
جو قوم بھلا دیتی ہے تاریخ کو اپنی
پھراس کا جغرافیہ باقی نہیں رہتا
آثارِقدیمہ بلاشبہ قوموں کی تاریخ کے امین ہوتے ہیں۔عراق میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں، تینوں مذاہب کی طویل تاریخ آثارِ قدیمہ کی صورت میں محفوظ تھی۔کہا جاتا ہے کہ خلیجی جنگ کے وقت میں بالخصوص نیشنل میوزیم اور قرآن لائبریری سے بہت سارے نوادرات محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے مگر بعد ازاں انہیں محفوظ رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ عراق پر امریکی حملے نے جہاں بے شمار لوگوں کو پریشان کیا وہیں ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس سلسلے میں پہلے ہی سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مغربی ماہرین آثار ِقدیمہ ان نوادرات کی تباہی پر زیادہ شور مچا رہے ہیں جو عراقی عوام کے ذریعے برباد ہوئی ہیں۔ امریکی بمباری کے نتیجے میں جو تاریخ فنا ہو رہی ہے اس کا درد، انہیں کم ہے۔
عراق کو کبھی ’’ثقافت کی گود‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ عالم اسلام کی کتابیں ترکی میں لکھی جاتی ہیں ، مصر میں چھاپی جاتی ہیں اور عراق میں پڑھی جاتی ہیں۔ یہ خطہ اپنے علم اور عظیم تاریخی ورثے کے لحاظ سے پوری دنیا میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ’’ار‘‘ کے مقام پر پیدا ہوئے اسی ریاست کا صدر مقام ’’اسیریا‘‘تھا یہیں سے بابل ونینویٰ کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ عراق کے ریت کے ٹیلوں کے نیچے قدیم تہذیبیں دفن ہیں جن کا دریافت کیا جا نا ابھی باقی ہے۔ مغربی ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں آثارِ قدیمہ کی تلاش اور دریافت کا کام جاری ہے مگر عراق میں صدام حسین کی حکومت کی وجہ سے یہ کام انتہائی دشوار تھا جب کہ ان کے مطابق اسرائیل میں اس کام کے لیے بے تحاشہ فنڈز موجود ہیں مگر یہاں فلسطین حریت پسندوں کی مزاحمت نے کھدائی کے زیادہ تر منصوبوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور ماہرین آثارِ قدیمہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ صدام کے زوال کے بعد عراق کے آثار قدیمہ اور نوادرات کے ساتھ کیا ہو رہا۔ اس تفصیل سے پہلے ہمارا یہ جاننا ضروری ہے وہ کون سی تہذیبیں اور آثارہیں جو عراق کی سر زمین میں موجود ہیں۔
(i) ام العقرب:
جنوبی عراق میں ناصر یہ کے قریب ’’سمیری‘‘ دور کے ۲۷۰۰سال پرانے آثار ہیں اس جگہ کو ام العقرب (یعنی بچھو کی ماں) کے نام سے جانا جاتا ہے۔امریکی ماہر آثار قدیمہ جان رسل کہتے ہیں’’ یہاں کی حالت دیکھ کر رونے کو دل کرتا ہے۔ مقامی لوگ اپنے ہی ماضی کی اہم یاد گاروں کو کس بیدردی سے لوٹ رہے ہیں‘‘۔
(ii) نیشنل میوزیم اور قرآن لائبریری:
عراق کے نیشنل میوزیم کو قدیم نوادرات کے ذخائر میں اہم مقام حاصل ہے یہاں پر عرب کے’’ شریف حسین‘‘ سے لے کر سلطنت عثمانیہ اور حضرت عمر ؓ کے دور کے خطوط، نقشے اور دیگر نوادرات محفوظ تھے۔ حالیہ لوٹ مار میں یہ تمام چیزیں یا تو لوٹ لی گئیں یا پھر جلا دی گئیں۔نیشنل میوزیم کی تباہی کا اہم معاملہ یہ ہے کہ اس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر قابض فوج کے مراکز موجود تھے اور لوٹ مار اور جلائے جانے کے دوران قابض فوجی قریب کھڑے تماشہ دیکھتے رہے۔ ایک روز تپتی دوپہر میں عراق کے آثار قدیمہ کے حکام نے حسن نامی ایک لڑکے کو نوادرات کی چوری کے لیے کھدائی کرتے ہوئے گرفتار کیا تو اس کا جواب بڑا سادہ تھا ’’ہم غریب ہیں‘‘ تحقیقات سے پتہ چلا کہ نوادرات ۱۰سے ۱۵ ڈالر میں بیچ دیئے جاتے ہیں اگر یہی نوادرات امریکا، یورپ اور جاپان میں بیچے جائیں تو ایک لاکھوں ڈالر میں بک جائیں۔
بغداد کے عجائب گھر میں چوری ہونے والے نوادرات کی تعداد ۸۰۰۰ ہے جن میں سے۳۰ غیر معمولی تاریخی نوعیت کے تھے۔ مشرقی وسطیٰ کے ایک ممتاز اسکالر اور مصنف جوزف بہروڈ کو اسی ماہ عدالت نے تین اہم نوادرات امریکا اسمگل کرنے کا مجرم قرار دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوٹ مار ہر سطح پر ہو رہی ہے۔
(iii) ار:
ار کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے،اس کاصدر مقام’’اسیریا‘‘ تھا۔ انہیں سے بابل ونینویٰ کے حالات کا پتہ چلتا تھا۔ قدیم ’’سمیری‘‘ شہر ۴۰۰۰ سال پہلے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ یہاں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مقامی گائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ حالت میں یہ گائیڈ یا تو لوٹ لیے گئے یا پھر کہیں فرار ہو چکے ہیں۔ ار کے شاہی محلات ۱۹۲۰ء میں سرلیونارڈوو لے نے ۲ مقامی لوگوں کی مدد سے دریافت کئے۔ نویں صدی عیسوی کا بنا ہوا مخروطی مینار اور ۴۰۰۰ سال پرانازگ زیگ انداز کا بنا ہوا مینار Mesopotamian تہذیب کے آسمان کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مغربی ماہر آثار قدیمہ ہنری رائٹ لکھتا ہے کہ میں۱۹۶۶ء میں ’’ار‘‘ کی سر زمین کے مطالعہ کی غرض سے یہاں آیا تھا۔ اس وقت وہاں کے قبائلی امراء نے بیش قیمت نوادرات کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ عراق کے ماضی کو محفوظ رکھا جا سکے۔
(iv) بابل و نینویٰ:
بابل ونینویٰ کی تاریخ کو انسانی تاریخ میں اہم ترین مقام حاصل ہے۔’’آشوری‘‘ حکومت کے مرکز نینوا عظیم الشان باغات، گنبد اور شاہی لائبریری کے آثار عراق کے جدید شہر ’’موھل‘‘ کے قریب واقع ہیں۔ اب یہ آثار سورج کی شعاعوں، بارش اور چوراچکوں کے لیے کھلے پڑے ہیں۔ نینویٰ کے بادشاہ Sennacheub کے محل کے نوادرات کھلے پڑے ہیں اس کی حفاظت کرنے والی دھاتی چھت چرائی جا چکی ہے۔اس کے نوادرات کی قیمت کا اندازہ محض ایک ٹکڑے کی قیمت لاکھوں ڈالر کے قریب ہے۔ اس محل کا ایک ٹکڑا۱۹۹۰ء کی دہائی میں کسی طرح لندن پہنچ گیا تھا مگر بعد میں ایک طویل عدالتی جنگ کے ذریعے عراق پہنچایا گیا۔
(v) نمرود کے سونے کے ذخائر:
کم از کم تین سو صدیوں سے چھپا ہوا خزانہ جو کہ قدیم دنیا کا ایک عظیم ترین خزانہ سمجھا جاتا ہے یعنی نمرود کے دور کے جواہرات ایک بار پھر دنیا کی نظروں کے سامنے آگئے ہیں۔ یہ خزانہ’’آشوری‘‘ حکومت میں شاہی خزانے کا حصہ بنا لیا گیا تھا اس کے بعد ۱۹۹۰ء کی خلیج کی جنگ سے محض چند ماہ پیشتر عراقی حکومت کے ہاتھ لگا اور عوام کے لیے نمائش کی گئی بعد میں حفاظت کے نقطہ نظر سے اس کو بغداد کے مرکزی بینک میں چھپا دیا گیا۔ موجودہ بمباری میں اگرچہ مرکزی بینک پر بمباری کی گئی ، جلایا گیا توڑ ا پھوڑا گیا مگر اس خزانہ کو آنچ بھی نہ آئی۔ جون کے مہینے میں یہ نوادرات دنیا پر ظاہر ہوئے ، قدیم ماہر آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ تاج ، بندے ! بریسلٹ کے ذخائر دنیا کے قدیم سونے کے زیورات میں خوبصورت ترین ہیں۔
نمرود:
آشوری دور حکومت کے اس حکمران کو عیسائی اور مسلم مذہب میں ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر جانا جانتا ہے مگر اس کے دور میں کہا جاتاہے کہ تجارت اور فنون لطیفہ اپنے عروج پر تھا۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ عراق میں نمرود کے دور میں منقش نقش و نگار زیر زمین محفوظ ہوں گے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال ہے اب جب کہ عراق کا مستقبل غیر یقینی ہے تو ان شاندار آثار قدیمہ کے دریافت کے مستقبل کی بھی کوئی ضمانت دینا مشکل ہے ، دجلہ کے کنارے آباد موصل شہر کے آثار قدیمہ بھی تباہی کا شکار ہیں۔ان علاقوں کا سروے کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس مقام پر بھی عراقی ملیشیا کا کیمپ تھا جن اہم مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔
مندرجہ بالا آثار قدیمہ کے علاوہ عراق میں بے شمار نوادرات اور نشانات موجود تھے مگر دو دفعہ جنگ بالخصوص موجودہ امریکی حملے نے ان نوادرات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا۔ امریکہ کے ’’عراق کی آزادی کے آپریشن‘‘ نے سات ہزار سال پرانی تاریخ کو چند دنوں کے اندر رکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ امریکی فوجوں کے بغداد پر حملے کے دو دن بعد ایک منظم طریقے پر عراق کے قومی عجائب گھر کو لوٹا گیا اور اس دوران امریکی فوج محض چند قدم کے فاصلے پر تماشہ دیکھتی رہی۔
اس کے بعد نیویارک کے میٹر و پولیٹن میوزیم میں دجلہ اور فرات کی تہذیب کے بیش بہا خزانوں کے نوادرات کی نمائش ایک سوالیہ نشان ہے۔اس نمائش میں’’ار‘‘ اور Mesopotamian تہذیب کے ۴۰۰ آرٹ کے نمونے موجود تھے۔
اس تمام تباہی کے الزام سے بچنے کے لیے بش انتظامیہ اور امریکی فوجوں نے اس ’’ثقافتی نسل کُشی‘‘ کو غیر متوقع قرار دیا ہے۔۱۵ اپریل کو سینٹ کو م میں بریفنگ کے دوران امریکی جنرل و سنٹ بروک نے کہاکہ:
’’میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ عراق کے خزانے عراق کے عوام کے ہاتھوں لوٹ لیے جائیں گے‘‘
’’ہم نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ، بس ایسا ہوگیا‘‘
حقیقت یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ حملہ کرنے سے پہلے اس بات سے اچھی طرح با خبر تھی کہ عراق میں کس قدر عظیم ثقافتی ورثہ موجود ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اس بات پر سخت فکر مند تھے کہ جنگ کی صورت میں کیا نقصان ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ ’’آرکیا لوجیکل انسٹیٹیوٹ آف امریکا‘‘ نے باقاعدہ رسمی طور پر آگاہ کیا تھا اور “No Strike List” تیار کی تھی جس میں نیشنل میوزیم بھی شامل تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ عراق کے آثار قدیمہ کی تباہی کی صورت میں دنیا بھر کی تاریخ گم ہو رہی ہے۔یہ محض عراقیوں یا مسلمانوں کی تاریخ نہیں تھی، یہ پوری انسانیت کی تاریخ تھی۔ ایک عراقی ماہر آثار قدیمہ عبدالرزاق محمد کے مطابق ’’ کسی ملک کی شناخت، روایت اور تہذیب اس کی تاریخ سے منسلک ہوتی ہے اگر کسی ملک کی تہذیب ختم ہو جاتی ہے جیسے کہ ہماری ہو رہی ہے تو وہ ملک ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
عبدالرزاق کے الفاظ دراصل امریکی حکومت پرگہرا طنز محسوس ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم عراق کو آزاد کرا رہے ہیں’’ ’’عراق آزاد نہیں ہو رہا ختم ہو رہا ہے‘‘۔
(بشکریہ: ماہنامہ مجلہ ’’سویدا‘‘ کراچی)
………………………………………………………
سرزمین عراق محض اس وجہ سے مشہور نہیں کہ یہ قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز ہے بلکہ اس خطہ نے دنیا کو لکھنا اور پڑھنا سکھایا، یہ حق وباطل کی جنگ کا اولین مرکز ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کی خدائی کے خلاف کبریائی کا اعلان کیا۔ حضرت یونس، ایوب اور عزیرعلیہم السلام نے اسی سر زمین پر کلمہ توحید بلند کیا، حضرت نوحؑ کی بعض یادگاریں بھی پائی جاتی تھیں! بابل ونیوا کے آثار بھی یہیں ہیں۔ (واضح رہے کہ عراق ، مصر اور سندھ انسانی تہذیب کے ابتدائی خطے ہیں جہاں سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔) آنحضور ﷺ اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اس سرزمین کو خاص اہمیت حاصل رہی، بعض جلیل القدر صحابی ؓ نے بھی اس کو اپنا مسکن و مستقر بنا یا۔کوفہ ، بصرہ ، نجف بغداد اور دوسرے شہروں میں بے شمار تاریخی آثار موجود تھے، بعض محققین کے مطابق یہ سرزمین جزیرۃ العرب کا حصہ ہے اور ’’عربی زبان‘‘ نے یہیں سے جنم لیا۔ عراق اور عرب کی یہ تہذیب و ثقافت اس کے قومی عجائب گھر (نیشنل میوزیم) میں محفوظ تھی، بے شمار تاریخی نودرات اور قدیم شہر (حمورابی کے) بابل کی تاریخی یادگاریں بھی یہاں تھیں، گویا میوزیم ہی نہیں بلکہ ۷ ہزار سال کی تاریخ کا جیتا جاگتا شاہکار تھا۔ لیکن اب یہ آثار امریکی بمباری کے نتیجے میں یا تومٹ چکے ہیں یا ایسی حالت میں نہیں رہ گئے کہ جن کی شناخت کی جا سکے آج اس سرزمین پر نمرود کے وارث دنیا کی اعلیٰ ترین فوجی طاقت کے ذریعے قابض ہو چکے ہیں۔ آج کے نمرود نے صلیبی جنگ کے نام پر اسے تاخت و تاراج کر دیا۔دھوکا، فریب ، جھوٹ یہ سب ہتھیار استعمال ہوئے اور صرف ہتھیار نہیں بلکہ بہت سے مسلمان بھی اسی طرح استعمال ہورہے ہیں جس طرح ہلاکو کے ہاتھوں بغداد کی تباہی میں وزیر اعظم ابن علقمی استعمال ہو ا اور نصیرالدین طوسی نے ہلاکو کے مشیر کے فرائض سرانجام دیتے۔
تیل کی دولت کے ساتھ ساتھ آثار ، تہذیب و تاریخ اور عصمت و عفت کی دولت بھی لوٹی جا چکی ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن اور امریکی استعماریت کا ہدف صرف سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی بھی ہے اور تاریخ کی مخصوص تعبیر ا س کا ایک پہلو ہے۔
Leave a Reply