چاروں مفہوم پر حاوی ہے۔ Manga comics اور Anime cartoons کو میں پسند کرتا ہوں۔ Hayao Miyazaki کی فیچر فلم Spirited Away میری پسندیدہ تین جاپانی فلموں میں سے ایک ہے۔ جہاں تک Sushi کا سوال ہے، مجھے نہیں معلوم کہ کتنے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک جاپانی کھانا ہے۔ اب یہ عالمی سطح پر مقبول ہے اور اب شاید ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اسے ایک دوسرے فاسٹ فوڈ کے طور پر دیکھتے ہیں جس کی اصالت غیریقینی ہو، پیزا اور ہیمبر گرز کی طرح۔ Koraoke کا بھی یہی حال ہے۔ کون واقعتا اسے جاپانی ایجاد خیال کرتا؟ میرے خیال میں یہ معقول بات ہے کہ جاپان اس پاپ کلچر کو جاپان کے ایک غیرمعمولی نرم قوت کے طور پر باہر کے ممالک میں پیش کر سکے۔ ہم شاید Murakami Phenomenon جیسی چیزوں کو بھی شامل کر سکتے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ وہاں اور دوسری چیز کیا ہے؟

پاپ کلچر یقینا بہت اہم ہے لیکن اگر وہاں یہی سب کچھ ہے تو میرا خیال ہے کہ جاپانی ثقافت بیرونِ ممالک میں نظرانداز ہونے کی وجہ سے اختتام کے دہانے پر ہے۔

س: آپ جاپان پہلے پہل چالیس سال پہلے آئے تھے۔ اس کے بعد سے جاپان کس حد تک تبدیل ہوا ہے؟

ج: جب میں جاپان ۱۹۶۷ء میں آیا تھا تو دنیا کے اطراف میں جاپان کو معاشی حیوان ہونے کا الزام دیا جاتا تھا۔ اگرچہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ایسا واقعتا تھا۔ ایک چیز جس نے مجھے جاپان کی طرف کھینچا وہ پہلے مرحلے پر میرا یہ احساس تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ یہ ملک واقعتا حریص اور دولت کا پجاری ہے۔ میں ہی اس بات کو شدت سے محسوس کر سکتا تھا، اس لیے کہ مجھے حرص اور مادہ پرستی سے سخت نفرت ہے، اس حد تک کہ میں نے اپنی امریکی شہریت سے استفادے کو ترک کر رکھا ہے۔ اگرچہ اس کا مجھے بہت افسوس ہے کہ اس وقت جاپانی عوام کا جو خیال تھا کہ زندگی میں اہم چیزیں پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی ہیں ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اقتصادی بلبلوں میں یہ غائب ہو گیا۔ جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ جب ۱۹۹۰ء کی دہائی کے اوائل میں یہ بلبلہ پھٹ گیا تو جاپان چاروں طرف تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا اور اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا ہے کہ وہ جس گہرے کُہر میں گھر گیا ہے، اس سے اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب ہو سکے۔ جاپان اب ایک ایسے دور میں ہے کہ اس کے پاس تقلید کے لیے کوئی رول ماڈل نہیں ہے، قوم کے نوجوانوں کے پاس اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ہے کہ انہیں اپنا مقصد کیا متعین کرنا چاہیے۔ جاپان نے جب جنگ میں شکست کھائی تھی تو ایک خوفناک غربت سے وہ دوچار ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے پاس امید کا چراغ روشن تھا۔ ہر کوئی یہ یقین کرتا تھا کہ اگر وہ آج بھرپور زندگی گزار لیں گے تو آنے والا کل ان کے لیے بہتر ہو گا لہٰذا غربت کے باوجود جاپانیوں کی آنکھوں میں امید کے شرارے موجود تھے۔ اس وقت اس کے باوجود کہ جاپان کسی نہ کسی طور ایک اقتصادی سپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو بالکل درست نہیں ہے۔ جاپان دوسرے ممالک سے سبق نہیں سیکھ سکتا ہے جس طریقے سے اس نے پہلے سیکھا تھا بلکہ یہ اپنے آپ میں وہ صلاحیت نہیں پاتا ہے کہ وہ اپنے معاہدے سے باہر آنے کا نیا راستہ تلاش کر سکے لہٰذا یہ اپنی راہ سے بھٹک رہا ہے۔ اس انداز سے میں چیزوں کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ جاپان واقعتا اور کنایتاً سمندر میں ہے۔

س: آخری بات یہ ہے کہ آپ کے خیال میں دنیا کس روش کی جانب گامزن ہے؟

ج: قومی ریاستوں کی استعماریت جو ۱۹ویں صدی میں پیدا ہوئی تھی، اب دو سو سال بعد محو ہو رہی ہے۔ ہم اس وقت امریکا کے زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کہ آخری استعمار ہے۔ امریکا ہنوز ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے قائم رہے گا لیکن امریکا بطور استعمار جو دنیا پر حکمراں ہے، اب اختتام کے دہانے پر ہے لیکن یہ اسی طرح زوال سے دوچار ہے جیسا کہ برطانیہ ہوا تھا لیکن یہ گمان کرنا قدرے مشکل ہے کہ چین اس کی جگہ لے گا۔ چین شاید زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کرے کہ وہ ایشیا کی ایک بڑی طاقت ہو جائے لیکن شاید کسی ایسے استعمار میں تبدیل ہونے کی کوشش نہیں کرے گا جس کی اپنی نوآبادیاں ہوں۔ لہٰذا دنیا کس طرح کے دور کی جانب بڑھ رہی ہے؟ جہاں تک ثقافت کا تعلق ہے تو مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک ایسے زمانے کے دہانے پر ہیں جس میں علاقائی ثقافتیں دنیا کے اطراف میں پھلے پھولیں گی۔ میرا یقین ہے کہ وہ دور آرہا ہے جس میں وہ ثقافتیں جو اب تک اقبال سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، استعمار کے سائے میں ان کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے مثلاً اقلیتی اقوام کی ثقافتیں، اور یہ ٹھیک اسی وقت اپنے سر ابھاریں گی اور نشووونما اور ترقی سے دوچار ہوں گی۔ یہ خیال ہے کہ گلوبلائزیشن ایک یکساں اور ہم آہنگ دنیا پر منتج ہو گی لیکن میں اسے قبول نہیں کرتا ہوں۔ میرے خیال میں رابطے کی عالمی زبان اب بھی انگریزی ہی ہو گی اور یہ کہ انٹرنیٹ کے اثرات کو فروغ حاصل ہو گا۔ پھر بھی، جیسا کہ دنیا بتدریج ثقافتی تنوع کے دور کی جانب بڑھ رہی ہے، ہم رفتہ رفتہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ علاقائی ثقافت اور انفرادی ثقافت غیرمعمولی توانائی کے ساتھ ظہور کر رہی ہے۔ اب تک انفرادی ثقافت کے اظہار کی صرف ایک صورت تھی کہ وہ فرد گلی کے کونے پر کھڑے ہو کر چند گانے گا لے۔ لیکن انٹرنیٹ کے ذریعہ اب آپ کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آپ اپنی انفرادی ثقافت براہِ راست پوری دنیا میں بھیج سکیں اور آپ یہ کام اشاعتی اداروں یا ٹی وی اسٹیشنوں پر اعتماد کیے بغیر کر سکتے ہیں۔اسی طریقے کا اطلاق علاقائی ثقافت پر بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا مجھے نسل پرستی کا جذبہ دنیا کے اطراف میں آج ہمیشہ سے زیادہ پُرجوش دکھائی دیتا ہے۔ بجائے ہم آہنگ ہونے کے دنیا بالکل مخالف سمت کی طرف جائے گی۔ یہی وہ سمت ہے جسے میرے خیال میں ساری دنیا، یہاں تک کہ جاپان بھی یقینی طور سے اختیار کر رہا ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’جاپان پلس‘‘ جاپان۔ شمارہ: مارچ ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*