
گزشتہ چھ مہینوں کے دوران عالمی معاشی بحران کسی نہ کسی طرح اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنا رہا اور اس عرصہ میں تمام حالات و واقعات پر حاوی رہا ہے۔ بڑی تعداد میں نوکری پیشہ ور لوگوں کا اخراج، خسارہ، نقصانات اور اداروں کے دیوالیے اس طرح بڑھتے چلے گئے جیسے روزانہ عراق اور افغانستان میں لوگ جاںبحق ہوتے ہیں۔ بے روز گار لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اب کوئی نوکری بھی محفوظ نہیں سمجھی جارہی۔
صرف یہ ہی نہیں کہ یہ بحران انسان کے اختیار سے تجاوز کررہا ہے بلکہ اس صورتحال نے مزدوری اور مشقت کرنے والے لوگوں کو واضح کردیا ہے کہ ان کا اپنی زندگیوں پر اختیار کتنا ہے۔ ان کی زندگیاں اور مستقبل تاجر، صنعت کار اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے جو سوائے غیر انسانی سرمایہ داری اصولوں پر چلنے کے کچھ نہیں کرسکتے۔ایک طرف تو ماہر معاشیات اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو واپس اپنے پائوں پر کھڑا کرنا اور اس نظام کو مایوس کن رجحان سے محفوظ رکھنا جانتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی انتشار کی ابتدا ہے۔ اس بے چینی اور اضطراب کے باوجود اس میگزین (Socialist Standard) کے صفحات پر سکون اور اطمینان بخش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ بحران سے پہلے اُن خاموش دنوں میں ہم سوشلزم کی بالکل اسی طرح اور انھی دلیلوں کے ساتھ وکالت کرتے رہے ہیں۔ اس مضمون کو پڑھنے والے کچھ لوگ ضرور حیران ہوں گے کہ سوشلسٹ کو یہ بحران کس طرح متاثر کرتا ہے اور اس پر ہمارا ردِ عمل کیا ہے۔ کیسے ہم مختلف ہوسکتے ہیں ان سے جو بحران کو حل کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں اور ان سے جو سرمایہ دارانہ نظام کے اختتام کی تصدیق کررہے ہیں؟
اصلاح پسندوں کی تجاویز:
بحیثیت مزدور، سوشلسٹ معاشی بحران پر خوش نہیں ہوسکتے جیسا کہ دوسروں کی طرح ہمیں بھی اجرت میں کٹوتی اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوشلسٹ ہونے کے باوجود بھی کوئی شخص اپنے آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ یقین، محنت و مزدوری کرنے والا طبقہ باشمول سوشلسٹ اس معاشی بحران سے زیادہ متاثر ہوگا۔
موجودہ ذہنی بے چینی و اضطراب کے ماحول میں ہر قسم کے اصلاح پسندوں نے مضبوط اور مستحکم طریقوں کی پیشکش کی ہے تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کو درپیش مسائل اور بدترین حالت سے نکال کر ہمیشہ کے لیے مناسب و متوازی بنایا جائے۔ لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد پُراعتماد ہیں کہ ریاست کی زیادہ عمل داری اور مداخلت ایک خوشگوار راستہ تو ہے لیکن اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے جیسا کہ بظاہر ۱۹۳۰ء کی دہائی میں کام کیا گیا۔ یہ یقین قابل بحث ہے لیکن بہت جلد یہ خیالات حقائق کی نظر سے پرکھے جائیں گے۔گو کہ یہ تمام اقدامات زیادہ اور کم موثر ہوسکتے ہیں لیکن پھر بھی یہ بحران کئی سال کھینچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اس حوالے سے صاف پیشن گوئی کرسکے۔
اصلاح پسندوں کا واضح اور صاف مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ لیکن ابھی بھی لیفٹ سے تعلق رکھنے والے کافی افراد اپنے انقلابی موقف کے ساتھ کینیشین (Keynesian) اصلاحات کا نفاذ چاہتے ہیں۔ وہ اس قابل ہیں کہ معاشی نظام میں ریاست کی مداخلت کو سوشلزم کہنے کے تاثر اور غلط فہمی کو دور کرسکیں۔
پرتخیل اصلاح پسندوں نے بینک نیشنلائزیشن کو بہترین مثال کے طور پر اقدامات کا لازمی جزو قرار دیا ہے جس سے بحران پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے اور سوشلزم سے ایک نئے نظام کی بنیاد بھی ڈالی جاسکتی ہے بجائے اس کے کہ وقتی اقدامات سے اس منتشر ہوئے معاشی نظام کو سہارا دیا جائے۔
ان کی سوشلزم کی چھاپ بہت پرکشش تو ہوسکتی ہے اس لیے کہ یہ کسی کو کچھ نہ کچھ مہیا کرتی ہے، لیکن درحقیقت (ایک غلط پہچان کے تحت)یہ ایک قسم کی ریاستی سرمایہ داری کو فروغ دے رہے ہیں۔
’’سوشلسٹ اکوالٹی پارٹی‘‘ امریکا نے گزشتہ ستمبر ۲۰۰۸ء میں جب ’’لیھ مین برادرز‘‘ کا دیوالیہ ہوا تو انتہائی وثوق کے ساتھ کچھ مطالبات ’’سوشلسٹ پروگرام‘‘ کے تحت پیش کیے۔
’’پورے مالی نظام کو نجی ہاتھوں سے لے لیا جائے اور محنت و مزدور طبقہ کے جمہوری اختیارات کے ماتحت ’’پبلک یوٹیلٹی‘‘ کے انداز سے نیشنلائز کیا جائے، جس کے ساتھ چھوٹی ملکیت رکھنے والے افراد اور شیئر ہولڈرز کو تحفظ بھی حاصل ہو۔ اسے لوگوں کی معاشرتی ضروریات کے مطابق ترقی اور پیداواری قوتوں کو بڑھانے کے لیے وقف ہونا چاہیے تاکہ غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکے اور بڑے پیمانے پر پوری آبادی کا معیار زندگی اور ثقافت کو بہتر کیا جاسکتے۔
[english]The wall street crisis and the failure of American Capitalism[/english]
مصنف ’’بیری گرے‘‘ نے اس مطالبہ کو ’’سوشلسٹ پروگرام‘‘ کے ایک حصہ کے طور پر پیش کیا ہے جس میں اربابِ اختیار کے مستقبل اور ذاتی مفادات سے زیادہ لوگوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھا ہے۔ کیونکہ اس نفع بخش نظام میں امریکا معاشی اور سیاسی بحران کے لیے کوئی اور حل نہیں۔ لہٰذا ہم مصنف کے پیش کردہ نیشنلائزڈ نظام کو صرف سوشلسٹ سوسائٹی کے تحت چلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ یا پھر وہ معاشرہ جو ’’سوشلسٹ پروگرام‘‘ کی تقلید کرے۔
لیکن ایسا سوشلزم جس کو سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہو وہاں وہی معاشرہ اور مالیاتی نظام جنم لے گا جہاں اشیا کی خرید و فروخت اور پیداوار صرف پیسہ اور مارکیٹ کے لیے کی جاتی ہے۔ وہاں اس بات کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی کہ معاشرے کی بنیاد لوگوں کی ضرورت کے مطابق ہو جو کہ ان کا جمہوری حق ہے۔
یہ کہنا درست ہوسکتا ہے مالیاتی نظام ’’پبلک یوٹیلیٹی‘‘ کی صورت میں محنت و مزدور طبقہ کے جمہوری اختیار کے تحت ہوگا۔ لیکن اس کا عملی طور پر کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ (یہاں تک کہ ’’سوشلسٹ پروگرام‘‘ از خود اپنے وعدہ ’’لوگوں کی ضروریات کو ارباب اختیار کے ذاتی مستقبل و مفادات پر ترجیح دینا ‘‘ سے تھوڑا بہت دھوکا کھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جو کہ فطری طور پر مالدار اور حاکم کے وجود کو جاری رکھتا ہے)۔
لیکن پھر بھی ہم ’’سوشلسٹ اکوالٹی پارٹی‘‘ کو سرہائیں گے کہ جس نے نیشنلائزیشن کے معاملے پر اہم کردار ادا کیا جیسا کہ کسی بھی ہر اول دستہ کو کرنا چاہیے۔ اور جن کے اقدامات کو کئی سرمایہ دارانہ حکومتیں عملی جامع پہنانے کا سوچ رہی ہیں۔ اور ہم مزید اسے بھی سرہائیں گے اگر بینک نیشنلائزیشن مالیاتی بحران کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن اس تنظیم اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کو اپنے اصلاح پسند اقدامات کو انقلابی بنانے کے لیے ہمارے ہم عصر ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان کا سوشلزم کا غیر مناسب مفہوم ہمارے انقلاب کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
تباہ ہوتا ہوا نظریہ:
دوسری طرف کچھ اصلاح پسند ایک شدید نکتہ نظر رکھتے ہیں اور یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی تباہی کی ابتدا ہو چکی ہے اور اس کو سہارا دینے کے لیے تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس حتمی انتشار کی جو وجوہات پیش کی گئی ہیں وہ تھوڑی بہت تو تبدیل ہوئی ہیں لیکن کچھ دلیلیں وہی ہیں جو ۱۹۳۰ء کی دہائی میں مارکشسٹ پیش کر چکے ہیں کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضاد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے نفع اور فائدہ میں تنزلی کا رجحان ہے۔ لیکن بہت سے لوگ جن میں ’’پیک آئل تھیوری‘‘ سے وابستہ شامل ہے اس انتشار کو سرمایہ دارانہ نظام کے بیرونی قوتوں سے تصادم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ بیرونی قوتیں اس نظام کو مزید پھیلنے اور بڑھنے کی صلاحیت (جو کہ اس نظام کی زندگی کے لیے خون کی حیثیت رکھتا ہے) سے باز رکھتی ہیں۔
صرف یہ ہی نہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں اس حتمی انتظار کی وجوہات پیش کی گئی ہوں بلکہ مختلف حل اور تجاویز بھی موجود ہیں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل ہو سکتی ہیں۔ ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بحران اور انتشار عوام میں انقلابی سوچ اور جذبہ پیدا کر رہا ہے جو کہ لوگوں کو انقلاب کے دوراہے پر کھڑا کر رہا ہے۔ جبکہ دوسرے اس کی تصویر کشی ایک معاشرتی افراتفری کی طویل مدت یا پھر قبل از وقت صنعتی انقلاب کی طرف واپسی کی طرح کرتے ہیں۔
ان مخصوص اختلافات سے قطع نظر سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی انتشار کا نظریہ ہمارے عمل سے قطع تعلق کسی بڑی تاریخی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے اور سوشلزم کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کر کے جو کہ مزدوروں کے باشعور فیصلوں اور عمل کی بنیاد پر ہے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اختتام کو حاصل کر سکیں گے اور یہ ٹوٹ پھوٹ اور تباہی ہیجان خیز معاشرتی تبدیلی کا سبب بنے گی جو کہ بہتر یا بدتر ہو سکتی ہے۔
یہ حیران کن بات ہو سکتی ہے کہ آخر اس عبوری مدت میں کس قسم کا معاشرہ جنم لے گا۔ بہرکیف اس کی تعریف قدیم زمانے کی تباہی اور نئے زمانے کی ارتقاء کے درمیان ہو سکتی ہے۔ اسے ’’غیر سرمایہ دار‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن وہ کون سی امتیازی چیز ہو گی جو ان دونوں کے درمیان موجود ہو گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ معاشرہ غیر سرمایہ دار ہو سکے اور کسی دوسرے سے بھی لاتعلق رہے؟
انقلابی سوچ رکھنے والے لوگوں کے لیے ان تمام الجھنوں کی وجہ بالکل ایسی ہی ہے جیسی اصلاح پسندوں نے نیشنلائزیشن اور سوشلزم کے درمیان الجھن پیدا کی ہے جنہیں سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں واضح شعور اور فہم حاصل نہیں۔ اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے اہم ترین اصولوں کے مطابق سمجھنے جو کہ اشیا کی خرید و فروخت اور منافع کے لیے ان کی پیداوار کا نظام ہے۔ کے باوجود وہ سرمایہ دارانہ نظام کی مختلف شکلوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
یہ بات یقینا درست ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کسی حد تک یا پھر کچھ حکومتیں بحران کا شکار ہوئی ہیں لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ازخود انتشار نہیں۔ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں جرمنی میں ’’ویمر‘‘ (Weimer) حکومت کا گرنا نمایاں مثال ہے جو کہ ایک فاشسٹ دور حکومت کے ماتحت تھی۔ کئی سال قبل جرمنی بھی معاشی بحران، سیاسی تبدیلی اور انقلابی جنگ سے گزرا تھا۔ یقینا بالکل سچائی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جرمنی کی تہذیب کی تباہی اور بربادی کا دور تھا لیکن پھر بھی اس کا پورا سرمایہ دارانہ نظام صحیح اور سالم رہا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے انتشار کے بارے میں بات کرنا آسان ہے اگر کوئی شخص سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں کوئی واضح فہم نہ رکھتا ہو۔ اور اگر اس نظام کا شعور نہیں تو سوشلزم بھی اس شخص کے لیے بالکل دھندلا ہو گا جیسا کہ ان اصلاح پسندوں کے لیے کہ جنہوں نے ریاستی سرمایہ داری کو سوشلزم کی بنیاد سمجھا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ معاشی اور سیاسی انتشار کے درمیان تفریق کی جائے اور سرمایہ دارانہ نظام کے ازخود اختتام کو سمجھا جائے جو کہ صرف مزدور طبقہ ہی سوشلزم کے ذریعے تبدیل کر سکتا ہے۔
(بحوالہ: “Socialist Standard” ۔ ترجمہ: فرقان حسین انصاری)
Leave a Reply