
عصر حاضر میں اقامتِ دین کے دو بڑے تصور پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پیش کیا اور جس میں وہ اسلامی ریاست اور اقتدار کو اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں اور دوسرے مولانا وحید الدین خاں کا نقطہ نظر جس میں وہ ریاستی کردار کی مرکزیت کو رد کر کے فرد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان دونوں نقطۂ ہائے نظر کی شرعی بنیاد تو موجود ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دونوں فریق کسی حد تک مبالغے اور افراط و تفریط کا شکار ہو گئے ہیں اور عمل (Thesis) اور ردعمل (Anti-Thesis) کے بعد اب وحدتِ عمل (Synthesis) کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ہم کچھ گزارشات اہلِ علم کی خدمت میں غور و فکر کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
۱۔ اِقامتِ دین کوئی اختلافی مسئلہ نہیں
ہمارے نزدیک اقامتِ دین نہ تو کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ یہ کوئی مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ اصطلاح سے مراد ہے کسی لفظ (یا الفاظ) کا لغوی معنی سے ہٹ کر مخصوص مفہوم میں استعمال جیسے صلوٰۃ، زکوٰۃ، جہاد… وغیرہ۔ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ اور وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ کی طرح اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے الفاظ بھی قرآن حکیم میں استعمال ہوئے ہیں، جن کا مطلب متعلقہ امر کا قیام ہے جس کی بنیادی اور معروف ترین شکل اس پر عمل کرنا ہے مع اس کے لوازم اور متعلقات کے۔ یعنی نماز قائم کرو سے مراد ہے نماز ادا کرو اور اس کے لوازمات میں کپڑوں کا پاک ہونا، وضو کا اہتمام، وقت پر نماز ادا کرنا، نماز باجماعت کے لیے مساجد کی تعمیر اور امام کا تعین… وغیرہ، سب شامل ہیں۔ اسی طرح دین قائم کرنے سے مراد ہے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سارے شعبوں میں دینی تعلیمات پر عمل کرنا۔ ظاہر ہے مسلمانوں میں اس امر پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے (اور نہ ہوسکتا ہے) کہ انہیں زندگی کے سارے امور میں دینی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں علما و فقہا کے ہاں اس طرح کی کوئی بحث نہیں ملتی کہ اقامتِ دین فرض و واجب ہے یا مستحب و مباح ہے، کیونکہ انفرادی و اجتماعی زندگی کے سارے شعبوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل ایمان کا لازمی، منطقی اور فطری تقاضا ہے۔
۲۔موحّد (Holistic) اپروچ کی ضرورت
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی آخرت اور دنیا کی کامیابی ہے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انفرادی زندگی کے بعد اجتماعی زندگی کے دو مرحلے ہوتے ہیں، ایک معاشرہ اور دوسرے ریاست و حکومت۔ جو چیز مسلمانوں سے درکار ہے وہ یہ کہ وہ بیک وقت ان تینوں سطحوں پر اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ یہ رویہ غلط ہوگا کہ کسی ایک سطح پر تو عمل کیا جائے لیکن دوسری سے صَرفِ نظر کر لیا جائے یا اسے اہمیت نہ دی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی زندگی میں ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا اہم تر ہے کہ معاشرہ اور ریاست افراد کے ملنے ہی سے بنتے ہیں اور انسان کو آخرت میں اللہ کے ہاں جواب دہی انفرادی حیثیت ہی میں کرنی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی ایک فرد کے لیے دین پر کماحقہٗ عمل کرنا آسان اور شاید ممکن ہی نہیں جب تک معاشرے اور ریاست کی قوت اس کے ساتھ نہ ہو، کیونکہ انسان کو اللہ نے مدنی الطبع پیدا کیا ہے اور وہ اکیلا زندگی بسر کر ہی نہیں سکتا، لہٰذا اجتماعی زندگی کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری اور ناگزیر ہے۔ اور یہ صرف حیاتیاتی اور معاشرتی تقاضا ہی نہیں، حکمِ شرعی بھی ہے اور قرآن و سنت اجتماعی زندگی سے متعلق احکام سے بھرے پڑے ہیں، بلکہ شریعت نام ہی اس ہدایت اور طرزِ عمل کا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو اس دنیا میں انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنا ہے۔
اور اس کے برعکس بھی صحیح ہے یعنی اجتماعی زندگی کو شریعت کے مطابق گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جب تک فرد اپنی ذاتی زندگی پورے شعور اور رغبت کے ساتھ اسلامی تقاضوں کے مطابق نہ گزارے یا نہ گزارنا چاہے۔ پس یہ کہنا کہ اقامتِ دین کے لیے صرف اسلامی ریاست کا قیام کافی ہے، ایک ناقص بات ہے اور یہ کہنا کہ اصل چیز تو تعمیرِ فرد ہے اور اسلامی ریاست کے قیام پر اصرار غیر ضروری ہے، بھی ایک ناقص بات ہے اور صحیح اور متوازن مؤقف یہ ہے کہ اسلام زندگی گزارنے کی ایک موحد اسکیم (Holistic Approach) دیتا ہے، جس کے کسی ایک جزو پر عمل دوسرے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ایک سطح پر عمل دوسرے کا نقیض ہوتا ہے بلکہ سب پر بیک وقت عمل درکار ہے اگرچہ اس کی فطری اور منطقی ترتیب یہی ہے کہ پہلے فرد، پھر معاشرہ اور پھر ریاست۔
۳۔ معاشرے کے کردار کا فقدان
اس وقت عملاً کیفیت یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعمیر فرد کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا اسلوب ایسا ہے کہ وہ معاشرے اور ریاست پر اثرانداز نہیں ہو رہیں اور ظاہر ہے یہ ایک بنیادی اور بہت بڑا نقص ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت ہو، دینی مدارس کا کردار ہو یا مولانا وحید الدین خاں جیسے لوگوں کی دعوتی سرگرمیاں ہوں، یہ فرد کی اس طرح تعمیر کر رہی ہیں کہ معاشرہ اور ریاست ان سے متاثر نہیں ہو رہے اور ان کی اصلاح نہیں ہو رہی جس کے نتیجے میں فرد کو معاشرے اور ریاست کی طرف سے ایسی مدد نہیں مل رہی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر سکے بلکہ اس کے الٹ ہو رہا ہے کہ فرد تو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتا ہے لیکن معاشرہ اور ریاست اس میں مزاحم ہیں۔
اور دوسری طرف ریاست و اقتدار کے ذریعے نفاذِ اسلام کی خواہش رکھنے والوں اور کوششیں کرنے والوں کی جدوجہد کا اسلوب ایسا ہے کہ اس سے فرد کی تعمیر کا کام نہیں ہو رہا اور وہ تعمیرِ فرد کے کام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے پارہے اور ہماری بدقسمتی یہ کہ ریاست و اقتدار کی قوت کو اسلامی تعلیمات پر عمل کے لیے استعمال کرنے میں بھی انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی جس کا سبب مزاحم قوتیں بھی ہیں اور جدوجہد کرنے والوں کی غیر مؤثر پالیسیاں بھی۔
یہاں ہم فریقِ اول سے یہ کہیں گے کہ ان کی تعمیرِ فرد کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، لیکن انہیں اجتماعی زندگی کی اصلاح کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور فریق ثانی سے یہ کہیں گے کہ ان کی ریاست و اقتدار کی اصلاح کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں، لیکن انہیں اسلامی تناظر میں فرد کی تعمیر شخصیت کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن جو بات ہم زور دے کر کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دونوں فریق معاشرے کے اہم کردار سے صَرفِ نظر نہ کریں۔ دیکھیے! ہم آپ کو اپنے اسلاف کی مثال دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت حسین بن علیؓ جیسے بڑے لوگ جب اپنی جان دے کر بھی اسلامی ریاست میں در آنے والی خرابی (بلکہ خرابیوں) کو نہ روک سکے تو امت کے علما و صلحا نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اجتماعی زندگی کی اصلاح سے توبہ کرلی اور گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے؟ نہیں، انہوں نے ریاست و اقتدار کا محاذ چھوڑ کر معاشرے کے محاذ پر کام کرنا شروع کر دیا اور ایسا عظیم الشان کام کیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور ان کی یہی جدوجہد اگلے ایک ہزار سال تک مسلم معاشرے کو دنیا میں غالب و برتر رکھنے کا سبب بنی۔ انہوں نے عوام کی مدد سے معاشرے کی سطح پر یہ کام کیا کہ نظامِ تعلیم اور قانون سازی کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس میں اتنے کامیاب رہے کہ حکومتوں کو بھی ان کے ساتھ تعاون کے سوا چارہ نہ رہا اور نہ کبھی وہ یہ بنیادی ترین شعبے ان سے واپس لے سکے جب تک کہ امت کو زوال نے نہ آلیا۔ اسی طرح امت کے صلحاء نے لوگوں کی ایمانی، اخلاقی اور عملی اصلاح کے لیے تصوف کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور سارے عالمِ اسلام کے قریے قریے میں اس کی شاخیں کھول دیں اور کروڑوں افراد کی زندگیوں کو بدل کر انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کے قابل بنا دیا۔ اسی طرح علماء، صلحاء اور تجار نے دعوتِ دین اور اشاعتِ اسلام کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کروڑوں غیر مسلموں اور کئی خطوں اور ملکوں کو اسلام کے نور سے منور کر دیا۔
حکمت عملی کی تبدیلی
اسلاف کی یہ چند مثالیں ظاہر بلکہ ثابت کرتی ہیں کہ ریاستی قوت کے بغیر بھی اقامتِ دین کا کام کامیابی سے کیا جاسکتا ہے بلکہ ریاستی مزاحمت کے باوجود بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت شیخ احمد سرہندیؒ (مجدد الف ثانی) نے کرکے دکھا دیا۔ لہٰذا ہم اقامتِ دین کے ان داعیوں سے جو ریاست و اقتدار کے ذریعے اسلامی نظامِ حیات مسلم معاشرے میں نافذ کرنا چاہتے تھے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کی سطح پر کام کرنے کی حکمت عملی اپنائیں۔ اور ان لوگوں سے یہ کہتے ہیں جو تعمیرِ فرد کے لیے دعوتی، تبلیغی اور تدریسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں صرف نماز روزہ اور داڑھی ہی دین نہیں، صرف فرد کی ذاتی زندگی میں دین آجانا ہی مطلوب نہیں بلکہ ہماری اجتماعی زندگی میں بھی اسلام آنا چاہیے۔ معاشرے اور ریاست کو بھی اسلامی تقاضوں کے مطابق بدلنا ضروری ہے تاکہ وہ فرد کو اسلام کے مطابق چلنے میں مدد دیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ دونوں فریق ہماری اس استدعا پر غور فرمائیں اور اپنے طریق کار اور حکمت عملی پر نظرثانی فرمائیں اور خصوصاً معاشرے میں تبدیلی لانے اور معاشرے کے ذریعے تبدیلی لانے کو اپنے لائحہ عمل کا حصہ بنالیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم معاشرے کو زوال سے نکلنے میں بہت مدد ملے گی، فرد کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے پیش قدمی کا حوصلہ ملے گا اور معاشرے اور ریاست میں وہ تبدیلی بتدریج آجائے گی جس کے خواب ہر مسلمان دیکھتا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور۔ فروری ۲۰۱۴ء)
واقعی اسی معتدل رویے کی ضرورت ہے۔۔۔
Lakin molana Mododi R.A ka tasawer e Iqamat e Deen bhi isi bat ka taqaza kerta he k mashray me tabdeeli k zariye riyasat ki islah ki jay…
Is ka pehla nukta tatheer e afkaar he. Yani afrad ki infirafi zindagi me tabdeeli k bad hi ye tawaqo ki ja sakti he k wo islami maashray ka musbat fard bany ga. Jo k riyasat ki islah ka paish khaima he
اقامت دین کےلیے علماء ۔صلحاءاور مبلغ حضرات کو اسی معتدل روئےکواختیارکرناچاہئے۔
متوازن اور کثیر الجہت رویہ ہی اقامت دین کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
مصنف نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ سمجھ میں آتی ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے کہ اقامت دین کے لئے کسی ایسی تحریک میں شامل ہو نا جس کے پیش نظر فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ریاست کی اصلاح بھی ہو ،فرض عین ہے یا فرض کفایہ اس کو واضح کریں۔ محض تاریخی واقعات سے استنباط کر کے
توکوئی حکم نہیں نکالا جا سکتاکیونکہ بہت سے مخلص لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں اس میں لگا دی ہیں اور لگا رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس کی ادائیگی میں اپنے دیگر فرائض سے غافل ہوئے ہوے ہیں