
ایران کے وزیر خارجہ سعید خاتب زادہ کے مطابق امریکا اور مغربی ممالک نے طالبان کے انتقام کے خوف سے انتہائی عجلت اور خوف میں کابل سے اپنا سفارت خانہ خالی کیا ہے، لیکن ایران خاموش اور پُر سکون بیٹھا ہے۔ کابل اور ہیرات میں ایران کا سفارت خانہ نہ صرف کھلا ہے بلکہ پوری طرح کام کررہا ہے۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے پر ایران کا مؤثر موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب گامزن ہے اور یہ وہی طالبان ہیں جو کبھی ماضی میں ایران کے دشمن کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔
۲۳ برس قبل طالبان اور ایران کے درمیان جنگ کی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی، جب طالبان نے ۱۱؍ایرانی سفارت کاروں کو مزار شریف میں قتل کردیا تھا۔ ان تئیس برسوں کے درمیانی عشروں میں تہران کے کچھ سکیورٹی دھڑوں نے طالبان سے اچھے تعلقات قائم کیے ہیں جب کہ چند گروپوں کی جانب سے سخت اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہے، ایران کے سبک دوش ہونے والے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تہران میں طالبان اور امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے وفد سے ملاقات کی اس دوران ایران کے صدر نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ایک بہترین موقع قرار دیا ہے، امریکی انخلا کے بعد افغان عوام اپنی زندگی نئے سرے سے اور پُرامن طریقے سے شروع کرسکیں گے۔
ایران کے ایک تجزیہ کار اور تحقیق کار کے مطابق ایران کے عوام طالبان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ حالیہ ایران طالبان ملاقاتوں کو بھی ایرانی عوام اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایران کی حکومت کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو یہ پیغام جاری کیاگیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں طالبان کے ساتھ بدترین، وحشی،مجرم جیسے غیر اخلاقی لفظوں کواستعمال کرنے سے اجتناب برتیں حالانکہ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۱ء تک کے عرصے میں افغان اہل تشیع کے قتل عام کے بعد سے میڈیا میں طالبان کو انہی غیر اخلاقی ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔
اوینٹ کے تجارتی شراکت دار، سینٹرل اپلائڈ ی ریسرچ کے سی ای او عدنان تباع تابعی کے مطابق ایران میں طالبان کی حمایت ایک حیران کن مرحلہ ہے، ایرانی میڈیا میں اس بات پر اب بحث کا آغاز ہوچکا ہے کہ طالبان کا مقصد اہل تشیع کی نسل کشی نہیں ہے۔ایران کے سیکورٹی دھڑوں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ زمین پر ایک طاقتور گروہ موجود ہے اور اس گروہ سے تعلقات کو بنا کر رکھنا ہیں اسی لیے ایرانی حکومت اب نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو نظر انداز کررہی ہے۔
ایران میں موجود ’’اسلامی انقلابی گارڈ‘‘ نامی تنظیم کی طاقتور شخصیات نے افغانستان کے اس متنازع گروپ کی دوبارہ تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی بیرون ملک تنظیم کو ’’القدس فورس‘‘ کے کمانڈر اسماعیل قانی کو افغانستان کا پرانا کھلاڑی اور شام میں ہزارہا جنگجوؤں کو بھرتی کرنے والا اہم فرد سمجھا جاتا ہے۔ امریکا اور امریکی نواز افغان حکومت کئی سالوں سے ایران پر طالبان کے ساتھ اپنے روابط بڑھانے کا الزام لگا رہی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد سے ایران میں طالبان سے متعلق خیالات میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ مشرقی ایرانی سرحد پر اثر رکھنے والے ایرانی حکومت کے حمایتی معروف سنی عالم مولوی عبد الحامداسماعیل زحی نے طالبان کے کابل میں قبضے کو ایک بڑی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں دنیا کے سامنے یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کے طالبان وہ نہیں جو ۲۰ سال پہلے تھے، سنی آن لائن نیوز کے مطابق انہوں نے کہا کہ طالبان نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنے خیالات کو بہت حد تک تبدیل کیا ہے ان کی جو غلطیاںہیں وہ ٹھیک کی جاسکتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان چوںکہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے اس لیے ایران یہ جانتا ہے کہ طالبان بہت سوں سے بہتر ہیں۔
جب کہ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے ایرانی حکومت پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہیں طالبان کے حوالے سے منہ بند رکھنے کا حکم دیاگیا ہے، انہوں نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ ایران اور طالبان کا تعلق ہی کیا ہے کہ جب ہم ان کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو یہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو میں یہ کہا کہ میں ایک بڑے خطر ے کو دیکھ رہا ہوں اور میں کیوں خاموش رہوں۔
بات صرف یہ نہیں ہے کہ ایران طالبان سے تعلقات اور سفارتی رابطے کو بڑھاناچاہتا ہے، بلکہ موجودہ صورتحال میں طالبان بھی پاکستان کی مدد کے بغیر اپنے سفارتی پورٹ فولیو کو پر اثر بنانے کے لیے ایران کو شامل کرنا چاہ رہے ہیں۔
پچھلے سال شمالی افغانستان میں طالبان نے شیعہ اسکالر کو ہزارہ کمیونٹی کا گورنر منتخب کیا، طالبان اہل تشیع کی مساجد اور کمیونٹی پر حملے کی مسلسل مذمت کرتے رہے۔غالباً یہ حملے داعش یا اس کے سابقہ گروپ الشمس کے افغانستان میں موجود مقامی گروپ کے تحت کروائے گئے یہ دونوں گروپ افغانستان اور ایران مخالف گروپ ہیں۔مغربی کابل میں شیعہ برادری میںلڑکیوں کے اسکول پر حملے میں کسی بھی قسم کی سہولت کاری سے طالبان نے انکار کیا ہے طالبان نے شیعہ برادری کو مزار شریف میں عاشورہ کا جلوس نکالنے اور دس محرم کو تعطیل کی بھی اجازت دی تھی۔
بہت سے ایرانی دانشور ابھی بھی طالبان کے رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ طالبان کا موجودہ رویہ افغانیوں کو اپنے طرف مائل کرنے کے لیے ہے۔ طالبان کابل حکومت کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے بعد بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اچھے ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔اب جب کہ مغرب افغانستان سے نکل چکا ہے اور دنیا افغان طالبان کے مثبت رویے کی امید رکھ رہی ہے بہت ممکن ہے کہ طالبان اپنے پرانے طرزِ حکومت پر واپس آجائیں۔
تبع تابعی کے مطابق یہاں ایران میں اندرونی حلقوں میں ایک بحث چھڑ گئی ہے اور کچھ لوگ اس بات کے شدید مخالف ہیں کہ ’’طالبان بدل چکے ہیں‘‘۔ یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ طالبان کے کہے کو سچ مان رہے ہیں، جب کہ کچھ لوگ آنے والے وقت کا انتظار کررہے ہیں۔
۲۰۰۱ء میں تہران نے شمالی اتحاد اور نیٹو فورسز کی افغانستان میں حمایت کی تھی اور اسی وجہ سے طالبان کی حکومت ختم ہوگئی تھی، اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے طالبان اب تہران کی حمایت چاہتے ہیں اور اب وہ کسی طرح بھی افغانستان میں پرانا طرز حکومت نہیں دہرائیں گے، جس سے ان کی حکومت کو دوبارہ خطرہ پیدا ہو۔
جہاں تک طالبان حکومت کا تعلق ہے، وہ اس وقت ایران سے خراب تعلقات کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں، افغانستان اور ایران کی ۵۷۰ میل لمبی سرحد مشترک ہے اور اس راستے کو منافع بخش تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یہ طویل سرحد افیون کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے، افیون کی تجارت سے آنے والی آمدنی پرطالبان حکومت انحصار کرتی ہے۔ایران اور افغانستان کے مسلکی اختلافات سے قطع نظر یہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر مغربی ریاستوں خصوصاً امریکا کی مخالف ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ایران کو اس وقت افغانستان سے بہت اچھے تعلقات کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایران امریکا کے ماتحت افغانستان کی مقبوضہ حکومت کی نااہلی کے بجائے طالبان حکومت کی طاقت اور ان کے طرزِ حکومت کے خدوخال میں روشن مستقبل کی چمک دیکھ چکا ہے، گو کہ اس کے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات موجود تھے۔ ایران کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات نے ایران کوسفارتی سطح پر نمایاں کیا ہے، بھارت کی یہ کوشش ہے کہ وہ تہران کے ذریعے طالبان تک رسائی حاصل کرے۔
ان سب کے باوجود تہران کے طالبان کے ساتھ تعلقات فائدے سے زیادہ نقصان دہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ہزاروں افغان عوام طالبان کے سخت طرز حکومت سے خوفزدہ ہیں، اس طرز کی اسلامی حکومت سے فرار اختیار کر کے وہ ایران میں پناہ تلاش کررہے ہیں تاکہ بچوں اور عورتوں کو ایک بہتر زندگی دی جاسکے، یہ صورتحال تہران پر مزید دباؤ بڑھا سکتی ہے جب کہ ابھی تک ایران پر سے امریکی پابندیاں نہیں ہٹی ہیں۔
لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری ایران میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی موجودگی ایک اہمیت رکھتی ہے، قم میں موجود افغانیوں نے طالبان حکومت کے آتے ہی ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے اور ان مظاہروں میں طالبان مردہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، سیاسی میدان میں ایرانی عوام افغان طالبان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
موسوی زادہ کے مطابق ایرانی حکام ۱۹۹۰ء کے طالبان اور آج کے طالبان میں کچھ مختلف نہیں دیکھ رہے ہیں، تاہم دو دہائیوں بعد طالبان کا دوبارہ ظہور میں آنا اس بات کا تقا ضا کرتا ہے کہ طالبان اب اپنی ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ ایران کی حالیہ سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایران بہت محتاط انداز میں اپنے فیصلے لے رہا ہے، ایرانی حکام نے طالبان حکومت کا خیر مقدم کیا ہے اور کابل میں اپنے سفارت خانے کو بڑھا رہا ہے،ہیرات میں بھی سفارت خانہ کھلا رہے گا، لیکن دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ نے ۱۵؍اگست کو یہ اعلان کیاہے کہ قندھار، جلال آباد اور مزار شریف میں ایرانی سفارت خانے کو بند کیا جائے گا۔ اگرچہ ایران طالبان سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتا لیکن وہ ان پر مکمل اعتماد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Iran spent years preparing for a Taliban victory. It may still get stung”. (“atlanticcouncil.org”. August 20, 2021)
ما شاء اللہ اچھا تجزیہ ہے۔مگر افغان ایک حقیقت ہیں کسی کے ماننے نہ ماننے سے کچھ نہیں ہو گا نہ پہلے ہواتھا۔ ۔ ۔