چین یا بھارت، سری لنکا کے لیے ایک مشکل انتخاب

کولمبو شہر کی بندرگاہ کے ساتھ ۴ء۱؍ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا منصوبہ سری لنکا میں بیرونی سرمایہ کاری سے بننے والا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ چھوٹے جزیرے پر مشتمل سری لنکا جیسے ملک کے لیے بنیادی ڈھانچے کا یہ بڑا منصوبہ نئی حکومت کا پہلا بڑا امتحان بھی ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ سمندر کے کنارے خشکی پیدا کرکے وہاں خوبصورت گھر تعمیر کیے جائیں۔ چین کی سرکاری چائنا کمیونی کیشن کنسٹرکشن کمپنی نے سری لنکا کی بندرگاہوں کی وزارت کی یہ بولی جیتی تھی جس کا قلم دان اُس وقت کے صدر مہندا راجا پاکسے کے پاس تھا۔

یہ میگا پراجیکٹ اُن چینی عزائم میں بڑی صفائی سے سما جاتا ہے جنہیں وہ ایک نیا بحری سِلک روڈ قرار دیتا ہے تاکہ بحرِ ہند میں تجارت کو فروغ دے سکے۔ لیکن سری لنکا میں یہ معاملہ بہت متنازعہ ہے۔ یہ نئی حکومت کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے کہ وہ کس حد تک راجا پاکسے دور کی طرف پیٹھ کرکے ایشیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور بھارت کے درمیان اپنی خارجہ پالیسی پر عمل کرسکتی ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس منصوبے پر نظرثانی کریں گے اور بدعنوانی سمیت دیگر مسائل کی نشاندہی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری سے چلنے والے تمام منصوبوں کی تحقیقات کریں گے۔ ۵ مارچ کو اس منصوبے پر کام روک دیا گیا، جب ایک ابتدائی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ منصوبہ سازی سمیت بہت سے اجازت نامے حاصل نہیں کیے گئے تھے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس منصوبے نے نئی حکومت کے اندرونی اختلافات بھی آشکار کردیے ہیں جوکہ سابق حزبِ اختلاف یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے مختلف دھڑوں، راجا پاکسے کے باغیوں، جن میں خود جناب سری سینا بھی شامل ہیں، اور چھوٹے گروپس پر مشتمل ہے۔ فروری میں ایک سینئر وزیر نے کہا تھا کہ منصوبہ جاری رہے گا۔ ایک روز بعد وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے کہا کہ کسی بھی فیصلے سے پہلے دو پارلیمانی کمیٹیاں اس منصوبے سے متعلق سنجیدہ خدشات کا جائزہ لیں گی۔ منصوبے کی خامیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری سری لنکا کی بندرگاہوں کے منتظم ادارے کی ہے جو سرکاری ادارہ ہے۔ اس پر مستزاد منصوبے کے سرمایہ کار چینیوں کا دباؤ ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ مزید تاخیر برداشت نہیں کرسکتے۔

منصوبے کے دردِ سر بننے کی ایک وجہ جغرافیائی سیاست بھی ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ چین کولمبو کی بندرگاہ کے قریب زمین پر قبضہ جمائے، کیونکہ وہ بھارتی سامانِ تجارت کی گزر گاہ بھی ہے۔ گزشتہ برس اس نے بندرگاہ کے چینی تجارتی حصہ پر چین کی عسکری آبدوز کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا کہ بندرگاہ پر کام اسی وقت معطل ہوا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ۲۸ برس کے دوران پہلے دو طرفہ دورے پر سری لنکا پہنچے۔ ایک سینئر سفارتکار کے مطابق یہ ناقابلِ تصور ہوتا کہ جب مودی آئے، اس وقت بھی تعمیرات جار ی رہتیں۔

سری سینا بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ جنوری سے اب تک چار اعلیٰ سطح کے دو طرفہ دورے ہوچکے ہیں، جبکہ دھڑا دھڑ معاہدے بھی ہورہے ہیں، جن میں کسی بھی بیرونی حکومت کے ساتھ سری لنکا کی پہلی سول جوہری شراکت داری بھی شامل ہے۔

سری لنکن صدر مغرب کے ساتھ تعلقات کی تعمیرِ نو بھی کررہے ہیں جو اُس وقت خراب ہوئے جب راجا پاکسے نے تامل باغیوں کے ساتھ کئی دہائیوں تک چلنے والے عسکری تنازع کے خاتمے پر مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات سے انکار کیا تھا۔ سری سینا نے اپنے پیشرو کے انکار کو رد کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر اندرونی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔

لیکن وہ چین کی جانب پیٹھ بھی نہیں کرنا چاہتے، جو نہ صرف منصوبے کے لیے آسان شرائط پیش کررہا ہے بلکہ اس نے تامل باغیوں کے خلاف لڑائی کے لیے اس وقت اسلحے کی فراوانی میں حصہ ڈالا، جب دیگر ممالک جھجک رہے تھے یا مخالف تھے۔ سری سینا کے بقول ’’بھارت ایک اچھا ہمسایہ ہے اور چین ایک اچھا اتحادی‘‘۔ تاہم دونوں ممالک کو خوش رکھنا ایک پیچیدہ ہدف ثابت ہورہا ہے۔

(مترجم: حارث بن عزیز)

“Investment in Sri Lanka: Storm in a port”. (“The Economist”. March 21, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*