
انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنی تمام حامی ملیشیاز سے کہا ہے کہ وہ پراکسی وار (ڈھکی چھپی جنگ) کے لیے تیار رہیں۔ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی حکام نے حال ہی میں عراقی دارالحکومت بغداد میں ملیشیاز کے لیڈروں سے ملاقات میں اُن سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کریں۔
سینئر انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ انتہائی طاقتور قدس فورس کے لیڈر قاسم سلیمانی نے تین ہفتے قبل تہران کے زیر اثر کام کرنے والی ملیشیاز کا اجلاس بغداد میں طلب کیا۔ کہا جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ایران کو ایسا کرنے کے لیے دھکیلا ہے۔ برطانیہ نے بھی عراق میں تعینات اپنے فوجیوں کو لاحق خطرات کی سطح بلند کردی ہے۔
قاسم سلیمانی پانچ برس کے دوران عراق میں کام کرنے والے ایران نواز شیعہ گروپس کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں مگر اس بار معاملہ کچھ اور ہے۔ ہتھیار اٹھانے کی بات براہِ راست تو نہیں کی گئی مگر معاملہ اِس سے زیادہ دور کا بھی نہیں۔
قاسم سلیمانی کی سرگرمیوں نے امریکی، برطانوی اور عراقی سفارت کاروں کو غیر معمولی طور پر فعال کردیا ہے کیونکہ وہ امریکا اور ایران کے درمیان کسی بڑے عسکری مناقشے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ معرکہ آرائی عراق میں ہوسکتی ہے۔
قاسم سلیمانی نے شیعہ ملیشیاز کا جو اجلاس طلب کیا اُس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ امریکا نے بغداد اور اربل سے غیر ضروری سفارتی عملہ واپس بلایا ہے اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو لاحق خطرے کی سطح بھی بلند کردی ہے۔ خلیج کے خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے لیے بھی بڑا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران معاملات ڈھکے چھپے رہے ہیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور ایران بلا واسطہ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ قاسم سلیمانی کے طلب کردہ اجلاس میں جن ملیشیا گروپس نے شرکت کی وہ پبلک موبلائزیشن یونٹس کی چھتری تلے کام کرتے ہیں۔ قدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے قاسم سلیمانی عراق میں کام کرنے والے شیعہ ملیشیا گروپس کی سمت کے تعین اور ان کی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈیڑھ عشرے کے دوران وہ عراق اور شام میں ایران کے سب سے بڑے پاور بروکر رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایران کا اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
ایران کے پراکسی گروپس کے حوالے سے امریکی موقف بالکل واضح رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں فلسطین کے ایران نواز گروپ اسلامی جہاد اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کو غزہ سے اسرائیل میں راکٹ برسائے جانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اسلامی جہاد کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے نزدیک دو سعودی آئل ٹینکروں اور دو دیگر جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اگلے ہی دن یمن میں ایران نواز ملیشیا کے ٹھکانوں سے سعودی پائپ لائنز پر راکٹ داغے گئے۔ سعودی عرب کے ریاستی میڈیا نے ایران کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی حکام نے کہا ہے کہ ایسا کرنا ہی سعودی مفادات کے حق میں ہوگا۔
یہ خبر بھی آئی ہے کہ ایرانی میزائلوں کی ایک بڑی کھیپ گزشتہ ہفتے عراق کے صوبے انبار کے ذریعے شام میں داخل کی گئی اور پھر یہ کھیپ بحفاظت دارالحکومت دمشق تک پہنچ گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میزائلوں کی یہ کھیپ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس سسٹم کی نظر سے بھی بچ کر نکل گئی۔
داعش کے خلاف لڑائی کے دوران ایک ایسا لینڈ کاریڈور بنا ہے جو ایران کے تصرف میں ہے۔ اس کاریڈور سے اسلحے کی فراہمی بھی جاری ہے۔ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ عراق اور شام کے حالات مزید خراب کرنے میں یہ کاریڈور کلیدی کردار ادا کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو اور صدر امریکا کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ داعش کے خلاف لڑائی کے نتیجے میں ایران مزید مضبوط ہوکر ابھرا ہے اور اب اسے لگام دینے کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں کی رائے یہ ہے کہ امریکا کو اب ایران کے خلاف بھرپور عسکری کارروائی کرنی چاہیے۔
عراقی عسکریت پسند دھڑوں کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ تذبذب اور تشکیک کا شکار رہی ہے۔ داعش کے خلاف ان دھڑوں نے امریکیوں کے ساتھ مل کر بھی کام کیا مگر ان کا بنیادی ڈھانچا پاسدارانِ انقلاب سے بہت ملتا جلتا ہے۔ عراق کے ریاستی ڈھانچے میں چند سنی، مسیحی اور یزدی عسکریت پسند دھڑے بھی شامل ہیں تاہم واضح اکثریت شیعہ دھڑوں کی ہے۔ اور ان میں جو سب سے طاقتور ہے اُسے براہِ راست ایران کی حمایت حاصل ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایران سے لاحق خطرے کی سطح بلند ہوگئی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے حوالے سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایران سے لاحق خطرہ بڑھ گیا ہے۔
ایک برطانوی جنرل نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ ایران سے لاحق خطرے کا گراف بلند ہوگیا ہے۔ بہت سے بین الاقوامی معاملات میں امریکا اور برطانیہ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی کے حوالے سے غلط پالیسی اختیار کی ہے اور ان کے بہت سے فیصلے پسندیدہ نتائج کے حامل نہیں رہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کنٹرول کرنے اور معاملات کو جنگ کی جانب جانے سے روکنے کے حوالے سے برطانیہ کی تشویش سمجھ میں آتی ہے۔ امریکا نے ایک طرف تو ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی عائد کی ہے اور دوسری طرف ناکہ بندی کا تاثر بھی دیا جارہا ہے۔ جبکہ ایران نے کہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔ امریکا نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ تہران کو شدید تشویش میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اقوام متحدہ میں تہران کے ایلچی ماجد تختِ روانشی نے کہا ہے کہ ایران علاقے میں کشیدگی کو ہوا نہیں دینا چاہتا تاہم وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
امریکا نے ایک نیول بیٹل گروپ اور B-52 اسٹیلتھ طیاروں کے اسکواڈرن کو خلیج کے خطے میں پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ امریکا کے نزدیک ایران کے ہاتھوں خطرہ بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف سعودی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ پانچویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ اس جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر سویلین ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Iran tells Middle East militias: prepare for proxy war”. (“theguadian.com”. May 16, 2019)
Leave a Reply