اگرچہ انقلابِ ایران کے فوری بعد سے ہی یہ مبحث دانشوروں کا موضوعِ سخن رہا ہے کہ ایرانی معاشرے میں انقلاب کی اثرپذیری کی علامات کس حد تک قائم ہو سکیں گی۔ انقلاب مخالف ذہن بھی گاہے بگاہے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا۔ لیکن خود یہ ذہن کسی متفق فکری محور سے محروم رہا۔ اسی بنا پر اس کا کوئی رنگ نہ جم سکا۔ بالآخر اس تصور کی پشت پناہ قوتیں مکمل مایوسی سے بچنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ اس بدلی ہوئی پالیسی کا سب سے نمایاں اور زوردار مظاہرہ سابق صدر ڈاکٹر محمد خاتمی کے دوسرے انتخاب کے موقع پر سامنے آیا۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے ایرانی معاشرے کی ایک ایسی تصویر دنیا کے سانے پیش کی کہ عام افراد سے لے کر اہلِ دانش تک سب ہی اس سے متاثر نظر آئے اور ایرانی عوام نظریاتی اعتبار سے گہری تقسیم کا شکار معلوم ہونے لگے۔ ’’اصلاح طلب‘‘ اور ’’بنیاد گزار‘‘ کی اصطلاح کا ایسا ڈھول پیٹا گیا کہ انقلابی فکر سے خار رکھنے والے چھپ چھپ کر بغلیں بجانے لگے۔ لیکن صدارتی انتخاب میں سید محمد خاتمی کی کامیابی کے بعد آہستہ آہستہ فکری انتشار کا یہ سارا طوفان نقش برآب ثابت ہوا۔ ایرانی صدر کے داخلی اور خارجی سیاست کے اقدامات نے تقسیم کے لیے کوشاں قوتوں کے دلائل کو گڈمڈ کر دیا اور انہیں یہ سجھائی نہ دیا کہ اب کس کو اصلاح طلب اور کس کو بنیاد گزار قرار دیں۔ بالآخر بعض واقفان حال کی یہ بات خوب ثابت ہو گئی کہ خاتمی ہوں یا رفسنجانی۔ کروبی ہوں یا احمدی نژاد‘ سب ہی ’’خورشید انقلاب‘‘ کے ضوء یافتگان میں سے ہیں اور ’’خطِ انقلاب‘‘ سے خروج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حسنِ اتفاق سے اس صدارتی انتخاب کے موقع پر راقم ۱۲ جون سے ۲۲ جون تک ایران کے اندر محوِ سفر تھا۔ پاکستان و ایرانی سرحد میر جاوہ سے شروع ہونے والا یہ سفر زاہدان‘ مشہد‘ خراسان‘ استان گلستان‘ صوبہ مازندران اور تہران سے گزر کر اصفہان و شیراز اور صوبہ کرمان سے ہوتا ہوا دوبارہ یر جاوہ پر ختم ہوا۔ کم و بیش تین ہزار کلو میٹر کے اس سفر میں صدارتی انتخاب کی پوری مہم کے مختلف شہروں میں متنوع رنگ و روپ دیکھنے کو ملے۔ ابتدا میں نو امیدواروں کی انتخابی مہم تھی پھر ایک کی دستبرداری سے تعداد آٹھ رہ گئی۔ نومنتخب صدر محمود احمدی نژاد اور دوسرے نمبر پر آنے والے اکبر ہاشمی رفسنجانی کے علاوہ علامہ مہدی کروبی‘ محمد باقر قالیباف‘ ڈاکٹر مصطفی معین‘ محسن میر علی زادہ‘ علی اردشیر لاریجانی اور محسن رضائی صدارتی انتخابات میں باہم ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے انتخابی شعار اور پالیسی کے مخصوص عنوانات پر مشتمل بینرز‘ ہورڈنگز اور پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے۔ چھوٹے سائز میں ہینڈ بلز اور اسٹیکرز بھی تقسیم کیے جارہے تھے۔ شہر کے مختلف حصوں میں امیدواروں کی انتخابی دفاتر بھی بڑی تعداد میں قائم کیے گئے تھے۔ لیکن کسی بھی جگہ متذکرہ بالا فکری دوجہتی رویوں کا ذکر دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ استحکام ملک‘ ترقی و پائیداری‘ آزادی و خودمختاری‘ غربت و بیروزگاری‘ امن و انصاف جیسے موضوعات عام لوگوں کے درمیان اس موقع پر زیرِ بحث تھے۔ بس کے مسافروں‘ ٹیکسی ڈرائیوروں‘ دکاندروں اور ریستورانوں میں بیٹھے ہوئے افراد میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ سب ترقی اور معیار زندگی کی مزید بہتری کے خواہش مند تھے۔ پاکستان کے مقابلے میں ایرانی بود و باش کا معیار پہلے ہی بہت بلند ہے۔ لیکن اس میں مسلسل جدت اور خوبی کی طلب ایرانی عوام کے اعلیٰ ذوق کی عکاس ہے۔
ایرانی معاشرے میں فکری تقسیم کی منصوبہ بندی کرنے والے دانشور اور تھنک ٹینک یقینا انقلابِ ایران کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکے ورنہ وہ شاید اس ذہنی ژاژخائی کا شوق نہ فرماتے جو اَب ناکامی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس نے فرد اور سماج میں نہ صرف جوہری تغیر پیدا کیا بلکہ روح معاشرت کی اساس بھی بدل ڈالی ہو۔ اسے محض انتخابی نعروں کے نتیجے میں طبقات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ انقلابِ ایران کے نتیجے میں دین و سیاست کی تفریق کے گمراہ کن فلسفہ کو عملاً ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اور دین کی بالادستی میں ایک نیا طرزِ سیاست وجود میں آیا۔ مقتدرہ کی سطح پر یقین و اعتماد اپنے موقف پر غیرمتزلزل استقامت اور اس کے اظہار پر جرأت و بیباکی جیسی اعلیٰ صفات دیکھنے کو ملیں۔ اس وقت عالمِ اسلام میں حاکم و محکوم کے درمیان رائے اور فکر کا اتحاد صرف اسلامی جمہوریہ ایران میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مکاتب و مسلک کی بنیاد پر تفریق کی ایسی حوصلہ شکنی کی گئی ہے کہ یہ فتنہ اب وہاں سر نہیں اٹھا سکتا۔
دراصل یہی وہ قوت کے منابع ہیں کہ جس نے ایرانی معاشرے کو شکست و ریخت اور درآمدی نظریات کے زہر سے محفوظ رکھا ہے۔ پچیس چھبیس سال تک انقلابی فلسفہ کو چہار طرفہ فکری یورشوں سے بچا رکھنا بجائے خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ میں تضاد و افتراق کا تانا بانا بننے والے اپنے ناکام تجربات کو پاکستان میں دہرانا چاہتے ہیں۔ روشن خیال و قدامت پسند‘ اعتدال پسند اور شدت پسند کے نام سے پاکستانی قوم کو اب تفرقہ کی گرداب میں دھکیلا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں گھر کے بھیدیوں کی ایک لمبی قطار بھی موجود ہے۔ جو ایسے مسموم نظریات کو داخل کرنے کے راستے بھی بتلاتے ہیں بلکہ انہیں خود بھی ہاتھوں ہاتھ تھامنے اور آگے بڑھانے کی سعیٔ نامسعود کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس نوع کی تہذیبی حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر پاکستانی قوم کے لیے برادر ہمسایہ اسلامی ملک ایران میں بہت سے اسباق موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں قائم محب وطن اور نظریاتی تحقیقی ادارے تھنک ٹینک تربیتی و علمی اکیڈمیاں اس بات کا اہتمام کریں کہ یہ معلومات منتقل ہوں۔ ان سے نتائج اخذ کیے جائیں اور عوام میں نشر و طباعت کے ذریعہ انہیں پھیلایا جائے۔
٭٭٭
Leave a Reply