ایران کا خاموش ’’انقلاب‘‘

ستمبر کے اواخر میں جب ایرانی پارلیمنٹ نے دوبارہ منتخب ہونے والے صدر محمود احمدی نژاد کی کابینہ کے ۲۱ میں ۱۶ ارکان کے تقرر کی منظوری دی تب ایرانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں نے پاسدارانِ انقلاب کے سرکردہ ذمہ دار حیدر مصلحی کی انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے تقرری کو شدت سے محسوس کیا۔ اب تک انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کی وزارت نے پاسدارانِ انقلاب سے تعلق رکھنے والوں کو اہم عہدوں تک آنے سے روکا ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کو ملک کی سب سے طاقتور وزارت میں تبدیل ہونے سے روکنے کی کئی وجوہ ہیں۔ اندرون ملک انٹیلی جنس سے متعلق معاملات کو پاسدارانِ انقلاب کی دسترس سے دور رکھنے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ حیدر مصلحی کی تقرری سے اب پاسدارانِ انقلاب کی نگرانی یا چوکسی کرنے والا کوئی نہیں۔

کسی خونیں سرگرمی یا واردات کے بغیر پاسدارانِ انقلاب کا یوں ابھرنا بہت سوں کے نزدیک ایران کی سیاست میں رونما ہونے والی ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ایران کے سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والوں نے اس تبدیلی کو ایران کی مذہبی اشرافیہ میں پیدا ہونے والی کمزوری سے تعبیر کیا ہے۔ ایران اب بھی مذہبی اصولوں کی بنیاد پر کام کرنے والی ریاست ہے تاہم مذہبی پیشوائوں کے اقتدار و اختیار میںکمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت میں اب مذہبی قائدین کا عمل دخل یونیفارم والوں کے مقابلے میں خاصا کم رہ گیا ہے۔

بیرونی دنیا میں ’’ایران ریوولیوشنری گارڈز‘‘ کے نام سے معروف پاسدارانِ انقلاب ۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی کی ذاتی ملیشیا کی حیثیت سے ابھری۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک پاسدارانِ انقلاب نے عراق کے خلاف میدان جنگ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۹ء میں امام خمینی کے انتقال کے بعد اس وقت کے ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے پاسدارانِ انقلاب کی قوت کو ملک کی تعمیرنو کے لیے بروئے کار لانے پر توجہ دی اور انہیں ’’بنیاد‘‘ جیسی نمایاں فلاحی تنظیم قائم کرنے کی تحریک دی۔ بعد میں پاسدارانِ انقلاب نے اس تنظیم کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا۔

آیت اللہ خمینی کے بعد ایران کے سپریم لیڈر کے منصب پر فائز ہونے والے علی خامنہ ای نے پاسدارانِ انقلاب سے محبت کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ان کی ذاتی دلچسپی ہی کے نتیجے میں پاسدارانِ انقلاب کو جدید ترین اسلحہ بھی ملا اور قومی سیاست میں ان کا نمایاں کردار بھی متعین ہوا۔ انہوں نے اپنی جامعہ بھی قائم کی۔ امریکا کی رینڈ کارپوریشن کے نیشنل ڈیفنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اب پاسدارانِ انقلاب ایک ایسے سیاسی، معاشی اور سماجی ادارے میں تبدیل ہوچکی ہے جس کے اثرات ایرانی سیاست، معیشت اور معاشرت میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے سے لیزر آئی سرجری تک متعدد شعبوں میں پاسدارانِ انقلاب کے معاشی یا تجارتی مفادات اربوں ڈالر کے ہیں۔ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کی وزارت کے علاوہ یہ ادارہ اب دفاع، تیل اور داخلہ امور کی وزارتوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔

امریکیوں کے لیے پاسدارانِ انقلاب کے یوں عروج پانے میں تشویش کی بات بھی ہے اور مواقع بھی ہیں۔ ایران کے معاملے میں اس وقت امریکا کو جو بات سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ اس کا ایٹمی پروگرام ہے۔ اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر پاسدارانِ انقلاب کا کنٹرول نمایاں ہے۔ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل میں پاسدارانِ انقلاب کو بھی چند اہم عہدے ملے ہوئے ہیں۔ اس کونسل میں بیٹھ کر وہ ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کی بہتر نگرانی کی پوزیشن میں ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب ہی کا ذیلی گروپ ’’قُدس فورس‘‘ لبنان میں حزب اللہ ملیشیا، فلسطینی علاقوں میں حماس اور عراق میں مَہدی آرمی کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب چونکہ معاشی مفادات کو مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں، اس لیے ان میں انقلابی جذبہ کمزور پڑچکا ہے اور ممکن ہے کہ بیشتر امور میں وہ بہت جلد بات چیت پر آمادگی ظاہر کردیں۔ امریکا میں ایرانی سیاست اور معاشرت کی نگرانی پر مامور ادارے ’’پرشیا ہائوس‘‘ کے مارک فائولر کہتے ہیں ’’پاسدارانِ انقلاب عمل کی دنیا کا مکمل شعور رکھتے ہیں اور نظرات کو مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔‘‘

سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دور میں قومی سلامتی کونسل میں افغانستان اور ایران کے امور کی ڈائریکٹر ہلیری مین لیوریٹ کہتی ہیں ’’پاسدارانِ انقلاب آج بھی انقلابی فکر سے عقیدت رکھتے ہیں۔ مگر انقلابی ہونے کے باوجود وہ اب جنونی نہیں رہے۔ جو لوگ پاسدارانِ انقلاب کو پریشر گروپ سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ ادارہ اب ایک باضابطہ شکل اختیارکرچکا ہے۔‘‘

پاسدارانِ انقلاب کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ ۲۰ ہزار ہے۔ ایران کی ریگیولر آرمی کے مقابلے میں یہ خاصا چھوٹا ادارہ ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس کے کمانڈر محمد علی جعفری، ڈپٹی کمانڈر محمد حجازی اور قدس فورس کے لیڈر قاسم سلیمانی کا تقرر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کیا ہے جس سے ان کے قدامت پسند فکری رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ پاسدارانِ انقلاب نے اصلاحات کی مخالفت کی ہے۔ اس کا ایک سبب تو رجعت پسندی ہے تاہم سچ یہ ہے کہ اس تنظیم کے قائدین کاروباری مفادات پر کوئی بھی ضرب برداشت نہیں کرسکتے۔ ۲۰۰۴ء میں جب تہران ایئر پورٹ کی توسیع کا منصوبہ ایک ترک فرم کے حوالے کیا گیا تو پاسدارانِ انقلاب نے ایئر پورٹ کو بند کردیا تھا اور اس وقت کھولا تھا جب توسیع کا ٹھیکہ ترک فرم سے واپس لیکر اسے دیا گیا۔

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور پاسدارانِ انقلاب کے تعلقات خوشگوار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ احمدی نژاد انقلاب کے زمانے میں پاسدارانِ انقلاب کی صفوں میں تھے۔ بعض مبصرین کے نزدیک وہ ایک ذیلی ملیشیا کا حصہ تھے۔ احمدی نژاد کا ماضی خواہ کچھ رہا ہو، ۲۰۰۵ء میں جب وہ پہلی مرتبہ ایرانی صدر منتخب ہوئے تو پاسدارانِ انقلاب ان کی پشت پناہی کے لیے سامنے آگئی۔ احمدی نژاد مقبول، عوام دوست اور کرپشن کے الزامات سے پاک سیاست دان تھے۔ وہ پاسدارانِ انقلاب کے لیے مضبوط فرنٹ مین ثابت ہوئے۔ انہوں نے پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے ملنے والی اخلاقی حمایت کا صلہ بھی خوب دیا۔ سیکیورٹی سے متعلق امورمیں پاسدارانِ انقلاب کا کردار بڑھاتے بڑھاتے انہوں نے اسے ۳۰ لاکھ رضاکاروں پر مشتمل بَسیج ملیشیا کا انچارج بھی بنادیا۔ احمدی نژاد نے پاسدارانِ انقلاب کو اہم سرکاری ٹھیکوں میں بھی معقول حصہ دیا۔ اگر کوئی بڑا منصوبہ پاسدارانِ انقلاب کے تعمیراتی شعبے ’’خاتم الانبیا‘‘ یا کسی اور ذیلی کمپنی کو نہیں بھی دیا جاتا تھا تو کسی ایسے ادارے کو دیا جاتا تھا جس کی کمان پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈرز یا سرکردہ ارکان کے ہاتھ میں ہو۔ احمدی نژاد کے پہلے دورِ صدارت میں پاسدارانِ انقلاب سے تعلق رکھنے والے اداروں کو اربوں ڈالر کے ٹھیکے دیئے گئے۔ جب احمدی نژاد کی پہلی مدت صدارت ختم ہونے کو آئی تب پاسدارانِ انقلاب نے شدت سے محسوس کیا کہ انہیں ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب ہونا چاہیے۔ ’’کارنیگی اینڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پِیس‘‘ میں ایرانی امور کے ماہر کریم سجادپور کا کہنا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب ہر قیمت پر احمدی نژاد کو اقتدار میں رکھنا چاہتے تھے۔

صدارتی انتخاب میں محمود احمدی نژاد کے حریف میر حسین موسوی نے اصلاحات کی بات کی تھی۔ پاسدارانِ انقلاب کے اخبار ’’صبح صادق‘‘ نے احمدی نژاد کی انتخابی مہم چلائی اور خبردار کیا کہ کسی بھی ’’ریشمی انقلاب‘‘ کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔

صدارتی انتخاب میں دھاندلی کی اطلاعات کے بعد میر حسین موسوی کے حامیوں نے سڑکوں پر اور گلیوں میں احتجاج کیا تو ان پر قابو پانے کے لیے پاسدارانِ انقلاب کے بجائے بَسِیج ملیشیا کو تعینات کیا گیا۔ ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے عوام پر گولی چلانے کی صورت میں پاسدارانِ انقلاب کی ساکھ خراب ہونے کا خدشہ تھا۔ موسم گرما میں جو کچھ ہوا اس کے اثرات زائل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ پاسدارانِ انقلاب اور حکومت کی تدابیر بظاہر کامیاب رہی ہیں۔ احمدی نژاد، خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب نے انقلاب کو لاحق خطرے کا رُخ موڑ دیا ہے۔

ایرانی معیشت میں اس وقت پاسدارانِ انقلاب کی کم و بیش وہی حیثیت ہے جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں چین کی معیشت میں پیپلز لبریشن آرمی کی تھی۔ کرپشن کے الزامات سامنے آنے پر چین کے اُس وقت کے صدر جیانگ ژیمن نے پیپلز لبریشن آرمی کو حکم دیا تھا کہ اپنے کاروباری اداروں کو ختم کردے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران میں بھی ایسا ہوسکے گا؟ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سرکاری شعبے کا بوجھ کم کرکے بیشتر کاروباری اداروں کو نجی شعبے میں دے دیا جائے۔ صدر احمدی نژاد اور پاسدارانِ انقلاب نے اب تک نجکاری کا دائرہ وسیع کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔ اب تو احمدی نژاد پاسدارانِ انقلاب کے زیادہ احسان مند ہیں۔ اس لیے معیشت میں اس کا حصہ نمایاں طور پر بڑھ جائے گا۔ ایرانی معیشت خاصے ناقص انداز سے کام کر رہی ہے۔ بہت کچھ صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پاسدارانِ انقلاب کے لیے بالکل موزوں ہے۔ مسابقت برائے نام ہے۔ تہران میں معیشت کے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ چار سال کے دوران معیشت کی خرابیاں بڑھی ہیں اور پاسدارانِ انقلاب نے مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے۔

ایرانی سیاست، معیشت اور معاشرت میں پاسدارانِ انقلاب کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایرانی عوام نے انہیں ناگزیر حقیقت کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ علی خامنہ ای کے رخصت ہونے تک پاسدارانِ انقلاب اس قدر مستحکم ہوچکے ہوں گے کہ انہیں کسی سپریم لیڈر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسے میں وہ مذہبی پیشوائوں کو مساجد کی طرف واپس روانہ کردیں گے اور اپنے میں سے کوئی صدر لے آئیں گے جو ان کے مفادات کی بہتر نگرانی کرے۔ ایران جیسے ملک میں ایسی تبدیلی کو بھی بہتری کے روپ میں دیکھنا ممکن ہے۔ کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاسدارانِ انقلاب حکومتی امور بہتر انداز سے نمٹا سکیں گے۔

مگر یہ سب کچھ ابھی محض ایک خواب ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کے لیے کوئی بحران نہیں۔ ایک ایسا صدر ان کے حصے میں آیا ہے جو بیشتر معاملات میں رام ہوچکا ہے۔ سپریم لیڈر کی جتنی پاسدارانِ انقلاب کو ضرورت ہے، اسی قدر سپریم لیڈر کو بھی ان کی ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایرانی عوام انہی کے عادی رہیں۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ ۲۷ ستمبر ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*