
ایران پر بحث کے حوالے سے آج کل ایک نئے تصور کا بہت ذکر ہو رہا ہے اور وہ ہے امیونٹی زون۔ اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک بہت جوش و خروش سے یہ بات کر رہے ہیں کہ ایران بہت جلد اپنے جوہری پروگرام کو اس سطح تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا جہاں اس پر حملہ کرنا اسرائیل یا کسی اور ملک کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
چند ایک معاملات میں خصوصی نکات دکھائی دیے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ کوئی نیا اسٹریٹجک تصور نہیں۔ اقوام کبھی کبھی محسوس کرتی ہیں کہ اب ان کے پاس معاملات کو طاقت کے ذریعے نمٹانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا اور جیسے ہی یہ سوچ ابھرتی ہے، بھرپور تباہی کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال جرمنی کی وہ سوچ اور فیصلہ ہے جس نے پہلی جنگ عظیم کی ابتداء کی۔ جرمن فوجی قیادت کا یہ گمان تھا کہ ان کے کٹر حریف روس نے خود کو زیادہ سے زیادہ مسلح کرنا شروع کردیا ہے اور بہت جلد وہ جرمن برتری کا خاتمہ کردے گا۔ جرمنوں کا اندازہ تھا کہ دو سال میں (یعنی ۱۹۱۶ء تک) روسیوں کی عسکری قوت اس قدر بڑھ جائے گی کہ ان پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا اور جرمنی کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے کچھ بھی نہیں بچے گا۔
جون ۱۹۱۴ء میں جب بلقان کے خطے میں خرابی نے زور پکڑا تو جرمنوں نے بھرپور عسکری قوت استعمال کرتے ہوئے صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے انہوں نے روس کے حلیف فرانس اور بیلجیم پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں برطانیہ کے لیے لازم ہوگیا کہ اس جنگ میں شریک ہو۔ یورپ میں ایک ایسی جنگ چھڑی جس میں دو بڑے محاذ تھے۔ اس جنگ کی نذر ہونے والوں کی تعداد ۳ کروڑ ۷۰ لاکھ سے زائد تھی۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی سے پہلی جنگ عظیم جیسی کوئی صورت حال پیدا ہوگی اور اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہوں گی۔ میرے نزدیک یہ بات قابل غور ہے کہ محض خدشے کی بنیاد پر کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسرائیل خود کو ہدف پذیر سمجھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عسکری سطح پر کوئی اقدام کیا جائے۔
مارچ ۲۰۰۳ء میں امریکا میں چند ماہرین ایسے بھی تھے جن کے خیال میں عراق میں اسلحہ انسپکٹروں کو بھیجنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ جون اور جولائی میں عراق میں شدید گرمی ہوتی اور امریکا کے لیے اپنی افواج بھیجنا بہت دشوار ہوتا اس لیے غیر معمولی عجلت سے کام لیا گیا اور عراق پر لشکر کشی کردی گئی۔ بہتر منصوبہ بندی کی گئی نہ تیاری۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی فوجیوں کو ۹ سال تک عراق میں سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیلی حکام کا شکوہ یہ ہے کہ ہم امریکی اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ ایران ان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں بھی کبھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سابق سوویت یونین ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھا اور ہمیں اس کے وجود سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اس کیفیت میں ہم کئی سال، بلکہ کئی عشروں تک مبتلا رہے۔ آج ایران کے بارے میں اسرائیل جو کچھ کہہ رہا ہے وہی کچھ ہم سابق سوویت یونین کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ ہماری نظر میں سوویت انقلابی تھے، ہماری اقدار کے خلاف تھے اور مغرب کی ہر مستند حکومت کو پلٹ کر عالمی سطح پر اشتراکیت کو فروغ دینے کے درپے تھے۔ ماسکو حکومت ہمارے نزدیک غیر عقلی، جارح، بے حس اور انسانیت کی محبت سے عاری تھی۔ جوزف اسٹالن نے جرمنی سے جنگ میں اپنے ملک کے ۲ کروڑ ۶۰ لاکھ سے زائد افراد کو موت کی دلدل میں اتار دیا تھا۔
آج اسرائیل جس طرح ایران کے خلاف پیشگی اقدام کے طور پر حملے کا سوچ رہا ہے، ۱۹۴۰ء کے عشرے میں بہتوں نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا کہ سویت یونین پر حملہ کردیا جائے۔ یہ مشورہ دینے والوں میں صرف انتہا پسند اور شدت پسند ہی نہیں تھے بلکہ امن کی بات کرنے والے بھی نمایاں تھے۔ اور تو اور، برٹرانڈ رسل جیسے امن کے داعی نے بھی امریکا کو مشورہ دیا کہ سوویت یونین پر حملہ کرکے اشتراکیت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں جذبات اور احساسات کی شدت کیا تھی اس کا اندازہ لگانے کے لیے اپنی نسل کے سب سے ٹھنڈے دماغوں میں شمار کیے جانے والے برطانوی سفارت کار ہیرولڈ نکلسن کی ڈائری میں ۲۹ نومبر ۱۹۴۸ء کی انٹری ملاحظہ فرمایے۔ ’’یہ غالباً درست ہے کہ سوویت یونین دنیا پر حکمرانی کی بھرپور تیاری کر رہا ہے۔ ایک بار وہ بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا تو امریکا کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا، ایشیا پر قابض ہو جائے گا اور مغرب سے برتری کی حتمی جنگ لڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو نیوزی لینڈ میں رہنے والے ہم سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ سوویت یونین کو روکنے کے لیے ہم نے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہ کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کے بغیر بھی امن قائم ہوسکتا ہے مگر اس کا امکان خاصا کمزور ہے‘‘۔
اگست ۱۹۵۰ء میں بوسٹن نیوی یارڈ میں نیوی سیکریٹری فرانسس میتھیوز نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ جارحیت کے ذریعے جنگ شروع کرکے امریکا امن کی خاطر جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں میں پہلے نمبر پر ہوگا۔ ماسکو کے انقلابی ہوں، پیانگ یانگ (شمالی کوریا) کے آٹو کریٹس ہوں یا دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی پاکستانی فوج، سبھی کو خدشات کی بنیاد پر روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایرانی قیادت کو جنونی قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماؤ زے تنگ کی قیادت والے چین کی قیادت سے تو یہ کم ہی جنونی رہی ہے۔ ایک عشرے کے دوران سعودیوں، عراقیوں، مصریوں، افغانوں اور پاکستانیوں نے درجنوں خود کش دھماکے کیے ہیں۔ کسی بھی ایرانی نے کوئی خود کش دھماکا نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایرانی قیادت نے کسی نہ کسی طرح کوئی جوہری ہتھیار بنا بھی لیا تو کیا وہ اسے استعمال کرے گی؟
فارن افیئرز کے ایڈیٹر گیڈین روز کہتے ہیں ’’اسرائیل کو اسی صورت حال کا سامنا ہے جو چھ عشروں قبل امریکا اور برطانیہ کو سوویت یونین کے حوالے سے درپیش تھی۔ اسرائیلی قیادت بھی رفتہ رفتہ یہ بات سمجھنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ جوہری ٹیکنالوجی کے دور میں مکمل اور بے داغ سیکورٹی کا حصول تو خیر ممکن نہیں مگر ہاں، کسی بھی ملک کو جوہری عزائم سے باز رکھنے کے لیے اس پر حملہ کرنے سے کہیں بہتر آپشن یہ ہے کہ آپ خود جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ اس صورت میں بہت چھوٹے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے‘‘۔
(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ ۱۶ ؍فروری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply