۱۷‘۱۸ مارچ ۱۹۸۸ء کو انسانی تاریخ میں یوم سیاہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ ’’ناگا ساکی‘‘ یا ’’ہیرو شیما‘‘ کا حادثۂ فاجعہ انہیں دنوں پیش آیا بلکہ اس لیے کہ عراق نے شہر’’جلبہ‘‘ جو بغداد سے ۲۶۰ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع تھا اور ۷۰ ہزار نفوس پر مشتمل تھا‘ صرف ۴۸ گھنٹہ میں مُردوں کا شہر بنادیا اور ۱۰ ہزار سے اوپر معصوم انسانی نفوس کو زہریلی گیس سے موت کے گھاٹ اتار دیا ‘ ہزاروں معصوم جانور لمحوں میں دم توڑ گئے‘ گیس کی ہلاکت خیزی نے نسل در نسل جان لیوا امراض کو فروغ دیا ہے ‘ اسی لیے اس وقت کے انصاف پسند لوگوں نے مطالبہ کیاتھا کہ اس دن کو تاریخ انسانی میں ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر یاد رکھا جائے‘ ظلم ظلم ہے اس کا نہ کوئی دین ہوتا ہے نہ مذہب ‘ عرب دانشوروں نے بھی اس خونیں واقعۂ کو ’’صبر اوشتیلا‘‘ ’’ناگاساکی‘‘ اور ’’ہیرو شیما‘‘ کے واقعات کے مشابہ قرار دیا۔
دہشت گردی کے سب سے بڑے مخالف امریکا بہادر نے اس موقع پر جو بیان دیا وہ قابل توجہ ہے:
۲۶مارچ۱۹۸۸ء نیویارک ٹائمز نے لکھا:’’عراق کا یہ قدم ایک بدترین جنگی جرم ہے‘ جبکہ وہ ۱۹۲۵ء میں ہونے والے اُس معاہدہ پر دستخط کرچکا ہے جس میں یہ طے پایا تھا کہ زہریلی گیس کا استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘ اس اعلان کی وضاحت دوسرے لفظوں میں یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ اگر عراق نے ۱۹۲۵ء کے معاہدہ پر دستخط نہ کیا ہوتا تو کیا اس کا یہ قدم جرم نہ ہوتا؟ یا اگر وہ کسی دوسرے ہتھیار کا استعمال کرتا تو کیا اس کا یہ اقدام درست تسلیم کیا جاتا؟
۲۸مارچ۱۹۸۸ء نیویارک ٹائمز نے لکھا ’’عراق کو یاد رکھنا چاہیے کہ مشرق و مغرب کا تعاون اس کو اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ آئندہ اس طرح کے جرائم کاارتکاب نہ کرے‘‘ قربان جایئے اس فراخدلی پر‘ کہ اس انسانیت سوز جرم کو معاف کردیا گیا۔ اس سادگی اورپُرکاری اور لہجہ کی حلاوت و چاشنی پر!
۵اپریل۱۹۸۸ء ٹائم میگزین نے لکھا: ’’پہلی جنگ عظیم کے بعد سے آج تک عراق کایہ اقدام بدترین جنگی جرائم میں شمار کیا جائے گا۔‘‘
اس وقت یہ اسلوب اور لہجہ صرف امریکا کا نہیں تھا‘ احمد رائف نے ایک کتاب اس موضوع پر ’’جرائم صدام الکیمیاویۃ‘‘ کے نام سے لکھی ہے انہوں نے اس کتاب میں جرمنی‘ ترکی‘ بیلجیئم‘ آسٹریلیا‘ اسپین‘ یوگوسلاویا‘ ہالینڈ‘ انگلینڈ‘ فرانس اور دیگر یورپین ممالک کے بیانات کو جمع کردیا ہے ان میں کہیں پر عراق کے اس واقعہ پر اس سے احتساب کی بات نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لیے دہشت گرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
۱۹۹۰ء میں عراق نے ہر طرح کے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پڑوسی ملک کویت پر حملہ کیا‘ قتل و خونریزی کا بازار گرم ہوا‘ عزتیں پامال ہوئیں‘ کتنے خانماں برباد ہوئے‘ قومی و ملکی املاک لوٹ لی گئی‘ اسلامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی گئی‘ لوگوں کو آڈر دیا گیا کہ وہ اپنی داڑھیاں منڈھادیں اور اس پر مجبور کیا گیا‘ سینکڑوں مسجدیں ویران کردی گئیں‘ اقتصادی لحاظ سے کویت کو ۶۲۰ ارب ڈالر کا فوری نقصان ہوا‘ عالمی تجارتی منڈی میں اس کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ الگ لیکن پھر بھی کسی نے اس کو دہشت گرد کا نام نہیں دیا‘ بلکہ اس کے برخلاف ۱۹۹۲ء میں امریکا سے ایک خفیہ دستاویز شائع ہوئی جس کو امریکی وزیر خارجہ پیکر اور صدر بش نے تیار کیا تھا‘ ان دونوں دستاویزات سے عراق امریکی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے میگزین ’’الوسط‘‘ نے ۱۲اکتوبر۱۹۹۲ء کو امریکی وزارتِ خارجہ کے بعض خفیہ دستاویز سے پردہ اٹھایا جن پر پیکر اور خود بش کے دستخط موجود تھے‘ ان سے یہ بات سامنے آئی کہ عراق امریکی تعلقات کی ابتداء ’’ریگن‘‘ کے زمانۂ اقتدار ۱۹۸۴ء میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے ہوئی۔’’ریگن‘‘ کے زمانۂ اقتدار میں عراق امریکی تعلقات کی سب سے امتیازی خصوصیت ایران کے مقابلہ میں دونوں ملکوں کی باہمی مفاہمت تھی ۱۹۸۴ء سے لے کر ۱۹۸۸ء (جب عراق ایران جنگ اختتام کو پہنچی) کے عرصہ میں امریکا عراق کو ایران کی سیاسی ‘ فوجی اور دفاعی پلان کی انتہائی نازک اور خفیہ معلومات فراہم کرتا رہا‘ اسی عرصہ میں عراق امریکا کی جدید فوجی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا‘ سینکڑوں ملین ڈالر کی امداد حاصل کی۔
عراق امریکی تعلقات میں اہم موڑ اس وقت آیا اور زبردست پیش رفت اس وقت ہوئی جب ۲۵ مارچ ۱۹۸۹ء میں واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ پیکر اور عراقی نائب وزیر خارجہ نزار احمدون کے درمیان میٹنگ ہوئی‘ بعد میں پیکر نے ’’پول ھار‘‘ امریکی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار سے مطالبہ کیا کہ ان کی وزارت کے دوران عراق اور امریکی تعلقات کی ایک خفیہ ڈائری تیار کی جائے۔
اس ڈائری سے عراق امریکی تعلقات کے چند اہم گوشوں پر روشنی پڑتی ہے|:
۱۔ عراقی وزیر خارجہ عراق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں‘ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان پائیدار تعلقات کو مضبوط اور یقینی بنانے کے لیے دستاویز تیار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اوراس خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر امریکا اور ایران کے تعلقات اچھے ہوگئے تو یہ عراق کے لیے خسارہ ہوگا۔
۲۔ دستاویز اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ عراق ایک مضبوط ملک ہے اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی مفید ہے‘ اس کے پاس ایک بڑی فوجی طاقت ہے اور دوسری بڑی طاقت پیٹرول کی طاقت ہے‘ عراق آج عرب ممالک میں امریکی تجارت کا دوسرا بڑاپارٹنر ہے‘ عراقیوں نے امریکی پیٹرول کمپنیوں سے ان کے موافق شرائط پر معاہدہ کیے ہیں‘ عراق اس بات کا خواہاں نظر آتا ہے کہ وہ مختلف میدان میں امریکا سے اپنے تعلقات بڑھائے۔
۳۔ امریکا کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ عراق سے اپنے تعلقات کو فروغ بھی دے اور ان تعلقات کو مضبوط بھی کرے‘ یہ درست ہے کہ عراق بعض فلسطینی دہشت گردوں کا تعاون کرتا ہے اور اپنی سرزمین پر ہتھیاروں کے پیداوار کے لیے مختلف پروگرام بھی ترتیب دے رہا ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ عنقریب لبنان میں مداخلت کرے اور کویت کے ساتھ سرحدی معاملات میں اس کی جھڑپ بھی ہو لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود واشنگٹن کے لیے مفید اور سودمند یہی ہے کہ وہ بغداد سے رشتہ استوار کیے رہے۔
۴۔ پیکر امریکا کو مشورہ دیتا ہے کہ عراق کے تئیں اس کے رویہ کی دو صورت میں ہوسکتی ہیں ایک جارحانہ اور دوسرا دوستانہ ‘ مفادات کے پیش نظر میں دوسری صورت کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔
۵۔ پیکر مشورہ دیتا ہے کہ اس خطہ میں امریکی کھیل میں عراق اہم کردار ادا کرسکتا ہے‘ خلیجی امن سے متعلق مسائل میں عراق سے گفتگو ضرور کی جائے لیکن اس میں صدام کی خوشنودی کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے۔
۶۔ دستاویز میں تحریر ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک نزاع کے مسئلہ میں ایک یہودی وفد عراق گیا تھا جو انتہائی پُرامید حالت میں لوٹا ہے اور وہ صدام کے امن مساعی پروگرام سے مطمئن اور خوش ہے۔
۷۔ دستاویز میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کویت پر عراقی حملہ کی رپورٹ امریکا کے پاس بہت پہلے پہنچ چکی تھی‘ امریکی حکام نے اس سلسلہ میں میٹنگیں بھی کی تھیں اور دونوں ممالک کے سربراہ کو خطوط بھی روانہ کیے گئے تھے۔
۸۔ دستاویز میں یہ بھی تحریر ہے کہ ان حالات کے علم کے باوجود امریکا عراق کو ہتھیار فروخت کرتا رہا۔
۹۔ اس دستاویز میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۱۹۸۵ء میں باقاعدہ امریکا نے عراق کا نام دہشت گرد ممالک سے الگ کردیا تھا۔
اس دستاویز سے ۱۹۹۰ء تک عراق امریکی تعلقات پرروشنی پڑتی ہے لیکن کہیں پر اس کا اشارہ نہیں ملتا کہ امریکا نے عراق پر ظلم‘ یا دہشت گردی یا ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلہ میں الزام عائد کیا ہو‘ آخر کیوں؟ جو بیانات ملتے ہیں تو اس دستاویز کی روشنی میں اس کی حیثیت فارمیلیٹی سے زیادہ نہیں ر ہ جاتی۔
لیکن جب امریکا نے کویت میں اپنے قدم جمالیے ‘ وہاں کی صنعت پر قابض ہوگیا اور جن مفادات کی تکمیل کے لیے عراق کو باقی رکھا گیا تھا وہ پورا ہوگیا تو اچانک امریکا نے ۱۹۹۳‘۱۹۹۴ء‘۱۹۹۶ء‘۱۹۹۸ء اور ۲۰۰۲ء میں امریکا نے عراق کے خلاف پانچ بار اپنی فوجی مشینری کو حرکت دی‘ آخر کیوں؟
کیا عراق صرف تین سال کے عرصہ میں دہشت گرد ملک بن گیا؟
آج صدام پر جن جرائم کی بنیاد پر مقدمہ چلایا جارہا ہے ان میں سرفہرست زہریلی گیس کا استعمال اور ہزاروں بے گناہوں کا قتل بھی شامل ہے‘ لیکن سوال ہے کہ عراق کا یہ عمل آج جرم اور دہشت گردی میں تبدیل ہوگیا لیکن ۱۹۸۸ء میں یہ جرم مقابل مواخذہ اور دہشت گردی کیوں نہیں تھا؟
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ۔ شمارہ: ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply