
گزشتہ دو برسوں سے امریکا، ایران کے ساتھ علاقائی جنگ بندی پر خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔ اب دو طرفہ معاہدے پر پہنچنے کے بعد، اُن کثیر الجہتی مذاکرات کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے، جو ۲۰۰۳ء سے کھنچتے چلے آرہے ہیں، اِن دونوں نے جوہری مسئلہ اور اقصادی پابندیوں کے حل کا اعلان کیا ہے۔ ایک خوش قسمت گواہ، تھیئری میسن نے اس پیچ در پیچ سفارتی صورتحال میں داؤ پر لگے مفادات کا راز افشاں کیا ہے اور بتایا ہے کہ آنے والے دس سالوں میں واشنگٹن کس طرح خلیجِ فارس اور لیوانت (مشرقی بحیرۂ روم کے ساحلی علاقے) کے خطے کو منظم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مارچ ۲۰۱۳ ء کے بعد سے امریکا اور ایران خفیہ بات چیت کر رہے ہیں۔ ان غیرعلانیہ رابطوں کا آغاز عمان میں ہوا۔ ایرانیوں کے لیے، جن کا بے نظیر معاشی اور مالیاتی محاصرے تَلے دم گھُٹ رہا ہے، یہ سامراج کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوال نہیں تھا۔ بلکہ یہ بات چیت جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ کر چند سال کی مہلت حاصل کرنے کے لیے تھی، صرف اتنا وقت جس میں وہ دوبارہ تھوڑی قوت پکڑ سکیں۔ امریکا کے لیے، جسے امید ہے کہ وہ اپنی فوجیںمشرقِ قریب سے مشرقِ بعید منتقل کرنے کے قابل ہو جائے گا، یہ موقع تہران کی جانب سے اُن مخصوص ضمانتوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا کہ ایران اس معاہدے سے فائدہ اُٹھا کر اپنے اثر کو مزید توسیع نہیں دے گا۔
امریکی ٹیم کو دو اول درجے کے مذاکرات کار، جیک سُلیوان اور ولیم بَرنز، ہدایات دے رہے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم ایرانی وفد کن لوگوں پر مشتمل تھا۔ مسٹر ُسلیوان، سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کے اہم مشیروں میں سے ایک تھے۔ لیکن وہ اُن کی طرح نہ تو اسرائیل کی اندھی حمایت کے طرفدار تھے اور نہ ہی اخوان المسلمون کے عشق میں مبتلا۔ انہوں نے لیبیا اور شام کے خلاف جنگوں کا اہتمام کیا۔ جب صدر اوباما نے ہیلری کلنٹن کو نکال باہر کیا تو سلیوان نائب صدر جان بائیڈن کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ایک مشیر بن گئے۔ یہ وہ اثر و رسوخ تھا جس کی بنا پر سُلیوان ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوئے۔ جہاں تک مسٹر بَرنز کا تعلق ہے، وہ ایک پیشہ ور سفارت کار ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا کے پاس موجود بہترین سفارت کاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنے معیار کے مطابق، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے معتمد کی حیثیت سے بات چیت میں شامل ہوئے۔
کم از کم دو فیصلے ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای، پاسدارانِ انقلاب کے سابق سربراہ اسفندیار رحیم مشاری کو صدارتی دوڑ سے باہر رکھنے کا ذمہ لیں گے۔ مشاری، سابق صدر محمود احمدی نژاد کے سسرالی رشتہ دار اور اب کابینہ کے سربراہ ہیں۔ اس طرح، ایران بین الاقوامی معاملات پر سخت گیر بیانات سے گریز کرے گا اور اپنے موقف میں نرمی لے کر آئے گا۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے امریکا بھی اپنے ایران مخالف اتحادیوں کے رویوں میں نرمی لانے کی ذمہ داری لے گا اور ۱+۵ مذاکرات کو اس انداز میں نتیجہ خیز بنائے گا کہ آخرکار پابندیاں ختم ہوں۔
درحقیقت شورائے نگہبانِ قانونِ اساسی (جس کے نصف ارکان آیت اللہ خامنہ ای کے نامزد کردہ تھے) نے اسفندیار رحیم مشاری کے نام کو صدارتی امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیا، جبکہ عوامی جائزے واضح طور پر پہلی بار ووٹنگ میں ہی انہیں جیتتا ہوا دکھا رہے تھے۔ انقلابیوں کی صفوں میں تقسیم کی بدولت، جو سپریم راہنما نے بڑی ہنرمندی کے ساتھ کاشت کی تھی، شیخ حسن روحانی صدر منتخب ہو گئے۔ موقع کے لحاظ سے وہ ایک موزوں شخص تھے۔ ایک قوم پرست مذہبی راہنما، جو جوہری مسئلے پر ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۵ء سربراہ کی حیثیت سے مذاکرات میں شریک رہ چکے تھے۔ جب محمود احمدی نژاد صدر بنے اور انہوں نے روحانی کو اِس عہدے سے سبکدوش کیا، تو اس سے قبل روحانی تمام یورپی مطالبات تسلیم کر چکے تھے۔ مسٹر روحانی نے اسکاٹ لینڈ میں آئینی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور ایران گیٹ کے دوران وہ پہلے ایرانی تھے جن سے امریکا اور اسرائیل نے رابطہ کیا۔ ۲۰۰۹ء میں آیت اللہ رفسنجانی اور خاتمی کی مدد سے سی آئی اے کی جانب سے کی جانے والی رنگ انقلاب کی کوشش کے دوران، انہوں نے احمدی نژاد کے خلاف مغرب نواز موقف اختیار کیا۔ دریں اثنا، ان کے مذہبی راہ نما ہونے کی حیثیت نے ملاؤں کو پاسدارنِ انقلاب کے ہاتھ سے ریاست دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کے قابل کیا۔
اس کے جواب میں امریکا نے بھی اپنے سعودی اتحادیوں کو اپنا رویہ نرم کرنے اور نئی ایرانی حکومت کا کھلے دل سے خیر مقدم کرنے کی ہدایات دیں۔ چند ماہ تک ریاض اور تہران کے درمیان خوشگوار تعلقات رہے جبکہ شیخ روحانی نے بھی اپنے امریکی ہم منصب سے ذاتی طور پر رابطہ بنایا۔
وائٹ ہاؤس کا منصوبہ
وائٹ ہاؤس کا منصوبہ یہ تھا کہ فلسطین، لبنان، شام، عراق اور بحرین میں ایران کو ملنے والی کامیابیوں پر توجہ کی جائے اور اپنے انقلاب کو توسیع دینے کی کوشش ترک کر دینے کے بدلے، اِن ممالک میں ایران کو اپنے حاصل کردہ اثر و رسوخ سے لطف اندوز ہونے دیا جائے۔ مشرقِ قریب کو روسیوں کے ساتھ بانٹ لینے کے خیال کو ترک کردینے کے بعد، اب واشنگٹن کی نظر یہاں سے اپنی فوجیں نکالنے سے قبل اس خطے کو سعودیوں اور ایرانیوں کے درمیان تقسیم کر دینے پر مرکوز تھیں۔
اس ممکنہ تقسیم کے اعلان نے اچانک ان تجزیوں کو تقویت دی جو علاقائی واقعات کو شیعہ، سنی تنازعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بالکل بے تکی بات ہے کیونکہ اکثر اوقات رہنماؤں کا مذہب نچلے طبقوں سے اُن کو حمایت مہیا کرنے والے افراد کے مطابق نہیں ہوتا۔
تاہم اس تقسیم نے مشرقِ قریب کو دوبارہ بغداد پیکٹ والے دور میں لاکھڑا کیا۔ دوسرے الفاظ میں، یہ سرد جنگ کے زمانے والی صورتحال تھی، سوائے اس حقیقت کے کہ اب ایران سوویت یونین کا کردار ادا کر رہا تھا اور اثر پذیر علاقے مختلف انداز میں بٹے ہوئے تھے۔
اس سے قطع نظر کہ یہ صورتحال موجودہ روسی فیڈریشن کو صرف ناراض ہی کر سکتی تھی، یہ نئی تقسیم اسرائیل کو واپس اُس دور میں لے گئی، جب اس کے اوپر امریکی چھتری نہیں تھی۔ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے نقطۂ نظر سے، جو اپنے ملک کو (نیل سے لے کر فرات تک) توسیع دینے کے بہت بڑے حامی ہیں، یہ ناقابلِ قبول تھا۔ چنانچہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے تسلسل کو سبوتاژ کرنے کے لیے جو کچھ اُن کے بس میں تھا، انہوں نے کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ۲۰۱۴ء کے آغاز میں جنیوا میں جوہری معاملے پر معاہدہ طے پا چکا تھا، لیکن امریکی مذاکرات کار وینڈی شرمَین نے اسرائیلی مطالبات پر زور دینا شروع کیا تاکہ معاہدے کے دام بڑھائے جا سکیں۔ انہوں نے اچانک اس بات کا اظہار کیا کہ واشنگٹن محض اُن ضمانتوں کو قبول نہیں کرے گا جن کے مطابق ایران کے لیے ایٹم بم بنانا ناممکن ہوگا، بلکہ وہ اس بات کی ضمانت بھی مانگے گا کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری بھی ترک کر دے۔ اس حیران کُن مطالبے کو چین اور روس نے رَد کردیا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ایسا کوئی مطالبہ جوہری توانائی کے معاہدۂ عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) یا ۱+۵ کے دائرہ عمل میں نہیں آتا۔
واقعات میں یہ نیا موڑ ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے میں ایٹم بم امریکا کا حقیقی ہدف کبھی نہیں تھا، اگرچہ خوفناک معاشی اور مالیاتی محاصرے سے نبرد آزما ایران کو قابو کرنے کے لیے انہوں نے اس بہانے کو استعمال کیا۔ مزید یہ کہ صدر اوباما نے بھی اپنی ۲؍اپریل کی تقریر کے دوران ڈھکے چھپے الفاظ میں اس بات کا اعتراف کیا اور سپریم رہنما کے اس فتوے کی طرف بالواسطہ اشارہ کیا جو اس طرح کے ہتھیار کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا عسکری جوہری پروگرام، ۱۹۸۸ء میں آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کیے گئے اعلان کے کچھ عرصے بعد ہی ترک کر دیا تھا۔ اس وقت کے بعد سے ایران نے اپنی صرف سول جوہری تحقیق جاری رکھی۔ اگرچہ اس تحقیق کے بعض اجزا کے جنگی مضمرات ہو سکتے تھے جیسا کہ اس کا جنگی بحری جہازوں میں بطور توانائی استعمال ہوسکنا۔ امام خامنہ ای کا موقف، آیت اللہ خامنہ ای کے ۹؍اگست ۲۰۰۵ء کے فتوے کے بعد قانون کی حیثیت اختیار کر گیا۔
جو کچھ بھی ہو، واشنگٹن اگرچہ بنیامین نیتن یاہو کو ’’پاگل جنونی‘‘ سمجھتا ہے، لیکن اس نے سال ۲۰۱۴ء اسرائیلی دفاعی افواج (ساہل) کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوششوں میں گزارا۔ جس خیال پر بہت زیادہ زور دیا گیا، وہ یہ تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین علاقائی تقسیم کے درمیان ’’یہودی کالونی‘‘ کی حفاظت کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ اس خیال نے اس منصوبے کو ایک نئے قسم کے بغداد پیکٹ کی شکل دینے کی کوشش کی۔ نیٹو کے مماثل ایک علاقائی اتحاد کا قیام، جس کی رسمی سربراہی تو سعودی عرب کے پاس ہو، تاکہ عربوں کے لیے وہ قابلِ قبول ہوسکے، لیکن درحقیقت اس کا سربراہ اسرائیل ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے بغداد پیکٹ فی الواقع امریکا کی سربراہی میں تھا، اگرچہ رسمی طور پر وہ اس کا رُکن تک نہیں تھا۔ اس منصوبے کو صدر اوباما نے اپنی ۶ فروری ۲۰۱۵ء کی ’’قومی سلامتی نظریے‘‘ پر کی گئی تقریر میں طشت از بام کیا۔
جوہری معاہدے اور پابندیوں کے خاتمے کو اس منصوبے کی وجہ سے ملتوی کیا گیا۔ واشنگٹن نے بنیامین نیتن یاہو کے خلاف اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے بغاوت کا اہتمام کیا۔ واشنگٹن کو پورا یقین تھا کہ نیتن یاہو زیادہ عرصہ طاقت میں نہیں رہ پائیں گے۔ لیکن ’’محافظین برائے سلامتی اسرائیل‘‘ (Commanders for Israel’s security) کی تشکیل اور تقریباً تمام سابق اعلیٰ افسران کی نیتن یاہو کو ووٹ نہ دینے کی اپیلوں کے باوجود، نیتن یاہو رائے دہندگان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ صرف وہی ہیں جو ’’یہودی کالونی‘‘ کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ وہ ایک بار پھر منتخب ہو گئے۔
فلسطین سے متعلق واشنگٹن اور تہران، اسرائیل کو صرف موجودہ صورت میں برقرار رکھنے اور اوسلو معاہدے کے مطابق ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہو گئے۔ مسٹر نیتن یاہو نہ صرف ۱+۵ مذاکرات کی خفیہ نگرانی کر رہے تھے، بلکہ ایران اور امریکا کی دو طرفہ خفیہ بات چیت کی جاسوسی میں بھی مصروف تھے، انہوں نے اس پر جارحانہ ردِعمل کا اظہار کیا اور برسرِ عام اعلان کیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، اسرائیل کبھی ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ پس، انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ تل ابیب کا اوسلو معاہدے پر کیے جانے والے اپنے دستخطوں کا احترام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ گزشتہ بیس سال سے صرف وقت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھا۔
متحدہ عرب فورس
واشنگٹن اور لندن نے، جو اس معاملے کو جلد از جلد نپٹانے کے لیے بے چین تھے، اسے انجام سے دوچار کرنے کے لیے یمنی بغاوت کا انتخاب کیا۔ حُوثی شیعوں نے، جن کا سابق صدر عبداللہ صالح کے وفادار سپاہیوں کے ساتھ اتحاد تھا، صدر منصور ہادی سے استعفیٰ طلب کیا اور اسے حاصل کر لیا۔ صدر ہادی نے بعد میں اچانک اپنا ذہن بدل لیا۔ درحقیقت، ایک طویل عرصے سے ہادی نہ تو قانونی طور پر صدر باقی رہے تھے اور نہ اخلاقی طور پر۔ آخری وقت میں انہوں نے ان روابط کے ذریعے اپنی طاقت کو وسعت دینے کی کوشش کی جنہیں انہوں نے کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا تھا۔ امریکا اور برطانیہ کی دونوں اطراف میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی خاص ہمدردی نہیں تھی۔ دونوں نے مختلف مواقع پر مختلف فریق کا ساتھ دیا۔ انہوں نے سعودی عرب کو آزادی دی کہ وہ اس انقلاب کو حکومت مخالف بغاوت گرداننے کا پرچار کرے اور ایک دفعہ پھر اس ملک کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کرے۔ لندن نے عدن کی مدد کرنے کے لیے صومالی لینڈ کی قزاق ریاست کی طرف سے ایک فوجی کارروائی ترتیب دی۔ اسی اثنا میں، عرب لیگ نے یمن کے بحران کو ایک عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، نئی علاقائی نیٹو کے عرب حصے، متحدہ عرب فورس کے قیام کے فیصلے کو عام کر دیا۔
تین دن بعد ۱+۵ معاہدوں کو، جن پر ایک سال قبل ہی مذاکرات ہو چکے تھے، سامنے لے آیا گیا۔ تاہم اس اثنا میں، وزیرِ خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف نے ایک پورا دن تمام سیاسی نکات کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے بات چیت میں صرف کیا۔ اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اگلے تین ماہ میں واشنگٹن اور تہران، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور بحرین میں کشیدگیوں کو کم کریں گے اور یہ کہ جنیوا معاہدے پر جون کے آخر تک دستخط نہیں کیے جائیں گے اور اگر دونوں فریقین اپنے عہد پر قائم رہے تو یہ معاہدہ اگلے دس سال تک کے لیے مؤثر رہے گا۔
نتائج
٭ اس بات کا امکان ہے کہ مسٹر نیتن یاہو امریکی منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ایک اور کوشش کریں گے۔ لہٰذا یہ حیران کن نہیں ہوگا اگر ہمیں مزید نامعلوم دہشت گرد کارروائیاں یا سیاسی قتل دیکھنے کو ملیں۔ اِن کارروائیوں کی ذمہ داری واشنگٹن یا تہران کے سر ڈالی جاسکتی ہے تاکہ معاہدے پر ہونے والے دستخطوں کو روکا جا سکے جو ۳۰ جون ۲۰۱۵ء کو متوقع ہیں۔
چنانچہ واشنگٹن کے لیے یہ منطقی بات ہوگی کہ وہ بتدریج اسرائیل میں سیاسی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرے، ایسی تبدیلی جو وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کرسکتی ہو۔ اسرائیلی صدر ریووِن رِولن کی جانب سے نیتن یاہو کو نئی حکومت کا چارج دیتے وقت کی جانے والی نہایت سخت تقریر کو اسی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔
٭ دو طرفہ بات چیت میں یمن کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آیا۔ اگر معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ اگلے دس سالوں کے لیے خطے کا واحد باقی ماندہ وجہ تنازعہ ہوسکتا ہے۔
٭ جبکہ واشنگٹن، تہران کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دے رہا ہے اور سعودی عرب کے گرد و پیش ایک عسکری اتحاد کو پروان چڑھا رہا ہے، اسی دوران امریکا اِن ریاستوں کے معاشروں کے ساتھ ایک متضاد پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف وہ خطے کو ریاستوں کے مابین تقسیم کرنے کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے ذریعے ان معاشروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ اس کام میں امریکا ایک دہشت گرد ذیلی ریاست، دولتِ اسلامیہ (داعش) قائم کرنے کی حد تک چلا گیا ہے۔
٭ بنیادی طور پر امریکا نے خلیجی ریاستوں اور اُردن، اور غالباً بعد میں مراکش کو بھی شامل کر کے، ایک متحدہ عرب فورس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ متعلقہ ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ تاہم عمان نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا رکن ہونے کے باوجود فاصلہ قائم رکھا ہے۔ سعودی عرب اپنے اثر کو استعمال کرکے جی سی سی کی رکنیت مصر اور پاکستان کو بھی دینے کی کوشش کر رہا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ آخرالذکر ایک عرب ملک نہیں ہے۔
جہاں تک مصر کا تعلق ہے، قاہرہ کے پاس چال بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کسی سرگرمی میں دخل دیے بغیر اُسے تمام درخواستیں ماننا پڑیں گی۔ مصر کے پاس خود انحصاری کے کوئی ذرائع نہیں ہیں اور صرف بین الاقوامی امداد کے سہارے ہی وہ اپنی آبادی کو وسائلِ زندگی مہیا کرنے کے قابل ہے۔ دوسرے الفاظ میں، وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، روس اور امریکا کے زیرِ بار ہے۔ مصر کو، بالکل ۷۰۔۱۹۶۲ء کی خانہ جنگی کی طرح، ایک دفعہ پھر جنوب کی حمایت میں یمن میں ہونے والے آپریشن ’’ڈیسیزو ٹیمپیسٹ‘‘ میں گھسیٹا گیا۔ ماسوائے اس فرق کے کہ سابق سوشلسٹ اب القاعدہ کے رکن بن گئے ہیں اور قاہرہ اب سعودی بادشاہت کا اتحادی ہے۔ واضح طور پر مصر کو اس جنجال سے جتنی جلد ممکن ہو، باہر آنے کی ضرورت ہے۔
٭ جنم لیتی علاقائی صورتِ حال، خلیج اور لیوانت کے خطوں سے ہٹ کر بھی روس اور چین کے لیے مسائل کھڑے کرے گی۔ ماسکو کے لیے دس سال کی جنگ بندی اگرچہ اچھی خبر ہے، لیکن چونکہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اپنی فوجوں کی دوبارہ تعمیر میں اُس نے بہت دیر لگا دی، لہٰذا ایران کے فائدے کے لیے اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا اُس کے لیے باعثِ کوفت ہے۔ شام کے ساتھ طرطوس کی فوجی بندرگاہ کی تعمیر ہی نقطۂ اتفاق ہے۔ روسی بحریہ کو بحیرۂ روم، شام اور قبرص دونوں میں، ایک پائیدار جگہ دوبارہ حاصل کرنی ہے۔
جہاں تک چین کی بات ہے، ایران امریکی جنگ بندی امریکی فوجیوں اور ہوابازوں کی تیزی کے ساتھ خلیج سے مشرقِ بعید منتقلی کا باعث بنے گی۔ پینٹاگون پہلے ہی برونائی میں دنیا کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا ہے۔ بیجنگ کے لیے یہ اپنی فوجوں کو خاطر خواہ معیار تک لانے کی دوڑ بن چکی ہے۔ چین کو امریکی سلطنت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے، قبل اس کے کہ امریکا اُس پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“What You Don’t Know About The United States – Iran Agreements”. (“informationclearinghouse.info”.)
Leave a Reply