
امریکا نے اب باضابطہ اعلان کیا ہے کہ شام کے باغیوں کو ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔ اس اعلان نے امریکا کو اسلامی دنیا کے ایک بڑے قضیے میں براہِ راست ملوث کردیا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس امریکی اعلان یا فیصلے پر شدید ردعمل دکھائی دیتا ہے۔ شام کے باغیوں کی مدد کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ شام کی فوج ان پر وحشیانہ مظالم ڈھاتی آئی ہے مگر بڑی طاقتوں کا یوں کھل کر سامنے آ جانا، معاملات کو خطرناک حد تک لے جاسکتا ہے۔ شام کی صورتِ حال نے عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کا قد بھی چھوٹا کردیا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے تمام دوست سُنّی ہیں اور تمام دشمن شیعہ۔ صدر براک اوباما نے کسی بھی نئے قضیے میں ملوث نہ ہونے کا جو اصول اپنایا تھا، اسے بھول بھال کر اب امریکا شام کے تنازع میں ملوث ہوچکا ہے۔ شام میں چند انتہا پسند اسلامی تحریکیں بھی مسلح افواج سے برسرِ پیکار ہیں۔
ایران نے صدارتی انتخابات سے پہلے ہی چار ہزار فوجیوں کو شام بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ شام کے قضیے میں دو سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ ایران کی حکومت اب شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کو بچانے کے لیے کھل کر میدان میں آچکی ہے۔ ایرانی حکومت کے اندرونی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ شام کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے ایران گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے خلاف نیا محاذ کھولنے کے لیے بھی تیار ہے۔
چند برس بعد مورخین ضرور پوچھیں گے کہ عراق سے شرمناک انداز میں انخلا اور افغانستان سے عبرت ناک شکست کے بعد واپسی کے تناظر میں امریکا نے خود کو شام کے تنازع میں کیوں ملوث کیا۔ مسلم دنیا میں سُنّی اور شیعہ جو لڑائی لڑ رہے ہیں، وہ تقریباً چودہ سو سال پرانی ہے۔
اس وقت امریکا خلیج فارس کے خطے کی امیر ترین ریاستوں کا اتحادی ہے۔ یہ مصر اور مراکش کے درمیان وسیع سُنّی علاقہ ہے۔ پھر ترکی بھی ہے۔ برطانیہ نے آزادی دیتے وقت اردن میں جو کمزور بادشاہت قائم کی تھی، اس کے لیے شام کی خانہ جنگی امتحان سے کم نہیں۔ لاکھوں پناہ گزینوں نے اردن اور شام کا رخ کیا ہے۔ کچھ ایران کی طرف بھی گئے ہیں۔ جنوبی شام میں نو فلائی زون کا قیام خطے کو مکمل جنگ کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو امریکا کے دوستوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوں گی۔
خطے میں امریکا کے دشمنوں میں لبنان کی حزب اللہ ملیشیا سرِ فہرست ہے۔ شام میں علویوں کی حکومت بھی امریکا کے خلاف ہے۔ امریکا نے عراق میں جنگ کے ذریعے سُنی اقلیت کی حکومت سے شیعہ اکثریت کو اس امید پر نجات دلائی تھی کہ اس صورت میں خطے میں طاقت کا توازن تھوڑا سا بہتر ہو جائے گا مگر عراق کے شیعہ غیر جانبدار رہنے کے بجائے ایران کی طرف جھک گئے ہیں۔ یعنی امریکا نے یہاں بھی پالیسی کی حد تک مات کھائی۔ شام میں عراقی شیعوں اور لبنانی حزب اللہ کے ارکان نے بشار الاسد کی حکومت بچانے کے لیے باغیوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا ہے۔
امریکا نے شام کی خانہ جنگی میں ملوث ہونے کے لیے یہ بہانہ تراشا ہے کہ بشارالاسد انتظامیہ نے مخالفین کے خلاف سرین گیس استعمال کی ہے۔ اس بہانے کو مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی تسلیم کرنے پر راضی دکھائی نہیں دیتا۔ سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے عراق کے سابق صدر صدام حسین پر وسیع تباہی کے ہتھیار تیار کرنے کا الزام عائد کیا تھا مگر بعد میں پتا چلا کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یعنی سب جھوٹ تھا۔
امریکا نے اب شام کے باغیوں کے لیے کھل کر میدان میں آنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ بشار انتظامیہ کا تختہ الٹنے سے متعلق تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شام کی افواج نے غیر معمولی جانی نقصان اٹھاکر قصیر اور دیگر قصبوں پر باغیوں کے قبضے کی راہ مسدود کردی ہے۔ اس لڑائی میں حزب اللہ کے ارکان نے بھی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ دوسری طرف روس نے بھی کھل کر شام کا ساتھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس نے تین مرتبہ اس قرارداد کو ویٹو کیا ہے، جس کی منظوری کی صورت میں امریکا اور یورپ کو شام میں براہِ راست مداخلت کا حق مل جاتا۔ اب خطے کے بہت سے آمروں کو اپنا تختہ الٹے جانے کے خوف نے گھیر لیا ہے۔
امریکا شام میں سُنّیوں کی فری سیریا آرمی کو ہتھیار فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام بھر میں مسلح افواج کے خلاف میدانِ جنگ میں اگر کوئی زیادہ فعال رہا ہے تو وہ القاعدہ کی طرف جھکاؤ رکھنے کا النصرۃ فرنٹ ہے۔ ملک بھر میں اس نے شامی حکومت سے تعلق رکھنے والے جنگی قیدیوں اور ایک چودہ سالہ لڑکے کو توہینِ رسالت کے جرم میں موت کی سزا دی ہے۔ اگر فری سیریا آرمی کو امریکا اور یورپ نے ہتھیار دیے تو النصرۃ فرنٹ اس سے ہتھیار آسانی سے ہتھیالے گا۔
اب شام میں ہر خود کش حملے کے لیے امریکا کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اس نے باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کرکے بہت کچھ اپنے سَر لے لیا ہے۔ امریکا نے جن کٹّر وہابیوں پر نائن الیون میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا، اور جنہیں روس بھی اپنا دشمن گردانتا ہے، وہ اب شام میں جاری لڑائی میں امریکا کے حلیف ہوں گے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے سُنّی انتہا پسندی کے خلاف شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ روس کے لیے چیچنیا کا تجربہ بہت تلخ رہا ہے۔ روسی صدر نے چیچنیا کے تجربات کی روشنی میں سُنّی انتہا پسندوں کے لیے شدید اور ناشائستہ زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں سُنّی انتہا پسندوں کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ بشارالاسد انتظامیہ کو بھی اُسی خطرے کا سامنا ہے جس کا سامنا چیچنیا کی شکل میں روس کو تھا۔
روس کے لیے مشرق وسطیٰ دراصل مشرق نہیں۔ یہ اس کے لیے انتہائے جنوب ہے۔ دمشق کی سرحد سے چیچنیا کا دارالحکومت گروزنی ۵۰۰ میل ہے۔ روس کی آبادی میں مسلمان ۱۵ فیصد ہیں۔ سابق سوویت یونین کی چھ ریاستیں مسلم تھیں اور ان کی ۹۰ فیصد آبادی سُنّی تھی۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد کا ۸۵ فیصد سُنّی ہیں۔ اگر روس سابق سوویت ریاستوں میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے تو اسے ان تمام ریاستوں میں سُنّی گروپوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حالات اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ شام کے لیے ایران کی حمایت اور مدد کم ہونے کے بجائے بڑھے گی۔ حزب اللہ بظاہر اپنا کردار ادا کرچکی ہے اور اس کے ارکان واپسی کی راہ پر ہیں مگر ایران اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ کر رہا ہے۔ طالبان کا ایک وفد حال ہی میں ایران گیا تھا۔ امریکا بھی چاہتا ہے کہ افغانستان سے محفوظ تر انخلا کے لیے ایران سے مدد لی جائے۔ ایرانی حکام کا خیال ہے کہ امریکا انخلا کے عمل میں ایران کی مدد کے بغیر اپنا ساز و سامان بحفاظت نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ ایران سے مدد نہ ملنے پر فرانسیسی فوجیوں کو اپنے پچاس ٹینک افغانستان ہی میں چھوڑنے پڑے تھے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے بعد پہلی بار آمنے سامنے ہونے کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی سلامتی کو ثانوی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے اسرائیل کے لیے خاصی بدحواسی پیدا کی ہے۔ اس پورے منظرنامے میں کوئی بھی اس کی طرف دیکھ رہا ہے، نہ اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اس کیفیت نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے شدید مشکلات پیدا کی ہیں۔ اسرائیل نے شام میں جاری لڑائی کے حوالے سے صرف ایک بار مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ اس نے سرحد پر زخمی باغیوں کا علاج بھی کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے بشارالاسد انتظامیہ سے زیادہ اسلامی تحریکوں کی حکومت سے ڈر لگتا ہے۔ شام میں اسلام پسندوں کا اقتدار میں آ جانا اسرائیل کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوگا۔ ایک سابق اسرائیلی کمانڈر نے حال ہی میں بشار الاسد کو دمشق میں اسرائیل کا آدمی قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو بچانے کے سلسلے میں امریکا سے مداخلت کی استدعا کی تھی مگر کچھ نہ ہوا اور حسنی مبارک کو جانا پڑا۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو ڈھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران بہتوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے، مگر آگے چل کر اس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو اٹھانا پڑے گا۔ وہ جس علاقے کو اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں وہ اب یہودی بستیوں سے اس قدر اٹا پڑا ہے کہ فلسطینی ریاست کے لیے خطرات کبھی ختم نہیں ہوسکیں گے۔ ایسے میں امن کے سفیر سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی کوششیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ امریکا بھی جانتا ہے کہ فلسطینی ریاست بنی تو سُنّی اکثریت کی حامل ہوگی۔ واشنگٹن اب فلسطینی ریاست کا ذکر خال خال کرتا ہے۔
بشارالاسد کا ساتھ چھوڑنے والوں میں اب حماس بھی شامل ہے۔ حماس کے اعلیٰ عہدیدار بھی چاہتے ہیں کہ اب بشار انتظامیہ کا خاتمہ ہو۔ اس معاملے میں وہ خلیج فارس کی طاقتور ریاستوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ شامی مسلح افواج کا تو یہ بھی الزام ہے کہ حماس نے شامی باغیوں کو خانہ ساز راکٹ تیار کرنے اور چلانے کی تربیت دی ہے۔
عربوں کی نظر میں ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ ایران کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔ شام کے باغیوں کی مدد کرنا بھی مغرب کے نزدیک ایران کو اسٹریٹجک نقصان پہنچانے کی ایک توانا کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ایران اس وار کو سہنے اور جوابی وار کرنے کے لیے تیار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مناقشے شدت اختیار کرسکتے ہیں۔ اور خوف و ہراس کے اس پس منظر میں فلسطینی المیہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔
(“Iran to send 4,000 Troops to Aid President Assad Forces in Syria”…”The Independent” London. June 16th 2013)
Leave a Reply