اردو شاعری کے اُفق پر بیسویں صدی میں نمودار ہونے والے ستاروں میں سب سے روشن ستارہ اقبال ہیں۔ جو اپنے پیغام کی روشنی سے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ اقبال نے اپنی منفرد فکر، علمیت، انداز، اسلوب اور شعور کے باعث اردو زبان کو ایک نیا دبستان عطا کیا ہے۔ اس دبستانِ اقبال سے کبھی نطشے، برگسان، کانٹ اور گوئٹے سے مکالمے سنائی دیتے ہیں تو کبھی مشرق کی عظمت کا مطالبہ ظہور پذیر ہوتا ہے تو کبھی قرآن و سنت کی روشنی افشاء ہوتی ہے، کبھی رومی کے پیغام پر بحث کا عکس نمایاں ہوتا ہے تو کبھی غالب، حالی، شبلی اور اکبر الہ آبادی کی روایت نمودار ہوتی ہیں، کبھی فلسفہ خودی اور عمل کا پیغام ملتا ہے تو کبھی جدید سائنس کے زماں و مکاں کے تصورات کا درس۔ دبستان اقبال میں دو فکری سلسلے بہت نمایاں ہیں ایک کا تعلق ملّی شعور سے ہے اور دوسرے کا تعلق سائنسی علوم سے ہے۔
اقبال نوجوانوں کو حصول علم کی ترغیب دیتے ہیں وہ حصول علم کو ایک عبادت کا درجہ دیتے ہیں، خطبات میں اقبال فرماتے ہیں: ’’سائنس ہماری روحانی زندگی کے لیے مشعل راہ نہیں بن سکتی، اس کے باوجود سائنس انسانیت کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے‘‘۔
اقبال علم کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
علم کی حد کے پرے بندۂ مومن کے لیے
لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
علم اسماء اعتبار آدم است
حکمت اشیاء حصار آدم است
ڈاکٹر ایس میری شمل اپنی کتاب Gabriel’s Wing میں لکھتی ہیں کہ اقبال Einstein کے سائنسی نظریات سے اتفاق کرتے تھے۔ ڈاکٹر شمل اس سلسلے میں لکھتی ہیں۔
[english]Einstein granted iqbal the proof for his views concerning the relation of God and Universe that the universe is limitless but finite and his theory of relativity has Impressed iqbal’s theories of time and space (Gabriel’s Wing-p321)[/english]
اقبال خود اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
[english]If Muslim scholars were aware that Einstein’s most thrilling ideas are already existent in islam, they would like to take more interest in them[/english]
[english]and study them carefully” (Gabriel’s Wing.p321)[/english]
اقبال تمام کائنات کو ارباب نظر کے لیے ایک تختہ تعلیم قرار دیتے ہیں:
کوہ و صحرا دشت و دریا، بحر و بر
تختہ تعلیم ارباب نظر
اقبال Einstein کے تصور زماں و مکاں اور Theory of Relativity کے قائل ہیں۔
احوال و مقامات پر موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکان اور
اقبال کے مطابق کائنات کا ہر ذرّہ ایک قانون یا اصول Law or Protocol کے تابع ہے۔ اقبال اس کو ’’شعور‘‘ کہتے ہیں۔
ہر چیز ہے محو خود نمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی
بقول اقبال آفاق (Cosmos) کی ہر سطح (Level) عالم کبیر (Macro Cosmic) اور عالم صغیر (Micro Cosmic) میں ایک تنظیم (Orgnization) موجود ہے۔
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی
آج اکیسویں صدی میں نئی سائنسی دریافتیں کلام اقبال کے فکر و فن کو ایک نئی روشنی میں دیکھنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔ خاص طور پر Quantum Mechanics’ Theory of Relativity’ Astronomy اور Genetics کی نئی دریافتیں عالم کبیر (Macrocosmic) اور عالم صغیر (Micro Cosmic) کے نئے بھید کھول رہی ہیں۔ Big Bang Theory کو سمجھنے میں کلامِ اقبال سے نئے راز آشکار ہو رہے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں عالم کبیر (Macrocosmic) کی سطح پر Theory of Relatvity کا اطلاق ہوتا ہے اور عالم صغیر (Micro Cosmic) کی سطح پر Quantum Mechanics کے نظریہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ آفاق (Cosmos) کی تخلیق کے ابتدائی لمحات میں زماں اور مکاں (Time and Space) کی اکائیاں یا جزئیات بہت چھوٹی تھیں، مکاں (Space) کی چھوٹی اکائی یاجز (Planck’s Length) کہلاتی ہے جو۳۳۔۱۰ سمر ہے۔
زماں (Time) کی چھوٹی اکائی یا جز (Plank’s Time) کہلاتا ہے جو صرف ۴۵۔۱۰ سیکنڈ ہے۔ اس وقت سے پہلے زماں اور مکاں ایک ہی تھے اور اس وقت صرف کن فیکون کا مالک ہی موجود تھا۔ اقبال اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
خرد ہوئی زماں و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہٰ الا اللہ
زمانے کی کیفیت اس کی خود زبان سے پیش کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ!
مِرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
ہدف سے بیگانہ تیر اس کا نظر نہیں جس کی عارفانہ!
خلائی تحقیق کے ادارے (NASA) نے خلائی تحقیق کے سلسلے میں Hubble Telescope نامی ایک آلہ خلاء میں بھیجا ہے جو آفاق (Cosmos) کی گہرائیوں کی نئی تصاویر لے رہا ہے جس سے ارتقاء کائنات کے نئے راز افشاں ہو رہے ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں اس ٹیلی اسکوپ نے ایک ایسی تصویر لی جو Hubble Ultra Deep Field (HUDF) کہلاتی ہے۔ اس تصویر میں ۱۳ ارب سال پہلے ارتقاء کائنات سے لے کر حال تک کے تمام احوال موجود ہیں۔ اس تصویر کو کن فیکون کا Signature کہا جا سکتا ہے۔ HUDF کی تصویر میں دس ہزار کہکشاں (Galaxies) عیاں ہیں۔ اگر HUDF کا موازنہ تمام کائنات (جس میں ایک سو ارب کہکشاں (Galaxies) موجود ہیں) سے کیا جائے تو HUDF کی حیثیت ریت کے ایک ذرّے کے برابر ہو گی۔ انسانی آنکھ کائنات کا صرف ۴ فیصد حصہ دیکھ سکتی ہے جبکہ کائنات کا۹۶ فیصد حصہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہے جو Dark Matter کہلاتا ہے۔ Hudf کی یہ تصویر Expansion of Cosmos کے سلسلے میں نئی معلومات فراہم کر رہی ہے۔ اقبال اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اقبال کے مطابق کائنات کا وجود ساکن (Static) نہیں حرکیاتی (Dynamic) ہے۔
فریبِ نظر ہے سکوں و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرّہ کائنات
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانہ میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں
ٹھہرتا نہیں کارواں وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
موجودہ دور کی سائنسی دریافتیں یہ بتا رہی ہیں کہ ہر چیز کے DNA اور GENE میں اتنی واضح (Clear) ہدایات (Instructions) ایک جامع نقشہ (Blue Print) کی شکل میں موجود ہیں جو مستقبل کی شکل کا تعین کرتی ہیں۔
اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود تیرا
جو ہے بیدار انسان میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں شبنم میں سورج میں ستارے میں
آج کل ہر مشین اور آلہ میں Lasers اور LEds کا استعمال عام ہے۔ روشنی اور توانائی کے نئے ذرائع دریافت ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال فرماتے ہیں:
حقیقت ایک ہے ہر شئے کی خاکی ہو کہ نوری
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّہ کا دل چیریں
اقبال اپنے کلام میں نوجوانوں کو مسلسل جدوجہد Dynamic Struggle کا درس دیتے ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں و مکاں اور بھی ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال خودی کے Unlimited Potential کے بارے میں فرماتے ہیں۔
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں
تو اب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
اقبال انسانوں کو تقدیر کی تکمیل کے لیے خوب سے خوب تر Pursuit of Excellence کی ترغیب دیتے ہیں۔
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کا مستقبل (Future) اور تقدیر (Destiny) ایک مقرر کردہ حوادث کی شکل میں نہیں ہیں بلکہ انسان اپنے عمل و ارادے سے قضائے الٰہی کے دائرے میں اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(بشکریہ: ’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply