اس مضمون کا عنوان اقبال کے مجموعۂ کلام ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے تیسویں بند کے درج ذیل شعر کا ایک مصرہ ہے جو شعر کہ قرآن کی روشنی میں موضوع گفتگو ہے:
کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرس اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
’’نورِ حق‘‘ کی تشریح و توضیح، تمثیلی پیرایۂ بیان میںخود خدائے تعالیٰ نے سورۂ النور کی درج ذیل آیت میں بیان فرمائی ہے کہ:
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے اس کو آگ نہ لگے۔ (اس طرح) روشنی پر روشنی بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے‘‘۔ (النساء:۳۵)
اقبال کے مجموعۂ کلام ’’ارمغان حجاز کی درج ذیل رباعی میں اقبال نے مندرجہ بالا آیت کی آزاد ترجمانی کی ہے:
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نورِ الٰہ سے
فقط اک گردشِ شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغ مہر و مہ سے
زیرِ تجزیہ شعر کے دونوں مصرعوں میں اقبال نے درج ذیل آیات کی ترجمانی کی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
’’یہ لوگ (مشرکین) چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیرماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (التوبہ:۳۲۔۳۳)
’’یہ لوگ (مشرکین) اپنے منہ کے پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف:۸۔۹)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مشرقی پنجاب۔ مئی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply