
اسلحوں کی فراہمی کے امریکی منصوبے کی کی روشنی میں ۲۰ بلین ڈالر کے اسلحے سعودی عرب اور اس کے ہمسایہ خلیجی ممالک مثلاً کویت، اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات کو فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ۱۳ بلین ڈالر کے اسلحے مصر کو دیے جائیں گے اوراسرائیل جسے ہمیشہ اپنے ہمسایہ عربوں پر بالادستی برقرار رکھنے کی فکر رہی ہے، کو ۳۰ بلین ڈالر کے جدید امریکی اسلحے دیے جائیں گے۔ اسلحوں کی اس ممکنہ یورش کے لیے مفاہمت، نئی بش انتظامیہ کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد ایران کا گھیرا تنگ کرنا ہے نیز مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی طویل المیعاد موجودگی کو اہمیت دینا ہے، خواہ عراق میں اسے ناکامیوں کا ہی سامنا کیوں نہ ہوا ہو۔ اگرچہ امریکی اور ایرانی سفارت کار حال ہی میں ایک سے زائد بار روبرو اور تاریخی ملاقاتیں کر چکے ہیں تاہم تہران کے ساتھ دوستی کا نیا دور قریب آتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اس کے بجائے وائٹ ہاؤس اور اس کے قدامت پرست عرب اتحادی دونوں ہی ایران کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کے لیے ایک دوسرے سے مربوط ہو رہے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹ اور وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس نے اس ہفتے سعودی عرب اور مصر کا غیر معمولی طور پر مشترک دورہ کیا ہے۔ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل نے دونوں رہنماؤں کا استقبال کیا اور بغداد میں سفارت خانہ کھولنے کے امکان کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا تاکہ امریکا کی حمایت یافتہ عراقی حکومت کو تقویت پہنچائی جاسکے۔ الفیصل نے ایک دوسرا دروازہ بھی کھول دیا جو امریکا کا طویل المیعاد ہدف رہا ہے یعنی وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ نئے عرب اسرائیل امن کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی عرب غور کرے گا۔ ایران جو کہ اپنی سکیورٹی کے حوالے سے بہت بہتر صورتِ حال میں اپنے آپ کو پاتا ہے، بعد اس کے کہ امریکا نے اس کے دو عظیم ترین دشمنوں یعنی صدام اور طالبان کو راستے سے ہٹا دیا، پھر بھی دباؤ میں محسوس کر رہا ہے۔ یہ کئی بلین ڈالر کے روسی جنگی طیاروں کی سپلائی کی توقع کیے ہوئے ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے، اس اصرار کے ساتھ کہ اس کا یہ پروگرام امن مقاصد کے لیے ہے لیکن اس کے مخالفین یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ اسے کسی بھی وقت جوہری اسلحوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال مشرقِ وسطیٰ میں اسلحوں کی نئی دور کو خوش آمدید۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ: ۳ اگست ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply