ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا میں ایک ایسی سپر پاور تھی جو اپنے ایک حریف ملک کے مسلسل اور تیز رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جانے سے بہت حاسد تھی۔ وہ اپنے حریف ملک کے ساتھ کسی حد تک توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی فوج پر دولت خرچ کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دوسری ضروریات نظرانداز ہوکر رہ گئیں اور بالآخر وہ بیٹھ گئی۔
آج اس کہانی کو دہرانے کا وقت ہے کیونکہ اس میں بھی دانش پر مبنی دیگر کہانیوں اور کہاوتوں کی طرح سچائی کا عنصر موجود ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کہانی کو جیتی جاگتی صورت میں وقوع پذیر ہوتا دیکھیں۔ البتہ حیرت انگیز طور پر اس کے کردار پہلے سے مختلف ہوں گے۔
آئندہ ایک یا دو عشروں تک دنیا میں ایک ہی سپر پاور کا راج رہے گا‘ جس کا نام امریکا ہے۔ چین کا ایک سپر پاور کی حیثیت سے عروج ناگزیر معلوم ہوتا ہے لیکن جو چیز نہایت قابلِ توجہ اور شاندار ہے‘ وہ یہ کہ چین بلارکاوٹ پورے تسلسل کے ساتھ جدت کی منزل کی جانب رواں دواں ہے جب کہ امریکا نے ابھی اس چیلنج کو صحیح معنوں میں محسوس تک نہیں کیا اور وہ سابق سوویت یونین کی مثال کی پیروی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں جب تک چیزوں کا ادراک زیادہ وضاحت سے نہ کیا جائے امریکا اپنی خود اعتمادی کے زعم میں اپنی سلامتی کو نظر انداز کر بیٹھے گا۔ اس صورتحال کو چینی ’’ایک تاریخی غلطی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
پینٹاگون نے گزشتہ ماہ چین کی فوجی قوت کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ پچاس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ چین فوجی اعتبار سے امریکا کے ہم پلہ بننے کے لیے پُرعزم ہے اور وہ مشرقی ایشیا کے خطے کے ممالک میں ایک ممتاز قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔ پہلے تو زبان کے انتخاب پر حیرت ہوتی ہے مثلاً ’’ریجنل اسٹیٹ‘‘ (علاقائی ریاست) کا مطلب کیا ہے؟
اور چین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ علاقے کی ایک ممتاز قوت بننا چاہتا ہے اس میں کون سی عجوبے کی بات ہے کیونکہ اس ملک کی طویل تاریخ میں اس خطے میں یہ حیثیت ہمیشہ سے ہی اسے حاصل رہی ہے۔
زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ رپورٹ میں امریکا کے ٹیکس دہندگان کو فوجی اخراجات کے ایک نئے رائونڈ کے لیے جذباتی طور پر ابھارا گیا ہے اور انہیں ایک نئے دشمن یا دوسرے لفظوں میں ایک نئے تزویراتی حریف کا بہکاوا دیا گیا ہے۔
کسی بھی طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں اضافہ کوئی حتمی علاج نہیں ہے اور اس طریقے سے شاید کبھی بھی درپیش چیلنجوں پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔ اس طرح دیگر پیداواری مدوں پر اخراجات کی رقوم میں کمی آتی چلی جائے گی اور یہ روش بالآخر ملک کو زوال کی جانب لے جانے کا سبب بن جائے گی۔
یہ خبط ہمیں اس شبے میں مبتلا کردے گا کہ چین امریکا کو اسلحے کی دوڑ میں ڈال کر اسے ایذا دینا چاہتا ہے۔ یہ سوچ ایک کلاسیکل گیم تھیوری ہوگی جس کے تحت جدت کی طرف گامزن ہوکر امریکا کو حد سے زیادہ ردعمل پر مجبور کرکے تباہی کے راستے پر ڈال دیا جائے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں چین کے فوجی اخراجات پر کئی دو عددی (Double-digit) اعداد و شمار دیے گئے ہیں لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ فوجی بجٹ پر اخراجات حکومت کے کلی اخراجات کی نسبت کم ہیں۔ اس کے باوجود چین فوجی اخراجات کے سلسلے میں اتنا سست رفتار بھی نہیں ہے۔ اس نے گزشتہ برس فوجی اخراجات کے لیے ۳۵ ارب ڈالر مختص کیے جو اس کی جی ڈپی کا ۵ء۱ فیصد ہے۔
اس کے مقابلے میں لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز نے جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ پینٹاگان کے مقابلے میں زیادہ اور بظاہر حقیقت پسندانہ ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق چین نے ۲۰۰۳ء میںجی ڈی پی کا ۷ء۲ فیصد فوجی اخراجات کے لیے مختص کیا‘ اگر ان اعداد و شمار کا تقابل امریکا کے ساتھ کیا جائے تواس نے اس مد پر اپنی جی ڈی پی کا ۷ء۳ فیصد خرچ کیا جو اس اعتبار سے بہت بڑی رقم ہے۔
زیادہ دلچسپ پہلو چین اور امریکا کے فوجی اخراجات کا انداز ہے۔ چین اپنے سوشل سیکٹر کی ضروریات کے بارے میں زیادہ شعور کا مظاہرہ کررہا ہے اور وہ امریکا کے ہم پلہ بننے کے لیے کوئی بے چینی نہیں دکھا رہا۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سستے فوجی سازو سامان پر توجہ دے رہا ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں کے نظام روس سے لائے جارہے ہیں اور اس طرح کے نظام مقامی طور پر تیار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی جارہی۔ جہاں تک مہنگے ایئر کرافٹ کیریئرز کا تعلق ہے ان کے حصول کو فی الحال نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس پینٹاگون جدید ترین ہتھیاروں کے حصول میں زبردست دلچسپی لے رہا ہے۔ جہاں تک پرانے ہتھیاروں کے نظام کا تعلق ہے ان کے بارے میں جو اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں‘ عموماً ان میں موخرالذکر ہتھیاروں کا تذکرہ تک نہیں ہوتا جو تضاد بیانی کی ایک بدترین مثال ہے۔ نیویارک ٹائمز میں لزلی وائن کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا ڈبیس نیو سسٹم تیار کر رہا ہے جس کی ایک مثال C-17 Globemaster-iii کی ہے جس کے ایک یونٹ پر ۲۰۰ ملین ڈالر خرچ آئیں گے۔ کانگریس نے پرانے ایئر کرافٹس کی ریٹائرمنٹ سے انکار کردیا ہے۔
خلائی تحقیق پر اخراجات ایک اور اہم شعبہ ہے اور سپر پاورز کے مابین مقابلے کا ایک روایتی میدان ہے۔ پینٹاگون کے بعض حلقوں میں اس بات پر تقریباً افراتفری کی فضا پائی جاتی ہے کہ چینی اور امریکی سفارتکار ایک دوسرے کو تجاویز دے رہے ہیں کہ وہ دنوں ممالک کو خلائی تحقیق میں تعاون کرنا چاہیے۔ بعض آوازیں خبردار کررہی ہیں کہ انتہائی قابل قدر اور جدید ترین ٹیکنالوجیز میں قریبی تعاون کے رسک کو پیش نظر رکھا جائے۔ اس ضمن میں ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ تعاون کے سلسلے میں چینی درخواست کو پذیرائی دی جائے تاکہ چین کے ایک انتہائی خفیہ اور انتہائی قیمتی راز سے کسی قدر واقفیت حاصل کی جاسکے وہ یہ ہے کہ چین کس طرح چاند پر تحقیق کے لیے انسانی مشن بھیجنے کا اہتمام کررہا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ناسا گزشتہ ایک برس سے کوئی کام نہیں کر رہا۔ ۲۰۰۷ء کے لیے ناسا کا بجٹ ۸ء۱۶ ارب ڈالر ہے سرکاری طور پر چین نے گزشتہ تیرہ برسوں کے دوران خلائی تحقیق کے ہر قسم کے پروگراموں پر مجموعی طور پر ۳ء۱۹ ارب یوآن خرچ کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ڈالر تقریباً ۸ یوآن کے برابر ہوتا ہے۔
امریکا اس چین کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہے جس کی فوجی قوت آنے والے برسوں میں زبردست رفتار سے ترقی کرے گی۔ تائیوان اس کے لیے ایک خطرناک فالٹ لائن (Fault Line) کی حیثیت سے موجود رہے گا۔ اس پر چین کو نگرانی بھی کرنا پڑے گی اور اس معاملے پر دونوں ممالک کو سفارتکاری کے میدان میں بھی جوہر دکھانے پڑیں گے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکا یہ بات سمجھنے میں غلطی پر ہے کہ چین کے چیلنج کی نوعیت بنیادی طو رپر فوجی ہے۔ اسے پیداواری ‘ جدید علوم و فنون اور تخلیقی تصورات کے میدانوں میں پرکھنا چاہیے جس کے نتائج آئندہ دو عشروں کے بعد دنیا کے سامنے آئیں گے۔ کئی اعتبار سے مشرقی ایشیا ابھی تک سرد جنگ کے اثرات سے باہر نہیں نکلا کیونکہ ابھی تک کوریا منقسم ہے‘ جاپان اپنے ہمسائیوں کے ساتھ گوناگوں قسم کے مسائل میں الجھا ہوا ہے جس کی نوعیت علاقائی بھی ہے اور ان کا تعلق تاریخ کے ساتھ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کی معیشت انتہائی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہے اور اس کا سیاسی نظام ابھی ایک حد تک انارکی کا شکار ہے ۔ چین اپنے دعوے کے مطابق ’’پرامن ارتقاء‘‘ کی جانب بڑھ رہا ہے جس کا مقصد دنیا کے اس حصے میں سیکورٹی کا ایک ایسا نیا ڈھانچہ تعمیر کرنا ہے جس میں دونوں ممالک (امریکا‘ چین) کے جائز مفادات کو تحفظ فراہم ہوتا رہے۔
فی الوقت آپ کو اپنی معیشت کو جدید تر بنانے‘ اپنی ورک فور س کو اَپ گریڈ کرنے اور آنے والے برسوں میں طویل مقابلے کے لیے اپنے تصورات کو پالش کرنے کی ضرورت ہے۔
(ترجمہ: ملک فیض بخش ’’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون)
Leave a Reply