
ایک زمانے سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بناکر پورے مشرقِ وسطیٰ کو شدید سیاسی و عسکری عدم استحکام سے دوچار رکھنا مغرب کے پسندیدہ مشاغل میں شامل رہا ہے۔ یہ مشاغل مجبوری کی حالت میں ہیں کیونکہ گھٹتی ہوئی طاقت کے پیش نظر ایسا بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو چین، روس اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے میں معاون ثابت ہو۔
ایران کا جوہری پروگرام کس منزل میں ہے اور وہ اس محاذ پر کیا کرسکتا ہے، اس بارے میں پورے یقین سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغرب جو بھی راگ الاپتا ہے دنیا اُسے سن کر جھومتی ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے اُس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتی ہے۔
خلیج کے خطے میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے معاملات کو یکسر الٹ پلٹ دیا ہے۔ امریکی اثرات کے تحت خطے کے دیگر ممالک کے پاس بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اس بدلتی ہوئی صورتِ حال کے شدید منفی اثرات کو محسوس کرکے مزاحمت کی طرف جائے۔ سب نے آنکھ بند کرکے یہ طے کرلیا ہے کہ جو کچھ امریکا کہے وہی کرنا ہے، خواہ اس عمل میں سب کچھ برباد ہوجائے۔
جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے وہ پورے خطے کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ثابت ہوا ہے۔ ابھی اس معاملے کی گرد بیٹھی بھی نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک عدم استحکام کا نیا دور شروع کرنے کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران اب جوہری ہتھیاروں کے حصول کی منزل سے زیادہ دور نہیں اور اگر اس نے جوہری ہتھیار تیار کیے تو اس کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے سے کسی صورت اجتناب نہی برتا جائے گا۔ ’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایران کی جوہری تنصیبات پر فیصلہ کن نوعیت کے حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ بس حکم ملنے کی دیر ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ کرنے کی مد میں اسرائیلی حکومت نے دفاعی بجٹ میں دو ارب ڈالر بھی مختص کردیے ہیں۔ یہ بات اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ایوو کوہاوی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتائی ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے رواں ہفتے غیر ملکی سفارت کاروں سے گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان سے فوج کو لیس کرنے کی حکمت عملی اپنائی تو اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے میں تساہل سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اسرائیلی قیادت کہتی ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کسی بھی حال میں قبول یا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ایران اب جوہری ہتھیار بنانے کی منزل سے صرف دو ماہ کی دوری پر ہے جبکہ اسرائیلی فوج کے اپنے تجزیے اور تخمینے کہتے ہیں کہ اُسے اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے، تاہم اسرائیلی فوج ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔ اسرائیل کہتا ہے کہ اس وقت پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ایران جوہری معاملات پر دوبارہ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوگا یا نہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کو پلان بی تیار رکھنا چاہیے۔
اسرائیلی قیادت نے ایران کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ٹائمنگ کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ اسرائیلی فوج کا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق انتباہ ایسے وقت آیا، جب اسرائیلی وزیر دفاع نفٹالی بینٹ نے واشنگٹن کا پہلا دورہ شروع کیا۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن سے مذاکرات کے ایجنڈے میں ایران کا جوہری پروگرام نمایاں رہا۔ یہ خلافِ توقع نہ تھا کیونکہ امریکا اور اسرائیل مل کر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی نہ کوئی راگ الاپتے ہی رہتے ہیں تاکہ خطے میں غیر یقینیت برقرار رہے اور چھوٹے ممالک خوفزدہ ہوکر امریکا اور یورپ سے زیادہ قربت اختیار کریں اور اسلحے کے آرڈر بھی دیں۔
’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنالیے تو خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ کوئی نیا بین الاقوامی جوہری معاہدہ ہی اس بات کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے۔ یہ سب کچھ پہلے بھی کیا گیا تھا یا دنیا کو یہی دکھایا گیا تھا۔ ایران کے جوہری پروگرام کو کسی نہ کسی طور محدود رکھنے کے نام پر تمام بڑی قوتوں نے مل کر مذاکرات کی راہ پر گامزن ہونا قبول کیا اور ایک جامع معاہدہ بھی کیا گیا، جس سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الگ ہوکر بساط ہی الٹ دی۔ یہ گویا خطے میں شدید عدم استحکام کی راہ ہموار کرنے ہی کا ایک معیاری ہتھکنڈا تھا۔ جب کسی بھی معاملے میں اپنے مفادات کا مکمل تحفظ ممکن دکھائی نہ دے رہا ہو تب معاملات کو یکسر الٹ پلٹ دینا امریکا کا وتیرہ رہا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے معاملے میں بھی امریکا نے یہی کیا۔
امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) کو ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی فوج کے حملے کی تیاریوں کا علم ہے، تاہم کہا جارہا ہے کہ اس پورے عمل سے اس کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی کسی طور تسلیم نہیں کی جاسکتی کیونکہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کا معاملہ ایک تھالی میں کھانے جیسا رہا ہے۔ اسرائیل کو خطے کے ممالک میں سے کسی کی بھی جارحیت سے بچانا امریکی قیادت کا نصب العین رہا ہے۔ اس معاملے میں امریکا نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھ کر بھی اسرائیل کا مکمل تحفظ یقینی بنانے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیل نے جس ہٹ دھرمی اور سفّاکی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ امریکا کی مکمل سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی کابینہ نے ۱۸؍ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی، جس میں دو ارب ڈالر سے کچھ زائد رقم ایران کو کنٹرول میں رکھنے کے نام پر رکھی گئی ہے۔ اسرائیل نے ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں وزیر اعظم ایہود بارک کے دور میں بھی، جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق اطلاعات کے موصول ہونے پر، ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں تاہم اس منصوبے پر عمل نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے خطے میں ایران کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کو کمزور کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے شام میں حزب اللہ پر ۳۱ حملے کیے ہیں، جن میں نصف اسلحے کے ذخائر پر تھے۔ مارچ میں ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دو سال کے دوران شام کے ساحلوں کی طرف بڑھنے والے ایرانی جہازوں پر ایک درجن سے زائد حملے کیے گئے ہیں۔ ایران نے بھی اسرائیل کی ملکیت والے یا اس کی طرف جانے والے مال بردار جہازوں کو نہیں بخشا۔ گزشتہ ماہ ’’مرسر اسٹریٹ‘‘ نامی جہاز پر ایران کے حملے میں عملے کے دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اوریورپی و ایشیائی طاقتوں کے ایرانی حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں ۲۰۱۵ء میں ایک وسیع البنیاد معاہدہ طے پایا تھا، جس کا بنیادی مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔
حالات و واقعات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ جنوبی ایشیا کو افغانستان کی صورتِ حال میں الجھادیا گیا ہے اور مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کی دلدل میں دھنسانے کی ابتدا کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے خطے کی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسا لائحۂ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ معاملات قابو میں رہیں اور عدم استحکام پیدا کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوں۔
Leave a Reply