
اگر آپ کا خیال ہے کہ محمود احمدی نژاد نے کوئی بہت ہی نامعقول بات کہہ دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بیان کسی کی نظر سے نہیں گزرا ہے: ’’اگر برائی پر برائی آئے اور آدھی انسانیت موت کے منہ میں چلی جائے تو باقی نصف رہے گی تاآنکہ استعماریت زمیں بوس نہ ہو جائے‘‘۔ یہ بیان ۱۹۵۷ء میں ماؤ ذی تونگ کا ہے۔ اگر آپ ایران کے جوہری پروگرام کا منصوبہ لاینحل محسوس کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو ۱۹۶۴ء کے پالیسی سازوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں۔ یہ وہ سال ہے جب چین نے جوہری بم کی آزمائش کی تھی۔ اس وقت چین شاید دنیا کا جارح ترین ملک تھا۔ جیسا کہ مورخ Francis J. Gavin لکھتا ہے کہ ماؤ کی حکومت نے کوریا میں امریکا کے خلاف ایک فوجی جنگ لڑی تھی اور تائیوان کے مسئلے پر تقریباً یہ ایک دوسری جنگ میں داخل ہو گئی تھی۔ ۱۹۶۲ء میں چین نے بھارت پر حملہ کر دیا تھا اور ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی دھمکیاں دے رہا تھا مثلاً انڈونیشیا کو۔ یہ شمالی ویت نام کی مدد کر رہا تھا اور جنوب میں Vict Cong شورش کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ یہ دنیا کے اطراف میں موجود پُرتشدد انقلابی گروہوں کی مدد میں بہت زیادہ سرگرم تھا‘ جن میں لاطینی امریکا اور کیریبین کے علاقے بھی شامل تھے۔ انسانی زندگی کے حوالے سے ماؤ کی وحشیانہ سفاکیت اس کے اپنے عوام تک دراز تھی۔ جب اس نےGreat Leap Forward نامی اپنا مشن شروع کیا تھا تو اس نے اعلان کیا تھا کہ چین کی نصف آبادی مر سکتی ہے (اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا‘ تاہم تھوڑی دیر کے لیے گینز بک آف ورلڈ نے اسے تاریخ کے سبب سے بڑے عوامی قاتل کا نام دے دیا‘ اس بنا پر کہ یہ ۲ کروڑ ۶۳ لاکھ لوگوں کی موت کا سبب بنا تھا)۔ ان سب کے مقابلے میں ایران ایک مثبت طور سے معمول کا ملک معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً یہ ایک معمول کا ملک نہیں ہے اور احمدی نژاد ایک معمول کے رہنما ہیں۔ ایران پر ایسے جبر پسند گروہ کی حکومت ہے جس نے حزب اﷲ کو مسلح کیا ہے‘ لبنان اور عراق کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے اور عالمی جوہری معائنہ کاروں کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں دھوکا دیا ہے۔ احمدی نژاد نے مسلسل کئی وحشتناک بیانات دیے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ ایران ایک وجودی خطرہ ہے جسے فوری طور سے ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے تو ہم ناکام ہوں گے۔ ہم اس لڑائی کو مرغوں کی لڑائی میں تبدیل کر دیں گے اور ہار بیٹھیں گے۔ اس وقت ایران سب سے اونچا جارہا ہے۔ گذشتہ سال تیل سے حاصل ہونے والی رقم ۵۵ بلین ڈالر ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک بری طرح کمزور ہو چکے ہیں۔ عراق انتشار و بدامنی سے دوچار ہے۔ افغانستان اور پاکستان سرکش طالبان سے جوجھ رہے ہیں۔ لبنانی حکومت سخت دباؤ میں ہے۔ خلیج کی ریاستیں خوف زدہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ اس کے اثرات اور خطے میں اس کا سیاسی مرکز اس قدر ماند پڑ گیا‘ جتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ احمدی نژاد فائدہ اٹھانے کی لیے اس لمحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عرب ہمسایوں پر فلسطین اور اسرائیل مسئلے کو لے کر برتری حاصل کر لی ہے۔ یہ زیادہ تصادم انگیز زبان میں بات کرتے ہیں‘ جس کی جرأت ان کے عرب ہمسائے واشنگٹن کے خوف سے نہیں کرتے۔ انہیں معلوم ہے سنی عرب حکومتیں انہیں پسند نہیں کرتی ہیں لہٰذا وہ براہِ راست ان کے عوام کے پاس گئے ہیں۔ یہ طریقہ کامیاب ہے۔ احمدی نژاد ایران کے جوہری پروگرام کو تیسری دنیا کے افتخار میں بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا مخالف عالمی ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ترقی پذیر ملک کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے سے روکنے پر بضد اور مُصر ہے۔ ان کی یہ حکمتِ عملی بھی کامیاب ہے۔ حالیہ ناوابستہ ممالک کی کانفرنس میں یورپ کے پورے ۱۱۸ ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت میں دستخط کیے۔ بجائے خوف زدہ ہونے اور گھبرانے کے امریکا کو چاہیے کہ وہ ایران کا جائزہ قدرے خود اعتمادی اور سکون کے ساتھ لے۔ ایران کی خوش قسمتی ماند پڑ جائے گی۔ تیل کی قیمت نیچے آ سکتی ہے۔ عراق امریکا کے لیے کسی نہ کسی طرح سے معمولی بوجھ رہ جائے گا۔ عرب حکومتیں ایران کی بڑھتی ہوئی قوت کا جواب دینے کے لیے مزید کوشاں ہونے کے حوالے سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کریں گی۔ واشنگٹن لبنان اور فلسطین کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تو اس سے سیاسی فضا بہت حد تک بہتر ہو سکتی ہے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ کچھ تخلیقی امکانات کو سامنے لائے جو فوجی حملوں سے خالی ہوں اور جو ایران کے جوہری پروگرام کو صرف التوا میں ڈال سکیں اگر ختم نہ کر پائیں‘ ایسی صورت میں کہ ایران افزودگی روکنے پر رضامند نہیں ہوتا ہے۔ بہت سارے ممالک ایران کے خلاف متعدد سخت اقتصادی پابندیوں کا ساتھ نہیں دیں گے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ پابندیاں کسی درجے میں کارگر بھی ثابت ہوں گی یا نہیں۔ ایک اقدام جو ایران کو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے حکام کے سفر پر عالمی پابندی عائد کر دی جائے (اس طرح سے سفارت کاروں کی ملاقات کا جو سرکٹ ہے‘ وہ ختم ہو جائے گا۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ دبئی کے دورے Money Laundering کی خاطر ہوتے ہیں)۔ ایران کا درآمد شدہ جوہری ایندھن پر انحصار کرنا مشکل ہے۔ دوسرا بہترین متبادل جو ہو سکتا ہے‘ وہ یہ کہ معائنہ کاری کا نظام ایران میں مستقل ہو‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس کا سویلین پروگرام اسلحوں کے پروگرام میں تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے میں ایک نجی ملاقات میں احمدی نژاد کو دیکھ رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ دیوانگی کی اس میں ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اپنے کارناموں پر مطمئن و مسرور تھے بلکہ مغرور بھی اور بسا اوقات جارحانہ بھی لیکن ہمیشہ پرسکون اور ذہین نظر آئے۔ اگر ہم ان پر بازی لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں ذہانت پر مبنی اور ماننے پر مجبور کر دینے والے دلائل سے کام لینا ہو گا۔ اس کے بجائے ہم ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کی طرف مائل ہیں۔ پھر اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ احمدی نژاد پبلک ڈپلومیسی میں کامیاب ہیں۔ کھیل کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنی توانائیوں سے کھیلیں۔ ایران کے سخت گیر موقف کے حامل رہنما امریکا سے تعلقات نہیں چاہتے ہیں۔ ایرانیوں کو ایک نسل پہلے سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ واشنگٹن ان سے نفرت کرتا ہے اور ان کے ملک کے ساتھ تعلقات نہیں چاہتا ہے اور انہیں دنیا میں تنہا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا ہو گا اگر صدر بش تہران میں سفارت خانہ کھولنے اور نوجوان طلبہ کے تبادلے کی علانیہ پیشکش کریں؟ ایک ایسے ملک میں جو کہ باہری دنیا سے رابطے کا متمنی ہو یہ اقدام ملّاؤں کو دفاعی پوزیسن میں لے جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں بہت سارے لوگوں نے چین کے خلاف پیشگی حملے کی وکالت کی تھی۔ قدرے عقلمند دماغ اس وقت حاوی رہے۔ لیکن جون آف کینیڈی بھی ایک لمحے کے لیے پریشان دکھائی دیے‘ اس بات سے کہ چین جوہری طاقت ہو گیا ہے۔ ان کا بیان تھا کہ ’’چین جنوب مشرقی ایشیا میں غالب پوزیشن میں آجائے گا‘‘۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس یہ ہوا کہ غلبہ کی بات تو دور رہی‘ چین کے بم نے مشرقی ایشیا کو خوف میں مبتلا کر دیا اور انہوں نے امریکا سے قریبی تعلقات قائم کر لیے۔ آج اس علاقے میں چین کے اثرات بہت عظیم ہیں اور روز افزوں ہیں لیکن اس کی وجہ اس کی اقتصادی قوت ہے نہ کہ اس کی جوہری قوت۔ ایران ایک ناکام حکومت کے زیرِ اقتدار ہے جو اپنے ملک کو جدید خطوط پر گامزن نہیں کر سکتی ہے اور یہ اپنے اثر و رسوخ کا سستا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اس مقصد میں نہ روس کے اشتراکی کامیاب ہوئے اور نہ چین کے۔ اگر ہم اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھیں تو یہ تہران کے لیے بھی ممکن نہ ہو سکے گا۔
(اداریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ ۲ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply