امریکا نے ۳۰ جون کو مقررہ دن سے پہلے اپنے چُنے ہوئے عراقیوں کے ہاتھوں میں اقتدارِ اعلیٰ منتقل کرنے کی نمائشی کارروائی مکمل کر لی اور اس کو مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کو رواج دینے کا نقطۂ آغاز قرار دیا۔ قطع نظر اس کے کہ عراقی نام نہاد حکمرانوں کو جو اختیارات ملے ہیں‘ ان کو اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty) نہیں کہا جاسکتا اب بھی مقتدر اعلیٰ (Sovereign) امریکا ہی ہے اور قابض سامراج کے منتخب کردہ افراد کے ہاتھوں میں اختیارات کی سپردگی کو نہ جمہوریت کہا جاسکتا ہے اور نہ جمہوریت کے سفر کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا امریکی فوجیوں کا عراق کے عوام کے خلاف وحشیانہ رویہ ختم ہو گا اور کیا عراقی عوام کے ان کے خلاف مسلح مزاحمت ختم ہو گی۔
نئے عراقی حکمرانوں نے پرتشدد اور مسلح کارروائیوں کو روکنے کے لیے خانہ تلاشیوں‘ شبہ کی بنیاد پر مقدمہ چلائے بغیر (۶۰) قیدی رکھنے‘ کسی کارروائی سے کسی ہلکے سے تعلق کی وجہ سے قید کرنے وغیرہ کے سخت قوانین کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کاغذ پر لکھے قوانین کو نافذ کون کرے گا‘ ان پر عمل کس کے ذریعہ ہو گا؟ اس حکومت کے پاس ایسی پولیس نہیں ہے جو یہ کام کر سکے اور نہ اس کی اپنی فوج ہے۔ صدام حسین کے سابق فوجی عہدیداروں اور فوجیوں سے‘ پولیس عہدیداروں اور پولیس سے یہ کام لیا جاسکتا تھا۔ فلوجا میں جب امریکی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے سابق فوجی عہدیداروں کو فلوجا کا کنٹرول سپرد کر دیا۔ مگر ان نئے عراقی حکمرانوں سے ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ سابقہ فوجیوں پر بھروسہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ سلامتی‘ نظم و قانون کی بحالی کا کام امریکی فوج ہی انجام دے گی۔ نئی حکومت کے اس اعلان کے نتیجہ میں نہ مزاحمتی کارروائی کا سلسلہ ختم ہو گا اور نہ ہی امریکی فوج کو راحت ملے گی۔ قابض امریکی فوج‘ عراقیوں کی نفرتوں کا نشانہ ہے۔ جس کو دیکھتے ہی عراقیوں کا خون کھولتا ہے۔ امریکی فوج‘ تربیت یافتہ فوجیوں پر نہیں وحشی درندوں پر مشتمل ہے‘ جن کی درندگی کا کھلا ثبوت ابو غریب جیل‘ فلوجا اور دیگر شہروں کے رہائشی علاقوں پر فضائی حملے اور کربلا و نجف جیسے مقدس مقامات پر حملے اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے واقعات ہیں۔ ان کی درندگی جاری رہے گی‘ نہ امن قائم ہو گا‘ نہ نظم بحال ہو گا‘ نہ سلامتی کا احساس پیدا ہو گا۔ اگر یہ عراقی حکومت واقعی مقتدر ہے تو اس کو قابض امریکا سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی فوج کی تعیناتی کے لیے کوشش کرے۔ کٹھ پتلی حکومت کہاں آقا کے خلاف جاسکتی ہے۔
ایران‘ شام و اردن پر تمہتیں:
یہ سوال امریکی قابض فوج اور انٹیل یجینس کے لیے ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے کہ عراقی جنگجوئوں کو ہتھیار کہاں سے مل رہے ہیں؟ ان کے پاس صرف بندوق‘ رائفل اور AK-47 ہی نہیں بلکہ کاندھے پر رکھ کر داغے جانے والے راکٹ لانچرز بھی ہیں۔ ان ہی ہتھیاروں سے عراق کی آزادی کے متوالوں نے قابض فوج کے خلاف مزاحمتی کارروائی جاری رکھی ہے۔ شیعہ مذہبی رہنما مقتدا صدر کی فوج بھی صرف ان ہی ہتھیاروں سے لیس ہے‘ فلوجا کے مزاحمت کاروں نے بھی یہی ہتھیار استعمال کیے ہیں‘ دیگر مقامات پر بھی مجاہدینِ آزادی نے اسی نوعیت کے ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ جو اسلحہ امریکی فوج نے مختلف مقامات سے ضبط کیا ہے وہ بھی اسی طرح کا ہے جنہیں بھاری ہتھیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کے پاس نہ ٹینکس ہیں‘ نہ طیارہ شکن توپیں ہیں‘ نہ خود کار راکٹ لانچرز ہیں۔ امریکا نے جو مہیب کارروائی افغانستان اور عراق کے خلاف کی‘ اس کو دیکھنے کے بعد کوئی پڑوسی ملک‘ چاہے ایران ہو کہ شام و اردن‘ عراق کے مجاہدین آزادی کو اسلحہ فراہم کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ جس نوعیت کے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں ان کو خانگی ذرائع سے حاصل کرنا مشکل نہیں ہے‘ دنیا کے کئی گروہوں کے پاس ایسے ہتھیار ہیں اور عالمی سطح پر ان کی تجارت و اسمگلنگ کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ روس سے گھرے ہوئے چیچن مجاہدین کو بھی یہ ہتھیار مل جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے امریکا بخوبی واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ عراقی اس کے ناجائز جارحانہ قبضہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ اس میں شیعہ و سنی کا کوئی فرق نہیں۔ امریکا نے شیعوں کا نجات دہندہ بن کر‘ شیعہ۔ سنی دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی‘ ناکام رہا۔ نسلی بنیاد پر عربوں اور کردوں کو لڑانے کی کوشش کی‘ ناکام رہا۔ خوددار‘ غیرت مند عراقیوں کی جدوجہدِ آزادی کو وہ کمزور نہ کر سکا اور اس پر قابو پانا بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ ایک ہی صورت ہے کہ وہ اپنی فوج اور اپنی کمان ہٹا لے اور سلامتی اور نظم و قانون کی برقراری کا کام اقوامِ متحدہ کے سپرد کر دے جو کثیر قومی فوج اپنی کمان میں تعینات کرے اور چھ ماہ کے اندر آزادانہ انتخابات کروائے اور حکومت‘ منتخب نمائندوں کے حوالے کر دے۔
امریکا سے ایسے دانشمندانہ اقدام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ ایک طرف اس نے اپنے عراقی ایجنٹوں کے حوالے حکومت کر کے‘ اپنی فوج کی درندگی کے لیے اس کٹھ پتلی حکومت کو ذمہ دار قرار دینے اور اپنا دامن جھاڑ لینے کا انتظام کر لیا ہے اور دوسری طرف پڑوسی ممالک ایران‘ شام اور اردن کو الجھائے رکھنے کی تدبیریں کر رہا ہے۔ ایران پر یہی الزام ہے کہ وہ ایٹم بم اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے اور وقفہ وقفہ سے اس الزام کو دہرا کر عالمی برادری میں اس کے امیج کو خوفناک بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ شام اور اردن کے خلاف‘ امریکی عہدیدار یہ الزام لگا رہے ہیں کہ صدام حسین کا گینگ ان ملکوں سے امریکا کے خلاف مسلح شورش کے لیے ہتھیار‘ افراد اور پیسے عراق میں منتقل کر رہا ہے۔ امریکی عہدیدار اس سلسلہ میں انٹیل یجینس کا حوالہ دے رہے ہیں کہ صدام حسین کے رشتہ کے بھائی جو شام اور یورپ میں مقیم ہیں جو الماجد خاندان کے افراد ہیں‘ وہی عراق کی مزاحمتی تحریک کے ذمہ دار ہیں۔ الماجد خاندان کے افراد‘ صدام کی حکومت میں فوج‘ محکمہ خفیہ اور انٹیلی جینس میں اونچے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اردن میں صدام خاندان کے پناہ گزیں افراد پر بھی الزام لگایا جارہا ہے حالانکہ ان پر اردنی پولیس کی سخت نگرانی ہے۔ یہ الزامات اس انداز میں لگائے جارہے ہیں جس سے ان ملکوں کی حکومتوں پر بھی الزام عائد ہوتا ہے۔ امریکا نے اس سلسلہ میں شام کی حکومت کو وارننگ بھی دی۔ شام نے انکار کرتے ہوئے ثبوت پوچھا۔ امریکا کوئی ثبوت فراہم نہ کر سکا صرف یہ کہہ سکا کہ کچھ لوگ عراق سے اپنی دولت‘ روپیہ پیسہ شام اور اردن کو لے جاتے ہوئے پکڑے گئے۔
اسرائیل کی پشت پناہی:
ایران میں ایٹمی ہتھیاروں کے پروپیگنڈے کے ساتھ ہی کئی حلقوں میں اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت کا مسئلہ چھڑا اور فلسطین و عراق میں آزادی کے لیے مسلح کشمکش کے پس منظر میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مغربی ایشیا کو ’’نیوکلیئر فری زون‘‘ یعنی ایٹمی توانائی سے آزاد منطقہ بنایا جائے۔ ایٹمی توانائی کے عالمی ایجنسی کے سربراہ محمد البرداعی نے علی الاعلان یہ کہا کہ ’’اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرہ پر بیٹھا ہوا ہے‘‘۔ اسرائیل نے امریکا کی ہدایت پر چپ رہنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ وزیراعظم شیرون نے کہا کہ وہ نہ کچھ بتائیں گے اور نہ وہ تردید کریں گے۔ مسٹر البرداعی کا اسرائیل کا دو روزہ دورہ بھی ناکام رہا۔ دیمونہ (Dimona) کے ایٹمی ری ایکٹر کے معائنہ کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ کوئی دوسرا ایشیائی ملک ہوتا تو امریکا آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ جس ہفتہ مسٹر البرداعی کے دورہ کی خبر آئی‘ اسی ہفتہ امریکی عہدیداروں نے شام اور اردن کے خلاف پروپیگنڈہ کو تیز کر دیا اور اس الزام کو ایک عالمی مسئلہ بتانے کی کوشش کی کہ عراق میں جو حملے امریکی فوجیوں پر ہو رہے ہیں ان کی منصوبہ بندی شام اور اردن میں ہو رہی ہے اور یہ دونوں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ اس پروپیگنڈہ کا ایک مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرہ کی طرف سے توجہ پھیر دی جائے۔ اسی کے ساتھ ایران کا ہوَّا کھڑا کیا جارہا ہے کہ ایران‘ اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ اس لیے اسرائیل کو ایٹمی طاقت بننا ضروری ہے۔
عراق کی جدوجہد آزادی کا امریکا‘ پڑوسی مسلم ممالک ایران‘ شام اور اردن کو الجھائے رکھنے کے ساتھ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی ایٹمی طاقت سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے استحصال کر رہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’منصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply