
ایک فارسی کہاوت کا ترجمہ اس طرح ہے کہ ’’اَن کہا لفظ آپ کا غلام ہے اور کہا ہوا لفظ آپ کا مالک‘‘۔ عام حالات میں یہ ایک بہترین مشورہ ہے لیکن فی الحال ایران میں عام حالات نہیں ہیں۔ ۳۰ سال میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات کو عوامی طور پر چیلنج کیا گیا ہے۔ میر حسین موسوی اور ان کے حامیوں نے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے مخالف امیدوار کو ۱۱ ملین ووٹوں سے شکست دی۔ ایرانی حکومت کے شدید ناقدین کو بھی اس بات سے اتفاق کرنا چاہیے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہوتی تو ۱۱ ملین ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا حقیقت میں ناممکن ہے۔
ایران کی سیاسی و مذہبی قیادت بہت طاقتور ہے بند دروازوں کے پیچھے اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ان سے ذاتی طور پر اختلاف رائے رکھ سکتا ہے لیکن عوامی سطح پر اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
گزشتہ ۲۵ سالوں میں ایران کے تمام اعلیٰ قائدین سابق صدر ہاشمی رفسنجانی، محمد خاتمی اور موسوی (جو وزیراعظم تھے) سے میں نے بات کی۔ میں ہی پہلا وزیر خارجہ تھا جس کی ۲۰۰۵ء میں احمدی نژاد کے انتخاب کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی۔
میں پہلی مرتبہ ۱۹۸۲ء میں آیت اللہ علی خامنہ ای سے غیر جانبدار تحریک (نام) کی ساتویں کانفرنس کے سلسلے میں تہران میں ملا تھا۔ اس وقت میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر تھا۔ یہ کانفرنس ۱۹۸۳ء میں دہلی میں منعقد ہونے والی تھی۔ وہ وزیراعظم اندرا گاندھی سے جو کام کروانا چاہتے تھے وہ ان کے لیے ممکن نہیں تھا میں نے انتہائی شائستگی سے انہیں سمجھایا جس کا مجھے اختیار دیا گیا تھا۔ میں نے ان سے انتہائی نرمی سے کہا کہ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے میں ایران سے ہمارے قدیم تعلقات کی قدر کرتا ہوں۔ لاکھوں شیعہ ہندوستان میں رہتے ہیں ہمارے ادب، پکوان، لباس، زبان اور اندازِ تعمیر پر ایران کے اثر کو پسند کیا گیا اور ہندوستان کے عوام کی جانب سے اسے اپنا لیا گیا۔ تاہم نام چوٹی کانفرنس کی صدر نشین کی حیثیت سے اندرا گاندھی کی بھی مخصوص حدود اور سفارتی ترجیحات ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میری بات سننے کے بعد سپریم لیڈر نے ایران اور ہندوستان کے درمیان گرمجوشانہ تعلقات کے بارے میں بات کی۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے کہا کہ میں ان کی بات وزیراعظم تک پہنچا دوں جو انہوں نے مجھ سے پہلے کہی تھی۔ میں نے احترام کے ساتھ کہا کہ میں چوٹی کانفرنس کے تعلق سے ان کے خیالات کو دیانتداری سے اندرا گاندھی تک پہنچا دوں گا۔
نئی دہلی واپسی کے بعد اپنی میٹنگ میں، میں نے وزیراعظم کو ساری رپورٹ دے دی انہوں نے کہا ’’آپ نے بالکل صحیح کیا‘‘۔
ستمبر ۱۹۸۶ء میں نام چوٹی کانفرنس زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں منعقد ہوئی تھی۔ اپنی ماں کی موت کے بعد نام کی صدارت راجیو گاندھی کے ورثے میں آئی۔ دوپہر کے سیشن میں انہیں عہدہ رابرٹ موگابے کے سپرد کرنا تھا۔ افتتاحی سیشن کی صدارت وزیراعظم نے کی تھی۔ یاسر عرفات نے ایران پر شدید حملہ کیا تھا۔
آیت اللہ خمینی ایرانی وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ ایک ایرانی سفیر نے بتایا کہ سپریم لیڈر یاسر عرفات کے ’’بے بنیاد الزامات‘‘ کا جواب دینے کا اپنا حق استعمال کریں گے۔ کسی تاخیر کے بغیر میں نے وزیراعظم کو مطلع کیا کہ ایرانی رہنما کیا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے فوری طور پر وفود کی ایک میٹنگ طلب کی جس میں شیوشنکرمینن، کے آر نارائنن، ایچ وائی شاردا پرساد اور خود میں شامل تھے۔ زمبابوے کے صدر کو اختیارات سونپنے سے پہلے دوپہر کے سیشن میں بھی راجیو گاندھی ہی صدر تھے۔ ایرانیوں نے ہم سے کہا کہ ان کے سپریم لیڈر اپنا جواب دینے کا حق راجیو گاندھی کے موگابے کو اختیارات دینے سے قبل استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آیت اللہ اصرار کریں تو میں کیا کروں؟ ساری کانفرنس کا ماحول ہی بگڑ جائے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے کیا مشورہ دیا تھا۔ میں نے ایرانی سپریم لیڈر سے فوری ایک ملاقات کی تجویز دی۔ میں نے وزیراعظم سے کہا کہ میرے خیال میں وہ صرف آپ کی بات سنیں گے۔
مجھے سپریم لیڈر کے پاس بھیجا گیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ اگر ان سے نظر ملا کر دیکھیں تو یقینا پہلے آپ کو ہی پلک جھپکنا پڑے گی۔ میں نے کہا جناب وزیراعظم آپ سے فوری طور پر ملنا چاہتے ہیں۔ جواب آیا ان کا خیر مقدم ہے۔
راجیو گاندھی خود بھی کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ ان دونوں کی اس غیر معمولی ملاقات کو دیکھنا اور سننا واقعی دلچسپ تھا۔ وزیراعظم نے اپنا مسئلہ واضح اور باوقار انداز میں ایرانی سپریم لیڈر کے سامنے بیان کیا مجھے وزیراعظم کے الفاظ جوں کے توں یاد نہیں ، لیکن مجھے جتنا یاد ہے انہوں نے کہا: ’’میں یہاں نام کے صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہندوستان کے وزیراعظم اور ایران کے خیر خواہ کی حیثیت سے آیا ہوں، مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے‘‘۔
ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے اپنا مسئلہ آیت اللہ کے سامنے پیش کیا کہ اگر ایران نے اپنا جواب دینے کا حق استعمال کیا تو پھر نام کے اصولوں کے تحت عرفات کو بھی دوبارہ بات کرنے کی اجازت دینی پڑے گی۔ پھر ایران بھی ایسا ہی کرے گا۔ یہ بات لازمی طور پر متصادم صورتحال پیدا کرے گی اور اگر کانفرنس کو کامیاب بنانا ہو تو اس سے بچنا ہو گا۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد جواب آیا کہ ’’ہم ہندوستان کے وزیراعظم کو ’’نہ‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ ہم اپنے جواب دینے کے حق کا استعمال نہیں کریں گے‘‘۔ یہ اصل وقار اور سفارت میں کشادہ دلی تھی، اس طرح ایران اور ہندوستان کی کوشش سے کانفرنس کے ماحول کو بگڑنے سے بچایا گیا۔
آیت اللہ اب بھی سپریم لیڈر ہیں مغرب اور اسرائیل اگر انہیں کم تر سمجھیں تو وہ غیر دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے۔ میں نے اس واقعے کا ذکر اس حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لیے کیا کہ ایرانی سپریم لیڈر کوئی معمولی لیڈر نہیں ہے۔ وہ ایک بہترین، نفیس، تجربہ کار اور شدید مذہبی لیڈر ہیں۔ ان کے اختیارات اور طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ دیگر صرف ان کے معاونین ہیں جو ایک یا دو معاملات میں بااختیار ہو سکتے ہیں۔
بے شک ایران کی موجودہ صورتحال اس کے دوستوں اور خطرناک دشمنوں دونوں ہی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ساری دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی ہے مسلم دنیا میں ایران ایک اہم کھلاڑی ہے۔ وہ نیوکلیئر طاقت کا حامل ملک بھی ہے۔ مغربی ایشیا کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کو بھی بہت زیادہ پریشانی ہے۔ بے شک ہندوستان کو ایک بڑی الجھن کا سامنا ہے اور یہیں باشعور سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کیا کر سکتا ہے عوامی طور پر کچھ نہیں۔ یہ ایران کا داخلی معاملہ ہے جو بین الاقوامی اثرات بھی رکھتا ہے۔ انتظار کیجیے اور دیکھیے۔ کوئی عمل نہ کرنا بھی ایک عمل ہے۔ ان کہے لفظ کی اہمیت یاد رکھیے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’منصف‘‘۔ حیدرآباد‘ دکن)
Leave a Reply