
گزشتہ مہینے صدر بش کے دوسرے دور کی افتتاحی تقریر میں اگر کوئی عنصر باعثِ تعجب تھا تو وہ یہ کہ ان کی پوری تقریر میں ان کی انتظامیہ کے عالمی اہداف کا بھرپور تذکرہ تھا۔ فتحمندی کا عامیانہ اظہار اس انجام سے میل نہیں کھاتا ہے جو قدامت پرستوں کے نئی امریکی صدی منصوبے کا شوپیس تصور کیا جاتا ہے۔ نئی امریکی صدی کا یہ منصوبہ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں آزادی (Freedom) اور بے مہاریت (Liberty) کی تحریک ہے جس کے ذریعہ نوآبادیت کے دور کو دوبارہ واپس لانا مقصود ہے۔ اگرچہ عراقیوں کے ذہن میں کچھ دوسرے تصورات ہیں۔ مٹھی بھر جلاوطنوں کو چھوڑ کر مثلاً احمد شلابی اور ایاد علاوی جن کے اپنے عزائم تھے‘ کوئی بھی عراقی امریکی جارحیت کے ذریعہ عراق میں حکومت کی تبدیلی کا حامی نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عراق آج ایسی بدترین صورتحال سے دوچار ہے جس کی مثال صدام حسین کے دورِ انتشار میں بھی کبھی نہیں ملتی۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی بش یا ان کے کسی حامی سے یہ توقع نہیں کر سکتا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں گے لیکن مقبوضہ ملک میں بھیانک واقعات کے سلسلوں کے پیشِ نظر امریکا کی خارجہ پالیسی کے سمت میں ایک ہلکی سی تبدیلی کی توقع ضرور تھی حتیٰ کہ یہ بھی افواہ مشہور تھی کہ قدامت پرست مثلاً Paul Wolfowitz اور Douglus Feith بے اختیار کر دیے جائیں گے۔ ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوا۔ وہ کولن پاول ہیں جنہیں رخصت ہونا پڑا جبکہ ڈونالڈ رمز فیلڈ کی مثالی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں دوسری مدت کے لیے بھی بحال رکھا گیا۔ پاول کی جگہ لینے والی کونڈو لیزا رائس کا کانگریس میں تصدیقی سماعتوں کے دوران بیان‘ جو ’’دنیا کے تاریک ترین گوشوں میں آزادی کی توسیع‘‘ پر صدر بش کے غیرمعمولی اصرار کی تشریح و توضیح میں تھا‘ ممکن ہے معنی خیز اہمیت کا حامل رہا ہو۔ انتہائی تعلیم یافتہ رائس جن کی ڈپلومیسی ابھی بہرحال غیرآزمودہ ہے‘ نے کیوبا‘ برما‘ شمالی کوریا‘ ایران‘ بلاروس اور ذمبابوے کو ’’ظلم کے اڈوں‘‘ سے منسوب کیا ہے۔ یہ بش کے ’’بدی کے محور‘‘ کی ترقی یافتہ شکل ہے جس کے حوالے سے چند بہت ہی اہم سوال اٹھتے ہیں۔ کیوبا میں امریکا کے غصب کردہ بحری اڈے گوانتا ناموبے میں حالیہ سالوں میں حقوقِ انسانی کی بدترین خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ اگر رائس کے ذہن میں اسی کا نقشہ ہے تو کیمپ ایکسرے کو آزاد کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مزید سنجیدہ سوال یہ ہے کہ بلاروس کو کیوں‘ ازبکستان کیوں نہیں؟ جہاں ایک ایسی حکومت ہے جسے ذہن مشکل سے قبول کرتا ہے۔ کیا اس کا تعلق اس حقیقت سے تو نہیں ہے کہ ازبکستان میں امریکا کا فوجی اڈہ قائم ہے؟ اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایران کیوں‘ سعودی عربیہ کیوں نہیں‘ حتمی طور پر جس کا جمہوریت سے تعلق کم تر ہے؟ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے اس کے نزدیک ایران یقینی طور سے ایک خصوصی مسئلہ ہے۔ شدت پسند عناصر جو امریکی پالیسی ایجنڈا کی رہنمائی کر رہے ہیں‘ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شروع ہی سے امریکی جارحیت کا دائرہ عراق کے پڑوسی ملک ایران تک وسیع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ گذشتہ سال ایران مخالف شعلہ بیانیوں میں آتش فشاں کی علامات دیکھی گئیں اور اس کے لیے بھی وہی بہانے پیش کیے جارہے ہیں جو بغداد کے خلاف اقدام کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے پیش کیے گئے تھے یعنی عام تباہی کے اسلحوں کی موجودگی اور القاعدہ سے تعلق کے بہانے۔ عراق کے معاملے میں ہانس بلکس کی طرح محمد البرادی پر بھی ایران کے جوہری پروگرام کی پردہ پوشی کا بالواسطہ طریقے سے الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کی جارہی ہے۔ ایران کے جوہری عزائم شاید ہی کسی سے پوشیدہ ہوں۔ کسی طور بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صدام کے انجام سے صرف ایران ہی نے یہ سبق حاصل کیا ہو گا کہ امریکا کے ساتھ جنگی روش میں ڈبلیو ایم ڈی ڈیٹرنٹ کے طور پر انتہائی اہم ہے۔ اس طرح کی رائے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام جوہری اسلحے کی تیاری کے لیے ہے۔ ایک بڑے تناظر میں اس اقدام کی کوئی حقیقتاً اہمیت بھی نہیں ہے۔ جوہری اسلحے کے پروگرام کی وجہ سے ایران کو ہدف بنانا کوئی جائز عمل نہیں ہو گا۔ ایران پر کسی بھی صورت میں حملہ ایک ایسے عظیم المیے کو جنم دے گا جس کے نتیجے میں عراق سے کہیں زیادہ خون خرابہ ہو گا۔ اگرچہ اس عرصے سے ایران کے خلاف جس کی پینٹاگون کی منصوبہ بندی کے حوالے سے رپورٹیں آتی رہی ہیں لیکن گذشتہ مہینے Seymour Hersh کے اس انکشاف نے کہ پچھلے کئی مہینوں سے امریکی افواج ایران میں جاسوسی مشن پر اپنے افراد و آلات کو مامور کرتی رہی ہیں‘ ایک دھماکے کی شکل اختیار کر لی۔ اس نے اس تمام کے اطمینان کو درہم برہم کر دیا جو یہ سمجھتے رہے تھے کہ امریکی شعلہ بیانی خالی خول دھمکیاں ہیں جس کا اصل مقصد تہران کو اپنے جوہری مقاصد ترک کر دینے پر مجبور کرنا ہے۔ اس طرح کی جاسوسی مہمات کا اصل مقصد واضح طور سے ایسے منتخب ٹھکانوں کی تلاش تھی‘ جنہیں فضائی حملوں کے ذریعہ تباہ کیا جاسکے۔
ہرش ایک انتہائی باریک بیں صحافی ہونے کی بنا پر بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں اسے Pulitzer Prize پانے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ پرائز اسے اس لیے دیا گیا تھا کہ اس نے My Lai قتلِ عام‘ جو کہ امریکی فوج کے ذریعہ ویتنام کے دیہی باشندوں کا قتلِ عام تھا اور جس میں زیادہ تر بچے اور عورتیں تھیں‘ کو بے نقاب کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ایک کتاب بھی شائع کی تھی‘ جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ابوغریب جیل میں قیدیوں کو غیرانسانی طریقے سے ٹارچر کرنے کا حکم اعلیٰ سطح کے حکام نے دیا تھا‘ اس کا ماخذ انتہائی آگہی کے حامل حکومتی افسران پر مشتمل نیٹ ورک ہوتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں شامل فوجی اور جاسوسی اداروں کے لوگوں سے اس کے روابط ہیں‘ جن کے نام رپورٹ میں ظاہر نہیں کیے جاتے ہیں لیکن یہ رپورٹیں اکثر و بیشتر سچی ہوتی ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ میں پچھلے سال ہرش نے یہ انکشاف کیا کہ اسرائیلی مہم جو عراق کے کرد علاقوں میں فعال اور متحرک ہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل اپنے اس خیال پر مطمئن تھا کہ امریکی مہم جوئی اس ملک میں ناکامی سے دوچار ہو گی اور یہ اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا تھا کہ عراق کی مستقبل کی صورت گری میں ایران کی مثال کا عکس نہ ہو۔ اس طرح کے معاملات میں امریکا کا جو معمول رہا ہے اس کے مطابق امریکی حکام نے گذشتہ ماہ “The Newyorker” میں شائع ہونے والی ہرش کی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ان رپورٹوں میں بہت جھول ہے مگر اس کی برملا تردید سے بھی انہوں نے گریز کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خامیوں کی کوئی نشاندہی کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اس رپورٹ کا سب سے تکلیف دہ پہلو ایران کے نقطۂ نظر سے یہ انکشاف ہے کہ اسلام آباد اس ناپسندیدہ کام میں امریکا کا تعاون کرتا رہا ہے۔ ہرش لکھتا ہے کہ خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اعلیٰ افسر نے اسے بتایا کہ ’’ایک امریکی کمانڈو ٹاسک فورس جنوبی ایشیا میں تعینات کی گئی ہے اور اس وقت یہ ان پاکستانی سائنسدانوں اور ٹیکنیشنز سے قریبی تعاون کے ذریعہ سراغ رسانی میں مصروف ہے‘ جنہوں نے ایرانی ہم منصبوں کے ساتھ معاملات کیے تھے۔ (۲۰۰۳ء میں آئی اے ای اے نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ایران نے دس سال سے بھی پہلے پاکستان سے خفیہ طور پر جوہری ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور اس راز کو معائنہ کاروں سے چھپائے رکھا تھا)۔ امریکی ٹاسک فورس پاکستانی مخبروں کے تعاون سے مشرقی ایران میں افغانستان کے راستے زیرِ زمین تنصیبات کی تلاش میں داخل ہوتا رہا ہے۔ مذکورہ پاکستانی افسر نے اسے یہ بھی بتایا کہ پرویز مشرف کو اس تعاون کے عوض بہت بھاری معاوضہ موصول ہوا ہے۔ یہ معاوضہ امریکا کی پاکستان کو اس یقین دہانی کی صورت میں ہے کہ سوال و جواب کی خاطر ڈاکٹر قدیر خان کو آئی اے ای اے یا کسی اور بین الاقوامی ادارے کے حوالے کیے جانے کے لیے پاکستان کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس نے کہا کہ یہ ڈیل ہوئی ہے‘ یہ سودے بازی ہوئی ہے۔۔۔ بقول ایک اعلیٰ سطح کے پاکستانی ڈپلومیٹ کے کہ ’’یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پرویز مشرف نے پاکستان کے جوہری اسلحوں میں توسیع کا حکم دے دیا ہے۔ سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب بھی خفیہ بازار سے پارٹنر اور دیگر سپلائی کی ضرورت ہے اور امریکا نے اس کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مزید یہ کہ اسی طرح کا بڑا مگر غیرتصدیق شدہ تعاون اسرائیل کے ساتھ بھی رہا ہے‘‘۔ ان باتوں سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف صرف فضائی حملے کا منصوبہ ہے۔ قطع نظر اس سے کہ پہلے ہی سے دیگر علاقوں میں مصروف امریکی فوج کسی اور زمینی حملے کے لیے فارغ نہیں ہو سکتی ہے‘ مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور حملے کی شدید مخالفت اندرونِ خانہ بھی کی جائے گی۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا لیکن پھر کچھ ایسی روشن چنگاریاں دیکھنے میں آئیں جو بمباری کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور جس کے نتیجے میں شاید لوگ ملائوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور حکومت بہ آسانی تبدیل ہو جائے۔ ایک دوسری متبادل صورت یہ ہے کہ حملہ امریکا کی جانب سے نہ ہو بلکہ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے ہو۔ اس لیے کہ بہرحال یہ اسرائیل ہے جسے ایران کے ممکنہ جوہری بم سے پریشانی ہے۔ (شاید امریکا نے اسرائیل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اسے پاکستان کے جوہری اسلحوں سے خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے)۔ یہ تعیش خطے میں کسی کو حاصل نہیں ہے جو اسرائیل کو ہے حتیٰ کہ امریکا کے انتہائی قریبی اتحادی مثلاً مصر‘ اردن‘ سعودی عربیہ بھی امریکا کو اس بات کے لیے آمادہ نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے خلاف کارروائی کا خیال دل میں لائے۔ اس توقع کے پیچھے یقینا بہت ہی اچھے دلائل ہیں کہ ایران جوہری قوت نہیں ہو گا کہ بہرحال جوہری اسلحے قابلِ نفرت ہیں اور اس کی توسیع اس کے استعمال کے امکان میں اضافے کا سبب ہے۔ لیکن اس دلیل میں وزن اسی وقت پیدا ہو گا جب تمام قومیں امریکا سے پاکستان تک اس برائی سے اپنے آپ کو پاک کر لیں۔ بھارت نے نیوکلیئر اپارتھیڈ کے اس اپروچ کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا کہ کچھ خاص لوگوں کے ہاتھ میں تو یہ جوہری اسلحے ڈیٹرنٹ کا کام کریں گے اور کچھ دوسرے ہاتھوں میں ہونے کے سبب یہ عام تباہی کے لیے استعمال ہوں گے‘ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔
اگر ایران سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ جوہری طاقت کے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا تو پھر تل ابیب اور واشنگٹن جیسے نسبتاً غیرمتوازن حکومتوں کو شک کا فائدہ کیوں دیا جانا چاہیے؟ علاوہ ازیں جوہری عدم توسیع کے خلاف کی جانے والی کوششوں کا جو ریکارڈ ہے اس سے کہیں یہ پتا نہیں چلتا ہے کہ جوہری اسلحوں کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ہو۔ یہ قیاس کرنا کہ ایران پر فضائی حملے کے بعد لوگ آیت اﷲ حضرات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے‘ ایک نامعقول بات ہے۔ حتیٰ کہ اگر یہ قیاس درست ہو تب بھی کسی فوجی جارحیت کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ Collateral Damage کے خوف کے علاوہ بھی مہذب اقوام کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا ہے۔ عراق میں جو بربریت جاری ہے وہ دنیا کے تمام انسانوں کو اس طرح کے رویے سے خبردار کرتی ہے‘ اس کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کرتی۔ امریکا کو خبردار رہنا چاہیے لیکن شاید یہ نہیں ہے۔ تاریخ سے سبق حاصل نہ کرنے کے رجحان نے امریکا کو ایسی روش پر قائم رکھا ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ بیشتر ایرانی ۵۲ سال پہلے مصدق کی قومی جمہوری حکومت کی معزولی اور شاہ کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے میں امریکا کے کردار کو کبھی نہیں بھولے۔ یہی وہ مداخلت تھی جس نے علما کو محمد رضا شاہ پہلوی کی عوام میں غیرمقبولیت سے فائدہ اٹھانے کا ماحول فراہم کیا۔ ۲۶ سالوں بعد ممکن ہے ملا بہت زیادہ غیرمقبول ہو گئے ہوں بالخصوص نوجوانوں میں لیکن ایک بیرونی قوت کے ذریعہ انکا خاتمہ عراق جیسی بھیانک خونی منظر سامنے لانے کا موجب ہو گا۔ اس اقدام سے ایران میں جدیدیت اور ترقی کو ازسرِ نو گلے لگانے کا جو امکان پایا جاتا ہے‘ وہ بالکل ختم ہو جائے گا۔
ایرانی اپنے دشمنوں سے نمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ انہوں نے پہلے بھی کیا ہے اور یہ آئندہ بھی کریں گے۔
(بشکریہ: ’’نیوز لائن‘‘۔ کراچی۔ فروری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply