
میں ستمبر ۱۹۹۶ء میں ایران گیا تھا۔ اس دورے کی باقی رہ جانے والی یادوں میں سرِ فہرست اس ہوٹل کی لابی کا ایک منظر ہے جہاں میں مقیم تھا۔ لابی کے مرکزی دروازے کے اوپر جلی حروف میں ’’مرگ بر امریکا‘‘ تحریر تھا۔ یہ تحریر کسی بینر پر یا برش سے دیوار پر نہیں لکھی گئی تھی بلکہ ٹائلوں پر کندہ کرکے دیوار میں جڑ دی گئی تھی۔ اسے دیکھ کر جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا، وہ یہ تھا کہ ’’واہ! انہوں نے تو اپنی اس پالیسی کو دیوار میں چُن دیا ہے۔ اب یہ اتنی آسانی سے تو مٹنے والی نہیں‘‘۔
اس دورے کے لگ بھگ ۲۰ برس بعد جب مجھے رواں ماہ امریکا اور تہران حکومت کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر عبوری معاہدہ طے پانے کی خبر ملی تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ شاید قدرت ہمیں تہران کے اس ہوٹل کی دیوار پر کندہ اُس نعرے کو مٹانے کا ایک موقع فراہم کر رہی ہے۔ مجھے لگا کہ شاید یہ سمجھوتا امریکا اور ایران کے درمیان گزشتہ ۳۶ برسوں سے جاری اس سرد جنگ کو ٹھنڈا کرنے کا ایک موقع ہے جو گاہے گرم محاذ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس خدشے نے، کہ ایران اس سمجھوتے کی آڑ میں آخرِ کار جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے، اس موقع کو امریکا، اسرائیل اور خطے میں اس کے سنی عرب اتحادیوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے جب مجھے اس عبوری سمجھوتے پر صدر براک اوباما کے خیالات جاننے کے لیے ان کا انٹرویو کرنے کی دعوت موصول ہوئی، تو میں انہی خدشات اور امیدوں میں گِھرا وہائٹ ہائوس پہنچا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ ایران کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں طے پانے والے عبوری معاہدے کی تفصیلات طے کرتے وقت، صدر اوباما کی حکومت مواقع اور چیلنجز کے درمیان کس طرح توازن قائم رکھے گی۔
صدر اوباما سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ ایران سے متعلق صدر کی پالیسی خاصی نپی تلی اور سوچی سمجھی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا برما اور کیوبا کے بعد اب ایران کے ساتھ امریکا کے سفارتی رابطوں کی بحالی میں کوئی قدرِ مشترک ہے؟ کیوں کہ ان تمام ہی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک عرصے تک سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ صدر اوباما سمجھتے ہیں کہ ان ملکوں پر طویل مدت سے عائد اقتصادی پابندیوں اور انہیں تنہا رکھنے کی امریکی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں اپنے مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان ملکوں کے ساتھ روابط بڑھانا نہ صرف امریکا بلکہ خود ان ملکوں کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
صدر کے بقول ایک سپر پاور ہونے کے ناتے امریکا کو اتنا پُر اعتماد تو ہونا چاہیے کہ وہ کچھ اہم اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تھوڑے بہت خطرات مول لے سکے۔ ان کے بقول انہوں نے ایران کے ساتھ یہی پالیسی اپنائی ہے۔ وہ ایک سمجھوتے کے تحت ایران کی جوہری بم بنانے کی صلاحیت کو کم ازکم ایک دہائی تک مؤخر رکھتے ہوئے اسے بعض جوہری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
صدر کے اپنے الفاظ میں، ’’ہم اتنے طاقتور ہیں کہ خود کو خطرے میں ڈالے بغیر کسی بحران کے پُرامن حل کی امید کو ایک موقع دے سکتے ہیں۔ لیکن شاید یہی بات لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی۔ آپ کیوبا کی مثال لیجیے۔ اگر ہم اس مفروضے کے تحت کیوبا کے ساتھ روابط بڑھاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمیں بلکہ کیوبا کے عوام کو بھی فائدہ ہوگا، تو آخر اس میں ہمارا نقصان ہی کیا ہے؟ کیوبا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو ہمارے سکیورٹی مفادات کے لیے خطرہ نہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں اس مفروضے کے تحت سفارتی رابطوں کے نتائج اقتصادی پابندیوں سے کہیں بہتر ہوں گے، اور اگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا تو ہم اپنی اس پالیسی میں رد و بدل کرلیں گے۔ اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں۔ اسی طرح ایران کی مثال ہے۔ ایران نسبتاً ایک بڑا اور خطرناک ملک ہے، ایک ایسا ملک جو امریکی شہریوں کی جان و مال کے لیے ایک خطرہ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کا دفاعی بجٹ صرف تیس ارب ڈالر ہے، جبکہ ہمارا دفاعی بجٹ چھ سو ارب ڈالر ہے۔ ایران بخوبی سمجھتا ہے کہ وہ امریکا سے جنگ نہیں کرسکتا۔ آپ جس ’’اوباما ڈاکٹرائن‘‘ کا پوچھ رہے ہیں، وہ یہی ہے کہ ہم ان ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں گے لیکن ہم خود کو ہر طرح کی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے بھی تیار رکھیں گے‘‘۔
’’جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ اس لیے سمجھوتا کر رہا ہے کہ ایران کو جھکانا ممکن نہیں، تو ایسا نہیں ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ سفارت کاری کو ایک موقع دینے میں حرج ہی کیا ہے؟ سمجھنے اور سمجھانے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے تمام راستے کھلے رکھے ہیں اور ہم بے وقوف نہیں ہیں۔ اگر ہم سفارت کاری کے ذریعے تمام مسائل حل کرلیتے ہیں تو یقین جانیے کہ ہم کہیں زیادہ مامون و محفوظ اور اپنے اتحادیوں کی پہلے سے بڑھ کر حفاظت کرنے کے قابل ہوں گے۔ کون جانتا ہے کہ ان رابطوں اور سفارت کاری کے نتیجے میں خود ایران کے رویے میں ہی تبدیلی آجائے، اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو ہماری عسکری صلاحیت اور فوجی برتری تو بہرحال قائم ہی رہے گی۔ ہم اگر ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتا کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم کسی خطرے کے مقابلے میں اپنا یا اپنے اتحادیوں کے دفاع کرنے کی صلاحیت سے بھی دستبردار ہورہے ہیں؟ جب ایسا کچھ نہیں ہے تو آخر ہم سفارت کاری کا راستہ اپنانے سے خوف زدہ کیوں ہیں؟‘‘
ایران کے ساتھ مجوزہ معاہدے پر اسرائیلی خدشات سے متعلق صدر اوباما کا کہنا تھا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ ایران کے ساتھ سمجھوتے پر اسرائیل کا موقف بالکل مختلف ہے۔ اگر وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو یہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیے آپ کی اس سفارت کاری کے نتیجے میں اسرائیل کے لیے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے اور آپ کی طرح ہمیں امن کو ایک موقع دینے کی سہولت میسر نہیں‘ تو میں ان کی اس رائے کا احترام کرتا ہوں اور ان کے جذبات سمجھتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کی المناک تاریخ کے پیشِ نظر اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت اور سلامتی کے لیے صرف ہم پر یا ہماری یقین دہانیوں پر بھروسا نہیں کر سکتا تو اس کا یہ موقف بھی درست ہے۔ لیکن میرا اسرائیلیوں کو یہ پیغام ہے کہ میں بحیثیت صدرِ امریکا ہر صورت یہ یقینی بناؤں گا کہ خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری نہ صرف قائم رہے بلکہ وہ مستقبل میں اپنے اوپر ہونے والے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کی صلاحیت بھی برقرار رکھے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میں ایران سمیت اسرائیل کے تمام پڑوسیوں پر یہ واضح کردوں کہ اگر کسی ملک نے اسرائیل پر حملہ کیا تو ہم اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ میرے خیال میں اس یقین دہانی کے بعد ہمیں ایران کے ساتھ اپنا جوہری تنازع حل کرنے کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو ایک موقع دینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ میں اسرائیلی عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا کوئی فارمولا اور طریقہ دستیاب نہیں جس سے ایران کو ایٹم بم تیار کرنے سے روکا جاسکے، ماسوائے اس عبوری معاہدے کے جو ہم نے طویل سفارت کاری کے بعد ایران کے ساتھ کیا ہے اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے‘‘۔
ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر اسرائیل اور امریکی یہودیوں کی قابلِ ذکر تعداد صدر اوباما کو ’’اسرائیل مخالف‘‘ قرار دے رہی ہے جس پر صدر خاصے دل شکستہ ہیں۔ ایران کے ساتھ اوباما انتظامیہ کے عبوری معاہدے اور اسرائیل کی جانب سے اس کی مخالفت کے بعد یہ معاملہ امریکی سیاست پر بھی حاوی ہوچکا ہے۔ ری پبلکن جماعت اس وقت خم ٹھونک کر صدر اوباما کی ایران پالیسی کی مخالفت کر رہی ہے اور اس کے رہنما خود کو اسرائیل کا حامی و مددگار باور کرانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے۔ ری پبلکن کی اس جارحانہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ڈیموکریٹس، جو روایتی طور پر اسرائیل کے حامی رہے ہیں، تند و تیز بیانات کی اس جنگ میں خاصے پیچھے رہ گئے ہیں اور اپنا دفاع نہیں کر پارہے۔
انٹرویو کے دوران صدر اوباما نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی طرح اسرائیل بھی ایک متحرک جمہوریت ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔ لیکن ان دو طرفہ تعلقات میں اتنی گنجائش ہونی چاہیے کہ وہ اسرائیل کی کسی پالیسی، مثال کے طورپر فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر سے اختلاف کرسکیں اور انہیں اس اختلافِ رائے پر ’’اسرائیل مخالف‘‘ قرار نہ دیا جائے۔
صدر اوباما نے کہا کہ ’’اسی طرح وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو اگر کسی معاملے پر مجھ سے اختلاف کریں تو انہیں ’ڈیموکریٹ مخالف‘ نہ سمجھا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ حقیقت سمجھ لیں کہ جہاں امریکا اور اسرائیل کے درمیان کئی مشترک قدریں ہیں، وہیں ان دونوں کے درمیان بعض اسٹریٹجک اختلافات بھی ہوسکتے ہیں۔ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے ہاں پالیسی امور پر ہونے والے مباحثوں کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔
ایران کے ساتھ معاہدے پر سعودی عرب اور امریکا کے دیگر سنی اتحادیوں کے خدشات کے حوالے سے صدر اوباما کا کہنا تھا، ’’یقینا ان عرب ملکوں کو کچھ حقیقی بیرونی خطرات بھی لاحق ہیں، لیکن انہیں اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ان ملکوں کے بعض طبقات اور آبادیوں کا مرکزی دھارے سے دور ہونا، نوجوانوں میں بیروزگاری، پرتشدد نظریات کا فروغ اور بعض معاشروں میں حقیقی سیاسی نمائندگی کا فقدان، یہ تمام وہ مسائل ہیں جو ان ریاستوں کی سلامتی کے لیے داخلی خطرہ ہیں۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ایک تو ہم ان ریاستوں کے ساتھ مل کر ان کی بیرونی خطرات سے دفاع کی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں۔ دوسرا ہم ان ملکوں میں سیاسی اداروں اور جماعتوں کو مضبوط کریں تاکہ سنی نوجوان داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف دیکھنے کے بجائے مرکزی دھارے کی سیاست کا حصہ بنیں۔ میری رائے میں ان عرب ریاستوں کو لاحق سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں ہے کہ ایران ان پر حملہ کردے گا، بلکہ اصل خطرہ ان ملکوں کے اندر بڑھنے والی بے اطمینانی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ ان ریاستوں کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنا خاصا مشکل ہوگا، لیکن بہرحال اس پر بات تو کرنی ہوگی‘‘۔
اس کے ساتھ ہی صدر اوباما نے یہ بھی واضح کیا کہ ان ریاستوں کے تحفظات قبل از وقت ہیں، کیوں کہ ایران کے ساتھ ابھی کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ ’’ابھی کام ختم نہیں ہوا۔ معاہدے کی تفصیلات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس حوالے سے امریکا اور ایران دونوں کو سیاسی مشکلات کا سامنا ہے اور دونوں فریق عبوری معاہدے پر آگے پیچھے ہورہے ہیں‘‘۔
ایران کے ساتھ سمجھوتے پر کانگریس کے کردار سے متعلق صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انہیں بطور صدرِ امریکا، کانگریس کی منظوری کے بغیر کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کا اختیار ہے اور وہ اپنے اس صدارتی اختیار پر اصرار کریں گے۔ ان کے بقول کانگریس کو اپنے رجحانات کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اسے صدر کے اختیارات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ صدر نے کہا کہ عبوری سمجھوتے پر اتفاقِ رائے سے عین قبل ۴۷ ری پبلکن سینیٹروں کا ایران کے سپریم رہنما کو خط لکھ دینا اور پھر اسرائیلی وزیرِاعظم کو کانگریس سے خطاب کی دعوت دے دینا، نامناسب اقدامات تھے۔ ان کے خیال میں کانگریس نے ان معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کو اختلافِ رائے کے اظہار کا حق ہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود ہونی چاہئیں، تاکہ جب امریکی انتظامیہ دوسرے ملکوں سے بات چیت کرے تو سب پر واضح ہو کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مفادات کی واحد ترجمان ہے جس کے ساتھ وہ بغیر کسی تردد کے معاملات طے کرسکتے ہیں۔
براک اوباما امریکا کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہیں ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کے بعد ایران کی مرکزی قیادت کے ساتھ کئی بار بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطے کرنا پڑے ہیں۔ ان رابطوں کا سبب جوہری سمجھوتے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے صدر اوباما اور ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ ان رابطوں سے انہوں نے کیا سیکھا؟
صدر کے بقول، ’’ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایران ایک بہت مشکل ملک ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکا ایک مشکل ملک ہے۔ ماضی کے واقعات اور پالیسیوں نے دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی ایسی خلیج کو جنم دیا ہے جو بہت آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔ ایرانی قیادت کا لب و لہجہ، خصوصاً ان کے امریکا، یہود اور اسرائیل مخالف بیانات ہمارے لیے پریشان کن ہیں۔ ایران کے رویے نہ صرف ہماری قومی سلامتی کے مفادات اور نظریات سے براہِ راست متصادم ہیں بلکہ خطے میں موجود ہمارے اتحادیوں اور دوستوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تمام اختلافات بالکل واضح اور حقیقی ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی حکومت گاہے عملیت پسندی کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا وہ اپنی بقا کے لیے کرتی ہے، کیوں کہ وہ کسی حد تک اپنے عوام کو جواب دہ ہے۔ ایران میں صدر حسن روحانی کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی عوام میں بین الاقوامی برادری کے شانہ بشانہ چلنے اور بین الاقوامی معیشت سے ہم آہنگ ہو کر معاشی خوش حالی کے حصول کی خواہش موجود ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں وہ طاقتیں مضبوط ہوئی ہیں جو اس سانچے سے باہر آنا چاہتی ہیں جسے ایران نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک طویل عرصے سے اختیار کر رکھا ہے۔ گو کہ یہ کوئی جوہری تبدیلی نہیں، لیکن بہرحال ایک ایسی تبدیلی ضرور ہے جو ہمیں ایران کے ساتھ ایک اور طرح کے تعلقات قائم کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ جوہری سمجھوتا اسی کا ایک اظہار ہے۔‘‘
لیکن اس معاملے پر آیت اللہ علی خامنہ ای کا ردِ عمل کیا ہوگا، جنہیں سپریم رہنما ہونے کے ناتے اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام معاملات میں حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے؟ میں نے صدر اوباما سے دریافت کیا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ خط و کتابت کے بعد انہوں نے ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہے؟
صدر اوباما کے بقول ’’انہیں سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ میری ان سے براہِ راست بات چیت تو نہیں ہوئی لیکن آیت اللہ خامنہ ای نے جو خطوط مجھے بھیجے ہیں، ان میں انہوں نے تواتر سے ماضی کے ان ناروا رویوں کا حوالہ دیا ہے جو ان کے خیال میں ایران کے ساتھ روا رکھے گئے۔ تاہم میرے خیال میں ایران کے سپریم رہنما نے جوہری تنازع پر مغرب کے ساتھ بات چیت کرنے والے اپنے مذاکرات کاروں کو اہم فیصلے کرنے اور امریکا کو بعض اہم رعایتوں کی یقین دہانی کرانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ یہ عبوری معاہدہ برگ و بار لائے گا۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ ایرانی سپریم رہنما مغرب کے متعلق انتہائی حد تک شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات اور داخلی معاملات میں باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور انتہائی روایت پسند ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اسے کمزور کر رہی ہیں۔ اگر وہ ایران کو واقعی دوبارہ اقوامِ عالم کے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں ان کا رویہ اور ایران کی پالیسی میں تبدیلی نظر آئے گی‘‘۔
ایران میں بھی گرما گرم بحث جاری ہے کہ آیا اسے جوہری تنازع پر عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے عبوری معاہدے پر عمل درآمد کرنا چاہیے یا نہیں۔ میں نے صدر سے پوچھا کہ آخر وہ کس طرح ایرانی عوام کو قائل کریں گے کہ یہ معاہدہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے؟
صدر اوباما کے بقول، ’’اگر تو ایرانی رہنما سچ کہہ رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتے، تو پھر ایران کے عوام کو یہ دیکھنا چاہیے کہ علامتی حیثیت کے حامل ایک جوہری پروگرام کی خاطر ان کی حکومت اپنے ملک اور عوام کے مفادات کو کیوں پسِ پشت ڈال رہی ہے؟ ایک بے مقصد جوہری پروگرام کے لیے ایرانی عوام کے بے تحاشا ٹیلنٹ اور تخلیقی صلاحیتوں کو دبانا، بین الاقوامی معیشت سے دوری اور اس کے ثمرات سے اپنے عوام کو محروم رکھنا، کہاں کی عقل مندی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ تقابل ہی ایرانی عوام پر یہ واضح کردے گا کہ ان کا انتخاب کیا ہونا چاہیے؟ خطے میں ایک طاقتور فریق کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے ایران کو ایٹم بم کی ہرگز ضرورت نہیں، بلکہ میں تو ایرانی عوام کو یہ باور کرانا چاہوں گا کہ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے آپ کو یہود مخالف، اسرائیل مخالف اور سُنّی مخالف ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے پاس ایک علاقائی طاقت بننے کے لیے درکار تمام ضروری اجزا موجود ہیں۔ اگر ایران بین الاقوامی سیاست میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرے، اپنے پڑوسیوں کے خلاف سخت بیان بازی سے باز رہے، یہود اور اسرائیل مخالف جذبات کے اظہار سے گریز کرے، اگر صرف اتنی فوج رکھے جتنی اس کے دفاع کے لیے ضروری ہے اور خطے میں ’پراکسی جنگوں‘ کی آگ نہ بھڑکائے، تو یقین جانیے کہ ایران اپنی آبادی، اپنے رقبے اور اپنے وسائل کی بنیاد پر ایک بہت کامیاب علاقائی طاقت بن سکتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ایرانی عوام اس حقیقت کا ادرک کریں گے‘‘۔
صدر اوباما کے بقول، ’’ایران کے حکمران طبقے کی نفسیات بڑی حد تک ماضی کے تلخ تجربات نے تشکیل دی ہے۔ ان کا یہ احساس ابھی تک تازہ ہے کہ ایران کو دبایا جاتا رہا ہے، ایرانیوں کو اب بھی یاد ہے کہ امریکا اور مغرب پہلے ان کی جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے اور پھر شاہِ ایران اور اس کے بعد طویل ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی مدد کرتے رہے۔ اسی لیے میں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ ایران کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل پانے والی جارحیت پر آمادہ نفسیات اور اُس دفاعی نفسیات میں فرق ملحوظ رکھیں جس کے تحت ایران اپنے ماضی کے حالات و واقعات سے جنم لینے والے خوف کے باعث سخت ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم اس نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایران کے ساتھ معاملہ کرنے میں کامیاب رہے تو ہوسکتا ہے کہ ایران میں سرگرم مثبت قوتوں کو تقویت ملے۔ وہ قوتیں ہر وقت حالتِ جنگ میں رہنے کے بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں پیش رفت اور ایرانی عوام کی ترقی اور معاشی خوش حالی پر یقین رکھتی ہیں۔ لیکن میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایران کے ساتھ ہم جس جوہری معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم اس معاہدے کی آڑ میں وہاں حکومت یا نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں‘‘۔
’’اگر ایران کا رویہ اور سوچ مکمل طور پر تبدیل نہیں بھی ہوں تب بھی یہ ایک اچھا معاہدہ ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو یہی سمجھتے ہیں کہ صدر روحانی اور آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان کوئی فرق نہیں اور وہ دونوں ہی انتہا درجے کے مغرب اور اسرائیل مخالف اور ازلی جھوٹے اور مکار ہیں، اگر کوئی واقعی ایسا سمجھتا ہے تو پھر بھی میرے خیال میں ہمارے پاس یہ سمجھوتا ہی خود کو محفوظ بنانے کا سب سے بہترین اور قابلِ عمل راستہ ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہم سے نفرت ایرانیوں کی فطرت میں ہے، تب بھی یہ سمجھوتا ہی ہمارے پاس یہ جاننے کا واحد راستہ ہے کہ ایرانی ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں اور اس سمجھوتے کے ذریعے ہم ایک طویل عرصے تک ایران کو ایٹم بم تیار کرنے سے باز رکھ سکتے ہیں‘‘۔
عبوری سمجھوتے میں کئی ایسے حساس نکات ہیں جو مجھے سمجھ نہیں آئے اور میں نے صدر اوباما سے ان کی وضاحت چاہی۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں شبہ ہو کہ ایران معاہدے پر عمل نہیں کر رہا اور عالمی نگرانی سے بچتے ہوئے کسی خفیہ مقام پر اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے، تو کیا ہمیں یہ اختیار حاصل ہوگا کہ ہم اس مقام تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کی رسائی پر اصرار کرسکیں؟
اس پر صدر اوباما کا کہنا تھا، ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ عبوری سمجھوتے میں اس پر اتفاق ہوا ہے کہ ہم یورینیم کی کانوں سے لے کر نتانز جیسی اعلیٰ جوہری تنصیبات تک، ایران کے جوہری پروگرام کے پورے سلسلے پر نظر رکھ سکیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاملہ صرف چند معائنہ کاروں کی تین، چار یا پانچ تنصیبات میں تعیناتی تک محدود نہیں بلکہ ہم اوّل سے آخر تک ان کی تمام جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے قابل ہوں گے۔ اگر وہ واقعی ہماری نظروں سے بچ کر کوئی ایسا خفیہ پروگرام جاری رکھنا چاہیں گے کہ جس کے ذریعے وہ ایٹم بم تیار کرسکیں تو اس کے لیے انہیں صفر سے اپنی سرگرمیاں شروع کرنی ہوں گی اور نئے سرے سے ’سپلائی چین‘ بنانا ہوگی‘‘۔
’’دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاہدے کے تحت ہم ایک کمیٹی بنائیں گے جو اس بات پر نظر رکھے گی کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے لیے کیا چیزیں درآمد کر رہا ہے۔ یہ کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ جو چیز خریدی جارہی ہے، وہ مختلف مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں ہوسکتی اور کہیں اسے کسی ایسی سرگرمی میں تو استعمال نہیں کیا جارہا جو پُرامن جوہری پروگرام سے میل نہیں کھاتی۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ہم ایک ایسا نظام تشکیل دیں گے جس کے تحت جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کار ایران میں جہاں چاہیں جاسکیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لازمی بات ہے کہ اس طرح کے معائنے کے لیے ہمیں ایران سے باضابطہ درخواست کرنا پڑے گی اور اسے اس پر اعتراض بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن ہم نے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت ہمارے اعتراضات کی شنوائی ممکن ہو۔ اس نظام میں ایران کو ہماری ایسی کسی بھی درخواست کو یکسر مسترد کرنے کا اختیار حاصل نہیں، بلکہ یہ فیصلہ بین الاقوامی فورم کرے گا کہ آیا کسی ایسی تنصیب تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دی جائے جس پر عالمی برادری کو شک ہے اور ظاہر ہے یہ فیصلہ دلائل اور شواہد کی بنیاد پر ہوگا۔ لہٰذا اس عبوری معاہدے کے تحت ہم نے نہ صرف ایران پر ’آئی اے ای اے‘ کے ان ضابطوں کا نفاذ یقینی بنایا ہے جو اس سے قبل مشکوک جوہری پروگرام رکھنے والے ممالک پر لاگو ہوتے رہے ہیں، بلکہ بعض ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جن کے تحت ایران کو ایسی کڑی نگرانی اور چھان بین سے گزرنا پڑے گا جس کا سامنا اس سے پہلے کبھی کسی ملک نے نہیں کیا‘‘۔
ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے نظام الاوقات سے متعلق صدر اوباما کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تفصیلات تاحال طے نہیں ہوئیں۔ لیکن ان کے بقول ’’عبوری معاہدے میں بعض ایسے اقدامات کا تعین کردیا گیا ہے جن پر ایران کو فوراً عمل کرنا ہوگا۔ ان امور پر پیش رفت کے بعد ایران پر عائد اقوامِ متحدہ کی پابندیاں اٹھائی جاسکتی ہیں۔ لیکن جوہری پھیلاؤ اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری سمیت کئی ایسی پابندیاں ہیں جو اس پر عائد رہیں گی۔ ہمارے پاس یہ اختیار ہوگا کہ معاہدے کی خلاف ورزی ثابت ہونے کی صورت میں ان پابندیوں کا دوبارہ نفاذ کر سکیں جو اس پر سے اٹھائی جائیں گی۔ ایران اس قابل ہوگا کہ اقتصادی پابندیوں کے خاتمے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے لیکن ساتھ ہی اس پر یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ اگر اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی، تو اسے ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
امریکا نے دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں بھی ایران پر بعض پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس سوال پر کہ ان پابندیوں کا مستقبل کیا ہوگا، صدر اوباما نے کہا کہ ایران پر عائد بعض ایسی پابندیاں برقرار رہیں گی جن کا تعلق اس کے جوہری پروگرام سے نہیں۔
’’ہم اس بات کو کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ اگر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پاجاتا ہے اور ایران اس کی پاسداری کرتا ہے تو یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ لیکن اس کے نتیجے میں ایران کے ساتھ ہمارے تمام اختلافات اور تنازعات ختم نہیں ہوجائیں گے۔ اس معاہدے کے بعد بھی ہم اور ہمارے اتحادی ایران کی خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پالیسیوں اور دہشت گرد گروہوں کی معاونت سے باز رکھنے کی جارحانہ کوششیں جاری رکھیں گے۔ یہ کام وقت طلب ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم جوہری تنازع کو لپیٹ کر ایک طرف رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو ان معاملات پر پیش رفت بھی آسان ہوجائے گی، اور اگر ہمیں اس میں کامیابی ملی تو ہوسکتا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے خاتمے سے ہونے والے ثمرات کو دیکھتے ہوئے ایران خود ہی اپنے رویے میں تبدیلی لے آئے، اور اپنی معیشت کی ترقی اور لوگوں کی فلاح کو اپنی ترجیح بنالے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایران غیر ملکی سرمایہ کاروں اور دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دے۔ اگر ہم سُنّی ریاستوں کے ساتھ دفاع اور سلامتی سے متعلق اپنے تعاون میں اضافہ کریں، اور اگر ہم اسرائیلی عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ان کے دفاع کے لیے ہم ان کے شانہ بشانہ ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک توازن قائم ہوتا نظر آئے گا۔ سُنّیوں اور شیعوں، ایران اور سعودی عرب کو خود ہی یہ احساس ہونے لگے گا کہ انہیں باہمی تنازعات اور کشیدگی کم کرکے اپنی توجہ داعش جیسے خطرات پر مرکوز کرنی چاہیے جس کا اگر بس چلا تو وہ پورے خطے کو جلا کر راکھ کردے گی‘‘۔
خطے میں موجود امریکا کے سنی عرب اتحادیوں سے متعلق صدر اوباما کا کہنا تھا کہ وہ ان ملکوں کی دفاعی اور عسکری صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے پر تیار ہیں۔ لیکن، اوباما کے بقول، اِن ملکوں کو بھی خطے کے مسائل حل کرنے کی خاطر ضرورت پڑنے پر زمینی فوجی دستے فراہم کرنے سے متعلق اپنی روایتی ہچکچاہٹ ختم کرنا ہوگی۔
صدر اوباما کے اپنے الفاظ میں، ’’میں خلیجی ملکوں کی قیادت کے ساتھ جس اہم ترین معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ یہ ریاستیں کس طرح اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ لیکن اگر آپ شام کی صورتِ حال کو مدِنظر رکھیں تو بہت سے ملکوں کی خواہش ہے کہ امریکا وہاں دخل دے اور کچھ کرے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر اس صورتِ حال کا مقابلہ عرب ملک خود کیوں نہیں کرتے؟ وہ خود صدر بشار الاسد کے کرتوتوں اور شام میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے برسرِ عمل کیوں نہیں آتے؟ میرا خیال ہے کہ میں عرب ملکوں کو امریکا کی جانب سے یہ یقین دہانی کرا سکتا ہوں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان پر کہیں باہر سے حملہ نہیں ہوگا۔ شاید ان یقین دہانیوں سے ان کے خدشات کا کچھ ازالہ ہوسکے اور وہ ایرانیوں کے ساتھ بامقصد بات چیت شروع کرسکیں۔ لیکن میں یہ نہیں کرسکتا کہ ان کے خطے کو درپیش بعض ایسے مسائل حل کرنے کا بیڑہ بھی اٹھا لوں جو اُن کے عوام سے بہت زیادہ متعلق ہیں، لیکن جن پر وہ خود کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ ہو تو یقینا امریکا اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور اس نوعیت کے دفاعی تعاون کو ہم کوئی باضابطہ شکل دینے پر بھی تیار ہیں۔ ہم اپنے عرب اتحادیوں کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے بھی ہر ممکن مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود اعتمادی سے کسی بیرونی حملے اور جارحیت کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن عرب ملکوں کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ایران نہیں، بلکہ انہیں لاحق سب سے بڑا خطرہ خود ان کی آبادیوں میں جنم لینے والی بے اطمینانی ہے۔ اس سیاسی بے چینی کو ان ملکوں میں ہونے والی حقیقی دہشت گردی سے الگ کرنا اور حقیقی دہشت گردی کے مقابلے کے لیے باہمی تعاون بڑھانا، خود امریکا کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ کہیں انسدادِ دہشت گردی کے ضمن میں ہمارا یہ تعاون اس جابرانہ طرزِ عمل کو جواز اور بنیاد فراہم نہ کردے جو عرب حکومتیں اپنے ہاں سیاسی بے چینی کو کچلنے کے لیے اختیار کرتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک مشکل موضوع ہے جس پر ہمیں اپنے عرب اتحادیوں سے بات کرنی ہے‘‘۔
صدر اوباما کے بقول ماضی میں جو کچھ ہوا، سو ہوا۔ فی الوقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی دلچسپی نہ تیل ہے اور نہ اس کا جغرافیہ بلکہ اس وقت ان کی ترجیح خطے میں قیامِ امن ہے۔
’’ہم ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم اس پر اثر انداز ہونے کی اپنی تمام صلاحیتیں بھی برقرار رکھیں گے۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ میری موجودگی میں ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرے گا اور کسی کو بھی ہمارے اس عزم کے متعلق شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اس سفارت کاری کے ذریعے امریکا اور ایران اور وقت کے ساتھ ساتھ ایران اور اس کے پڑوسی ملکوں کے تعلقات بھی نئے دور میں داخل ہوں گے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہر ایک پُرامن رہے، خطے کی صورتِ حال درست رہے، ہمارے اتحادیوں پر کوئی حملہ نہ ہو، بچوں پر بیرل بم نہ برسائے جائیں اور تشدد کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑے۔ ہمارا مفاد صرف اتنا ہی ہے اور اگر یہ مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن خطے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ سب حاصل کرنا ایک بڑا اور مشکل کام ہے۔ میری رائے میں ایران کے ساتھ طے پانے والا عبوری سمجھوتا اس جانب پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
(تلخیص و ترجمہ: ابنِ ریاض)
“Iran and the Obama Doctrine”.
(“New York Times”. April 5, 2015)
Ronald Sanders
Leave a Reply