
عرب اور افریقی امور کے لیے ایران کے نائب وزیرِ خارجہ حسین عامر عبداللہ نے وعدہ کیا ہے کہ تہران افریقا کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی کو اَپ ڈیٹ کرے گا اور آنے والے برسوں میں اسٹریٹجک تعلقات کو نئی سطح تک لے جائے گا۔ یہ ایک حیران کُن اعلان ہے، کیونکہ صدر حسن روحانی کی افریقا میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایرانی صدر اس وقت سب سے زیادہ جس چیز میں دلچسپی لے رہے ہیں، وہ ہے غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی درآمد میں اضافہ۔ ایران افریقا تعلقات میں حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت نہایت اہم ہے، جب ایران کے سابق اتحادی سوڈان نے مکمل یوٹرن لیتے ہوئے سعودیہ ایران کشیدگی کے دوران سعودیہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ سوڈان والے معاملے کے بعد تہران کی سیاسی اشرافیہ کا افریقی ممالک پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ممالک کسی وقت بھی ایران کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ان کی زیادہ قیمت لگائے گا، یہ اسی کا ساتھ دیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں افریقا کے لیے کی گئی تزویراتی منصوبہ بندی ناکام ثابت ہوئی تھی۔ ۲۰۰۵ء میں احمدی نژاد کی آمد سے لے کر ۲۰۱۳ء تک انہوں نے مسلسل جس حکمتِ عملی کو فروغ دیا، اس کے تحت انہیں افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک سے تعلقات کو فروغ دینا تھا، تاکہ عا لمی منظرنامے میں یہ حکمتِ عملی ایران کے روایتی شراکت دار، یورپ اور مشرقی ایشیائی ممالک سے خراب ہوتے تعلقات کی تلافی کر سکے۔
۲۰۰۶ء میں احمدی نژاد نے گیمبیا میں ہونے والے افریقی یونین کے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ لیکن ۲۲ نومبر ۲۰۱۰ء کو گیمبیا نے ایران سے تمام سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کر دیا اور ایران کے سفارتی عملے کو بھی ملک بدر کر دیا۔ اس اقدام کی سرکاری وجہ ایران کی گیمبیا جانے والی اسلحے کی شپمنٹ بتائی گئی، جسے ایک ماہ پہلے نائیجیریا نے ایرانی جہاز روک کر بے نقاب کیا تھا۔ لیکن ایران کا کہنا تھا کہ گیمبیا نے امریکا کے دباؤ میں آکر تعلقات منقطع کیے۔ حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ افریقی ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا کہ احمدی نژاد سمجھ رہے تھے۔ لیکن احمدی نژاد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اس واقعہ کے کچھ ہی عرصے بعد تہران کی معاونت سے ’’ایران افریقا فورم‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں چالیس افریقی ممالک نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کے وعدے کیے گئے، لیکن یہ سب کوششیں پہلے کی طرح ناکام ہی ثابت ہوئیں۔ کیونکہ وقت پڑنے پر ان ممالک نے کبھی ایران کا ساتھ نہیں دیا۔ سلامتی کونسل کے افریقی ممالک نائیجیریا، یوگنڈاا ور گیبون نے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی حمایت میں ووٹ دیا۔ واضح رہے کہ احمدی نژاد کی لابی کے لیے کیے گئے افریقا کے دورے کے چند ماہ بعد ہی جون ۲۰۱۰ء میں اقوامِ متحدہ کی ایران پر پابندیوں کی قرارداد منظور کی گئی۔
احمدی نژاد کا افریقا کے حوالے سے مصنوعی ایجنڈا ہمیشہ ایک خام جِدوجہد ہی ثابت ہوا۔ ان کی افریقا سے تعلقات قائم کرنے کی مذکورہ بالا کوششیں افسانہ بن کر رہ گئیں۔ اگر ایران کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۹ء تک رضا شاہ پہلوی کے دور میں سوائے مصر کے انور سادات، ایتھوپیا کے ہائلی سلاسی اور جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کے کسی افریقی ملک سے کوئی خاص تعلقات نہیں رہے۔ ۱۹۷۹ء میں آیت اللہ خمینی کی آمد پر اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی خارجہ پالیسی ازسرِ نو مرتب کی اور اپنی توجہ ترقی یافتہ مغرب سے ہٹا کر ترقی پذیر ممالک کی طرف مبذول کی۔ لیکن اس کے باوجود افریقا ایران کی ترجیحات میں جگہ نہ بنا سکا۔ شاہ کے دورِ حکومت کے بعد تہران نے افریقن نیشنل کانگریس کی حمایت میں جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت سے اپنے تعلقات ختم کر دیے، اور افریقن نیشنل کانگریس نے ۱۹۹۴ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد ایران کے اس اقدام کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ سراہا بھی۔ لیکن اس طرح کے واقعات اتقاقیہ تھے نہ کہ حکومتی پالیسی۔
احمدی نژاد، جو اپنے دور میں واقعی مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنا چاہتے تھے، ان کے لیے افریقا اہمیت کا حامل خطہ تھا۔ اس خطے میں پسماندہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی، جسے وہ اپنا مغرب مخالف پیغام سنا کر ہمنوا بنا سکتے تھے۔ لیکن چند وقتی کامیابیوں کے علاوہ ایران کوئی خاص ہدف حاصل نہ کرسکا (ایران کو افریقی یونین میں مبصر کی حیثیت دی گئی)۔ براعظم افریقا کے ممالک نے ۲۰۱۰ء میں اقوامِ متحدہ میں ایران کے خلاف ووٹ دے کر اور پھر سوڈان کے حالیہ یوٹرن نے ثابت کیا کہ یہ ممالک ایران کی خاطر اپنے مفادات کی کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔
افریقی ممالک نے ثابت کیا ہے کہ ایران سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہ ان کے لیے مشکل ہے اور نہ ہی اس کے لیے انہیں امریکی دباؤ کی ضرورت ہے۔ اس کا عملی ثبوت گزشتہ چند ماہ میں افریقی ممالک نے دیا بھی، جب ایران میں سعودی سفارتخانہ پر حملے کے بعد سعودی عرب نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ایران سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا تو ریاض نے اپنے اتحادی ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ بھی ایران سے تعلقات توڑنے کا اعلان کریں۔ جس پر صومالیہ، جبوتی اور اتحاد القمری (یونین آف کمروز) نے بھی تہران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔ افریقی ممالک کے حالیہ اقدامات کو دیکھنے کے بعد ایران کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ ۱۹۷۹ء سے لے کر اب تک افریقی ممالک سے تعلقات بڑھانے کے حوالے سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ صدر حسن روحانی جو سابق صدور سے مختلف پالیسی پر عمل پیرا ہیں، یعنی وہ مشرقی اور مغربی، دونوں طرف کے ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے خواہاں ہیں، تاکہ عالمی منظرنامے میں ایران کی پوزیشن بہتر ہو۔ لیکن افریقی ممالک فی الحال ان کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔ ایسے وقت میں ایران کے افریقی ممالک سے تعلقات بڑھانے کے وعدوں کے پورے ہونے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Iran’s awkward diplomacy in Africa”. (“nationalinterest.org”. March 23, 2016)
Leave a Reply