
امریکا نے عراق سے اپنے تمام جنگجو فوجی نکال لیے ہیں اور اب سیکورٹی کا معاملہ مکمل طور پر مقامی فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ایسے میں اوباما انتظامیہ کے لیے یہ کہنا آسان ہوگیا ہے کہ عراقی سرزمین پر امریکی مفادات کو لاحق تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لیے امریکا کسی بھی لڑائی کے لیے تیار ہے۔
سابق برطانوی وزیر خارجہ ٹونی بلیئر بھی کمر کس کے میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں یورپی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے محفوظ مستقبل کے لیے عراق میں مداخلت کریں کیونکہ ایسا کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ براک اوباما اور ٹونی بلیئر دونوں ہی نے یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ عراقی سرزمین سے امریکا اور یورپ کے کون سے مفادات وابستہ ہیں۔ یہ بات تو ذرا سا غور کرنے پر کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ امریکا اور یورپ کے لیے عراق کیوں اہم ہے۔ زمین کی اِتنی اہمیت نہیں، جتنی اِس میں چھپی ہوئی چیزوں کی ہے یعنی معدنی وسائل۔ امریکا اور یورپ کے لیے عراق کا تیل بہت اہم ہے اور ساتھ ہی اِس خطے پر کنٹرول بھی، تاکہ تیل کی ترسیل کے لیے محفوظ راہداری میسر رہے۔ ۱۳؍جون ۲۰۱۴ء کو صدر اوباما نے عراق میں تیل کی پیداوار میں کمی آنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے خلیجی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
امریکا نے صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے پہلے ہی ایسی تیاریاں کرلی ہیں جن کا مقصد کسی بھی بڑے مناقشے کی صورت میں صورت حال کو کنٹرول کرنا ہے۔ مثلاً امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ہربرٹ واکر بش کو عراقی پانیوں کے نزدیک بھیج دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گائڈڈ میزائلوں سے لیس یو ایس ایس فلپین سی بھی بھیجا گیا ہے تاکہ کسی بھی خطرناک صورت حال میں طیارہ بردار جہاز کو حقیقی اور ٹھوس تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو۔ گائڈڈ میزائل ڈیسٹرائر یو ایس ایس ٹرکسٹن بھی خطے میں بھیجا گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی نے بتایا کہ عراق میں امریکی شہریوں اور امریکی مفادات کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام ضروری تیاریاں کی جاچکی ہیں۔ خفیہ معلومات کا امریکی نظام پہلے ہی عراقی حدود میں کام شروع کرچکا ہے۔
عراق میں امریکا کی پراکسی حکومت کی ناکامی نے ہائیڈرو کاربن انڈسٹری (پٹرولیم انڈسٹری) کو قومی تحویل سے نکالنے کے قانونی عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ عراق کے طول و عرض میں سابق حکمراں بعث پارٹی کے حامیوں اور دیگر قوم پرستوں پر مشتمل عناصر مسلح مزاحمت کے ذریعے ملک کے تیل اور گیس کے ذخائر کو دوبارہ قومی تحویل میں لیے جانے کی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ نجکاری کے عمل سے ملک کی تیل اور گیس کی دولت غیر ملکی اور بالخصوص مغربی کمپنیوں کے کام آئے گی، ملک کا کچھ بھلا نہ ہوگا۔
۲۰۰۳ء میں امریکا نے جب عراق کے خلاف جنگ چھیڑی تب یہ سوال اٹھا کہ عراق کے تیل اور گیس کے ذخائر اور اُن سے جڑی ہوئی صنعت کو قومی تحویل سے نکالا جائے تاکہ نجکاری کے ذریعے اِسے بہتر طور پر چلانا ممکن ہو۔ صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کے بعد اقتدار میں آنے والے نوری المالکی آٹھ سال تک تیل اور گیس کی صنعت کو قومی تحویل سے نکالنے کا بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کرسکے۔ عراق میں تیل اور گیس کی آمدنی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہے۔ سُنّی، شیعہ اور کرد علاقوں کو وفاق یا مرکز کی طرف سے اُن کا حصہ دیا جاتا ہے۔ وہ اِس ترتیب اور نظام کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نوری المالکی بھی تیل اور گیس کی صنعت کو قومی تحویل سے نکالنے کا بل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ذریعے پیش کرنا چاہتے تھے مگر ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔
نوری المالکی چاہتے تھے کہ پٹرولیم کی صنعت کو قومی تحویل سے نکال کر تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے کی راہ ہموار کریں مگر ایسا کرنا اب ان کے لیے ممکن نہیں ہوسکتا۔ ملک کے بیشتر حصوں میں مسلح جدوجہد شروع ہوچکی ہے۔ بغداد کے بعد ملک کا دوسرا میٹروپولیٹن شہر موصل اب باغیوں کے قبضے میں ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اسٹریٹ فار کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت کے لیے اب سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ بغداد میں تیل اور گیس کے انفرا اسٹرکچر کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔
بغداد کے لیے آمدنی کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں۔ نوری المالکی چاہتے تھے کہ تیل کی پیداوار برقرار رہے تاکہ آمدنی کا گراف نہ گرے اور ملک میں جاری جنگ کے لیے مرکزی حکومت کے پاس مالیاتی ذرائع کافی تناسب سے رہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ رہا۔ ملک بھر میں مزاحمت شدید سے شدید تر ہو گئی۔ مسلح بغاوت نے فوجیوں پر دباؤ میں اضافہ کردیا ہے۔ حکومت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ بڑھتی ہوئی مسلح مزاحمت کا راستہ روکنا کم وسائل کے ہوتے ہوئے تو ہرگز ممکن نہ ہوگا۔
اس وقت امریکا اور یورپ کی نظریں عراق کے تیل اور گیس کے ذخائر پر لگی ہیں۔ عراق میں قائم ہونے والی حکومت کے لیے امریکا اور یورپ کی حمایت اور مدد اسی بنیاد پر ہوگی۔ مغربی طاقتیں صرف یہ چاہتی ہیں کہ عراق کی گیس اور تیل کی صنعت قومی تحویل میں نہ رہے تاکہ اُس کی بندر بانٹ آسان ہوجائے اور اپنی مرضی کے مطابق اِن وسائل سے مستفید ہوا جاسکے۔ تیل اور گیس کی صنعت عراقی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر پہلے امریکا و یورپ کی لشکر کشی نے اور بعد میں خانہ جنگی نے اس صنعت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے۔ اب عراق کے سُنّی، شیعہ اور کرد تیل اور گیس کی آمدنی میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ سب سے بڑا حصہ اُس کا ہو۔ یہ معاملہ دن بہ دن الجھتا ہی جارہا ہے۔
عراق کے طول و عرض میں صورت حال اِتنی تیزی سے بگڑ رہی ہے کہ اب تیل اور گیس کی صنعت بھی کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر پر اس کا کنٹرول رہے۔ اس وقت صرف جنوبی عراق سے تیل نکالا اور بیچا جارہا ہے۔ اگر صورت حال بگڑتی رہی تو جنوبی عراق کے لیے بھی تیل اور گیس کی پیداوار برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ تیل کی پیداوار کی سطح گرنے سے برآمدات کی سطح بھی گرے گی۔ یوں بغداد میں مرکزی حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ آمدنی کا گراف گرنے سے دفاعی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی اور یوں ملک کی سالمیت برقرار رکھنا مزید دشوار ہوتا جائے گا۔ بصرہ اور بغداد تک لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے کے خدشات نے ایک بار پھر تیل کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ اس صورت حال نے عالمی منڈی میں غیر یقینی کیفیت پیدا کردی ہے۔
۲۰۰۳ء میں عراق کی پٹرولیم انڈسٹری کو قومی تحویل سے نکالنے کا جو خواب نوری المالکی اور اُن کے ساتھیوں نے دیکھا تھا، اب اُسے شرمندۂ تعبیر کرنا اور بھی دشوار ہوگیا ہے۔ صورت حال دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ اب تک تو عراق میں پراکسی حکومت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے چند ربر اسٹیمپ قراردادوں کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ عراق میں کوئی بھی امریکا نواز حکومت محض اس بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے کہ وہ پٹرولیم انڈسٹری کو کس حد تک کنٹرول کرتی ہے۔ وہ اس انڈسٹری کو مکمل طور پر کنٹرول کرسکتی ہے تو قائم رہ سکتی ہے۔ اب ملک بھر میں مسلح مزاحمت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ خلافت کے قیام کی دعویدار تنظیم آئی ایس آئی ایس نے لڑائی کا دائرہ وسیع کردیا ہے جس سے بغداد کے لیے مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ اگر امریکا نواز حکومت پٹرولیم انڈسٹری کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی تو اُسے تنکوں کی طرح بکھرنے سے کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔
اِس صورت حال سے سب سے زیادہ فکر تو صدر اوباما کو لاحق ہے۔ ان کا رونا یہ ہے کہ امریکی مفادات کو ۲۰۰۳ء میں جو خطرات لاحق تھے وہی اب بھی لاحق ہیں۔ اُن کی مراد یہ ہے کہ عراق میں پٹرولیم انڈسٹری کو قومی تحویل سے نکالنے کا مقصد تو اب تک حاصل نہیں ہو پایا ہے۔ یعنی اب تک کی محنت بے کار گئی ہے۔ وہ اِسی لیے ایک بار محکمہ دفاع پر زور دے رہے ہیں کہ وہ عراق میں امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات پر توجہ دے۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ امریکا ایک بار پھر عراق میں لڑائی چھیڑ سکتا ہے۔ پہلے القاعدہ کے ارکان اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر عراق کو تاراج کیا گیا تھا۔ اب آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں امریکی مفادات کو لاحق خطرات کا ڈھول پیٹ کر ایک بار پھر عراق کا انفرا اسٹرکچر تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
براک اوباما نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت عراق میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی جنگ پھر شروع کی جاسکتی ہے۔ یعنی امریکی پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ عراق میں امریکی جنگ ختم ہوئی ہے نہ جیتی جاسکی ہے۔ ایسے میں دنیا کو اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ امریکا ایک بار پھر عراق پر حملہ آور ہو اور اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے پر بھرپور توجہ دے۔ براک اوباما نے عراق کے حوالے سے قومی ہنگامی حالت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ یہ اقدام اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امریکا جلد عراق میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر لشکر کشی کرسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو بمباری یا گولہ باری تو کی ہی جاسکتی ہے۔
۱۹۳۲ء میں برطانیہ سے محدود آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک عراق نے اپنی پٹرولیم انڈسٹری کو قومی تحویل میں رکھا ہے۔ ایسا کرنا اُس کی سلامتی اور سالمیت دونوں کے لیے انتہائی ناگزیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ اِس وقت بھی پٹرولیم انڈسٹری کو قومی تحویل میں رکھنا بغداد کے پالیسی سازوں کے لیے بنیادی اہمیت کا معاملہ ہے۔ عراق میں تمام فریق جانتے ہیں کہ یہ صنعت آزاد ہوئی اور کسی کے قابو میں نہ رہی تو بہت سی ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جن پر قابو پانا قطعی ناممکن ہوگا۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر بغداد میں امریکا نواز کٹھ پتلی حکومت پٹرولیم انڈسٹری کو قومی تحویل سے نکالنا بھی چاہے تو اسے آئی ایس آئی ایس اور دیگر گروپوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مغربی طاقتوں کو عراق میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول کے حوالے سے ہر دور میں مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ ۱۹۶۱ء میں عبدالکریم قاسم مرحوم نے ایک حکم نامے کے ساتھ مغرب کی آئل کمپنیز کو عراق سرزمین کے ۹۹ فیصد حصے پر تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کے استحقاق سے محروم کردیا تھا اور پھر صدام حسین کی قیادت میں بعث پارٹی کی حکومت نے یکم جون ۱۹۷۲ء کو پٹرولیم انڈسٹری کو مکمل طور پر قومی تحویل میں لے کر مغربی مفادات کے تابوت میں فیصلہ کن کیل ٹھونک دی تھی۔
“Iraqi hydrocarbon prize of U.S. invasion in danger?”. (“globalresearch.ca”. June 28, 2014)
Leave a Reply