عراق پر حملہ ایک بڑی غلطی تھی۔۔۔
عراق کے باہر یہ اعتراف کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے اور اعتراف کرنے والوں میں ڈیمو کریٹس صدارتی امیدوار بھی شامل ہیں۔ ہیلری کلنٹن کہاں ہیں؟جنہوں نے عراق کی جنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اب جن کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا کرکے غلطی کی تھی۔ سابق سینیٹر جان ایڈورڈز نے یہ اعتراف نومبر کے مہینے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کیا اور سینیٹر جوزف بائیڈن نے یہ الفاظ ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں ادا کیے ۔ بائیڈن نے کہا ’’یہ ایک غلطی تھی‘‘ ایڈورڈز نے بھی لکھا ’’یہ ایک غلطی تھی‘‘ اور کوہن کہتا ہے ہاں ہاں یہ ٹھیک ہے کہ یہ ایک غلطی تھی‘ لیکن اس کو غلطی قرار دینا بھی ایک غلطی ہے۔
دونوں سینیٹروں کے پاس یقیناً ایک نقطہ ضرور ہے‘ صدر اور ان کی وار کابینہ (کابینہ برائے جنگ) کے ارکان ‘ ڈک چینی‘ کونڈا لیزا رائس اور ڈونلڈ رمز فیلڈ نے انہیں بتایا تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ خاص طور پر ان تین افراد نے عراق کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر خاصے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ حتی کہ عراق کی جنگ کے بعد یعنی اگست ۲۰۰۳ء تک بھی کونڈا لیزا رائس کہہ رہی تھیں ’’مجھے اب بھی یقین ہے عراق کی حکومت ایک خطرہ تھی کیونکہ وہ جوہری ہتھیار تیار کررہی تھی اور اسکے پاس حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار تھے‘ جو اس نے استعمال بھی کیے تھے۔‘‘ اگر بہت زیادہ رعایت برتی جائے تو بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس بارے میں بات کررہی ہے۔
جو صورتحال سامنے آئی ویسا امریکی نائب صدر ڈک چینی یا ڈیفنس سیکریٹری ڈونلڈ رمز فیلڈ نے کہا نہیں تھا۔ ڈک چینی نے کہا تھا ’’ہمارا یہ یقین بڑھتا جارہا ہے کہ امریکا کسی عراقی جوہری ہتھیار کا شکار بن جائے گا۔‘‘ رمز فیلڈ نے ایک خوفناک منظر پیش کرتے ہوئے کہا تھا’’نائن الیون جیسے کسی واقعہ کا تصور کیجئے جس میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کیے جائیں‘ اس سے ہزاروں معصوم مرد‘ عورتیں اور بچے ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘ آپ ذرا تصور کیجیے ایک ڈیفنس سیکریٹری کا جو یہ سوچے کہ وہ وزیر برائے پروپیگنڈا ہے۔
میں نے اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والی اس تگڈم کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ سب جوہری ہتھیاروں کے خطرے کے بارے میں خبردار کرتے رہے اور یہ اب بھی امریکی انتظامیہ میں شامل ہیں۔ اس سارے شوروغوغا کے باوجود ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو جنگ شروع ہونے تک واضح ہوچکا تھا کہ عراق جوہری ہتھیاروں کے کسی پروگرام پر عمل درآمد نہیں کررہا تھا۔ وہاں سے اس حوالے سے جو شواہد ملے تھے یعنی ایلومینیم کی ٹیوبیں اور افریقہ سے یورینیم حاصل کرنے کا معاملہ‘ انہیں چیلنج کردیاگیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں اس کے علاوہ کچھ نہیں ملا تھا۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادی نے اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا‘ ’’اب تک ہمیں عراق میں ممنوعہ نیو کلیئر یا اس سے متعلقہ سرگرمیوں کے کوئی شواہد نہیں ملے‘‘ یہ بیان انہوں نے۱۴ فروری کو دیا تھالیکن اگلے ہی ماہ امریکا نے جنگ شروع کردی تھی۔
ایڈورڈز اور بائیڈن میں سے کسی نے بھی اپنے اعتراف میں اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے بش اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے صدام حسین کے نیو کلیئر خطرے کے بارے میں پیش کردہ شواہد کو پرکھ کر اطمینان کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا معاملہ پھر باقی رہ جاتا ہے۔ کیمیائی ہتھیار تو ۱۹۱۵ء سے اور پہلی جنگ عظیم کے وقت سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کا معاملہ ذرا الگ نوعیت کا ہے لیکن انہیں چلانا آسان کام نہیں ہے‘ پھر یہ اتنے موثر بھی نہیں ہوتے ۔ بہرحال صورتحال جو بھی کچھ تھی‘ نائن الیون کے واقعہ سے پہلے امریکیوں کو صدام حسین کے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے بمشکل ہی کوئی خطرہ لاحق تھا۔
نائن الیون نے ساری صورتحال تبدیل کرکے رکھ دی ۔ دہشت گردوں کے حملے اور ڈاک کے ذریعے بھیجی گئی اینتھراکس سے پانچ افراد کی ہلاکت نے امریکا کو قتل کردیا تھا۔ بش انتظامیہ میں شامل بہت سے ٹھنڈے مزاج کے افراد کے دماغوں نے بھی اس لمحے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ بھی جنگ کے لیے اکساتے رہے ‘ جیسے وہ ہمیشہ سے یہی چاہتے ہوں جب کہ میرے سمیت بہت سے دیگر افراد ایک جذباتی جنون اور دہشت کا شکار ہوگئے تھے حتی کہ جب جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے اور یہ واضح ہوگیا کہ عراق دراصل حقیقی‘ فوری اور واضح خطرہ نہ تھا تب بھی ہم میں سے محض چند افراد نے بش سے تقاضا کیا کہ وہ اپنے مطالبہ یا نقطہ نظر سے دستبردار ہوجائے۔ میں اس وقت بہترین کام یہ کرسکتا تھا کہ کچھ شکوک کا اظہار کروں ۔ ۲۵ جولائی ۲۰۰۲ء کو میں نے لکھا کہ اگر بش انتظامیہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر جنگ مسلط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ میں نے لکھا تھا ’’پینٹاگون میں جنگ کے منصوبے تشکیل دیے جارہے ہیں لیکن وائٹ ہائوس میں اس حوالے سے توضیحات کا شدید فقدان ہے۔‘‘
اس معاملے میں توضیحات کی قلت اب بھی موجود ہے۔ ڈیمو کریٹک کے وہ لوگ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ کی حمایت کرکے انہوں نے غلطی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح کی غلطی؟ گمراہ کردیا جانا صرف غلطی نہیں ہے۔ ہاں یہ غلطی ضرور ہے کہ آپ میں اپنی حتمی رائے اور عقیدہ پر قائم رہنے کے لیے ناگزیرہمت کی کمی ہو۔ یہ غلطی ہے کہ آپ غالب رجحان کی رو میں بہتے چلے جائیں۔ یہ بڑے اور عظیم اثرات کی حامل غلطی ہے‘ قوت فیصلہ کے ناکام ہونے یا سیاسی ہمت و قوت نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس بارے میں باز پرس کی جائے۔
میں جنگ کے نئے ناقدین کو ان لوگوں سے زیادہ اعلیٰ معیار کا نہیں سمجھتا ہوں جنہوں نے صورتحال کو جنگ تک پہنچایا جن کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ جنگ اپنی نوعیت کا ایک علیحدہ آئیڈیا تھا۔ اگر ہم لفظ ’’غلطی ‘‘ کو سلیٹ صاف کرنے کے لیے وائپر کے طو رپر استعمال کرسکتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ہم اس ہزیمت سے کوئی سبق حاصل نہیں کریں گے۔ ایسا کرنا اس عمل سے کسی طور پر مختلف نہ ہوگا جو اس وقت جارج بش کرانے کی کوشش کررہے ہیںیعنی یہ کہ انٹیلی جنس خراب تھی‘ ان کی واہیات قوت فیصلہ میں کوئی خرابی نہ تھی۔ صدر بش اور ان کے ناقدین کی اس وضاحت کو قبول کرتے ہوئے اس غلطی کو مسترد یا نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے بصورت دیگر یہ اس کی شدت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔
(بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ)
Leave a Reply