آج دنیا بھر میں جمہوریت کو خطرے میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آمریت کے ادوار آتے جاتے رہتے ہیں۔ آمریت اب شکل بدلنے لگی ہے۔ بعض جمہوری معاشروں میں ایک خاص طبقہ اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ تمام فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اقتدار و اختیار کے تمام مآخذ پر اثر انداز ہوکر اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاملات مزید الجھتے ہیں اور عام آدمی کے لیے زندگی دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں حقیقی نمائندگی کا فقدان ہے۔ منتخب ایوانوں پر وہ لوگ متصرف ہیں جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں اور یوں اُن کے ہاتھوں میں تمام وسائل اُن کی مرضی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، معاملات درست ہونے کا نام نہیں لیتے۔ تمام ہی شعبوں پر ایک خاص طبقے کا واضح اثر و نفوذ دکھائی دیتا ہے۔
دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) نے حال ہی میں سالانہ ڈیموکریسی انڈیکس کے ذریعے بتایا ہے کہ امریکا میں جمہوریت انتہائی ناقص ہے اور اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلکہ مکمل جمہوریت اُس کے پڑوسی کینیڈا میں پائی جاتی ہے۔ ای آئی یو کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو کچھ ای آئی یو نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے وہ آج کی دردناک حقیقت ہے۔ آج دنیا بھر میں جمہوریت انتہائی مخدوش حالت میں ہے اور امریکا جیسے جمہوریت کے علم بردار ملک میں بھی جمہوری اقدار کی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے ترکے کو ذہن نشین رکھ کر سوچا جائے تو مایوسی ہوتی ہے کہ امریکا جیسا جمہوریت کا علم بردار ملک ہی جمہوری اقدار کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکی ایوانِ صدر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جو چار سالہ اسٹنٹ کیا اُس نے پوری دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے شدید نوعیت کی قنوطیت کو بڑھاوا دیا ہے۔
جمہوریت کے نقطۂ نظر سے ۲۰۲۰ء خاصا مایوس کن سال تھا۔ دنیا بھر میں حکومتوں نے پارلیمان کے چیک اینڈ بیلنس کو محدود کیا، بہت سے ممالک میں انتخابات کو ملتوی یا منسوخ کردیا گیا، عوام کے احتجاج کا دائرہ محدود کردیا گیا، رائے کے اظہار کی آزادی پر بھی قدغن لگائی گئی اور تعلیم و صحتِ عامہ سمیت بہت سے معاملات میں شدید نوعیت کی بدعنوانی کو راہ ملی۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جمہوریت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے۔ ہانگ کانگ میں چین نے جمہوریت کی راہ روکی ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ عرب دنیا میں اور بالخصوص خلیج فارس کے خطے میں معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں۔ آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ بادشاہتوں کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر اس قدر زور دیا جارہا ہے کہ عوام میں غصہ اور مایوسی دونوں ہی کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف سخت گیر رویہ عام ہوتا جارہا ہے۔ مصر میں عشروں کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت کو محض ایک سال بھی برداشت نہیں کیا گیا اور فوج نے دوبارہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ شمالی افریقا کے علاوہ لاطینی امریکا کی صورتِ حال بھی مایوس کن ہے۔ وسطِ ایشیا میں بھی جمہوریت کے پنپنے کے امکانات مخدوش ہیں۔ ای آئی یو نے جمہوریت کے حوالے سے جو عالمی تصویر پیش کی ہے وہ واقعی محض پریشان کن نہیں، مایوس کن بھی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج دنیا بھر میں پارلیمانی جمہوریت کو نیچا دکھانے کی کوششیں زور پکڑ رہی ہیں؟ پارلیمنٹ کے ذریعے جوابدہی کی روایت کو کمزور کرنے کے لیے آمرانہ ذہنیت کے لوگ میدان میں آگئے ہیں۔ ہر طرح کی بدعنوانی کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ حقیقی نمائندگی کا عَلم بلند کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کی خاطر میدان میں آنے سے گریز کریں۔
بدعنوانی کے لیے اچھا موقع
ای آئی یو نے کئی سال سے اپنے سروے اور رپورٹس میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار اور جمہوریت پسندی کے کلچر کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے اور نیچا دکھانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں میڈیا کے ذریعے یہ نکتہ ٹھونسا جارہا ہے کہ جمہوریت کوئی ایسا عمل نہیں جس سے بہتر زندگی کی راہ نکلتی ہو۔ عوام کے منتخب نمائندوں میں بھی بدعنوانی تو پائی جاتی ہے مگر اس بدعنوانی کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ عوام کی آرا سے منتخب ہونے والے تو ہوتے ہی بدعنوان ہیں اور یہ کہ اُن سے ملک و قوم کی بھلائی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ رہی سہی کسر کورونا کی وبا نے پوری کردی۔ دنیا بھر میں حکومتوں نے سخت گیر رویہ اپناتے ہوئے جمہوری اقدار کو مزید پامال کرنے پر توجہ دی ہے۔ عوام سے رائے طلب کیے بغیر اُن پر فیصلے تھوپے جارہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے کرپشن ٹرانسپیرنسی انڈیکس (سی ٹی آئی) کے ذریعے بتایا ہے کہ ۱۸۰ممالک کا سروے کیا گیا اور معلوم یہ ہوا کہ ان میں سے دو تہائی میں بدعنوانی غیرمعمولی حد تک پائی جاتی ہے۔
کورونا کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کے باعث بڑے پیمانے پر مالیاتی دشواریاں پیدا ہوئیں۔ پس ماندہ ممالک کی حالت بہت بُری ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ کورونا کی ویکسین آچکی ہے اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ویکسی نیشن کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ معیشتیں بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ اور بالخصوص صنعتی ممالک نے اپنی معیشت کو نئی زندگی دینے سے متعلق جو اقدامات کیے ہیں وہ پوری دنیا کے لیے اچھی خبر لائے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کو بھی اب معیشتی بحالی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ملے گا۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں بھی بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ معیشتوں کی بحالی کا عمل شروع ہونے سے معاملات بہت حد تک درستی کی طرف مائل ہوں گے۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جہاں حکمرانی کا معیار ہی پست ہو وہاں کیا ہوسکے گا۔ دنیا بھر میں ایسی حکومتوں کی تعداد کم نہیں جو پست معیار کی حکمرانی کے ہاتھوں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں ملک کا نظم و نسق ہے اُن میں مطلوب اہلیت ہے نہ کچھ کر دکھانے کا عزم۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاملات ویسے ہی رہیں جیسے ہیں یعنی کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب معاملات یہ ہوں تو کوئی بھی بڑی اور مجموعی طور پر مثبت تبدیلی کیونکر آسکتی ہے۔ حکومتوں کی بدعنوانی پر نظر رکھنے والے ادارے بہت مایوس کن تصویر پیش کر رہے ہیں۔ بدعنوانی کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا میں بیشتر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ معاملات کو درست کرنے کے بجائے قرضے لے کر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ یہ کیفیت اب خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ لبنان اور جنوبی افریقا کی مثال بہت نمایاں ہے۔ ان دونوں ممالک کے اندرونی اور بیرونی قرضے تباہ کن سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ جنوبی افریقا کی حکومت نے کورونا کی وبا کے دوران برملا کہا کہ وہ کسی بھی اعتبار سے اس پوزیشن میں نہیں کہ عوام کے لیے کچھ کرسکے اور اس کا سبب یہ ہے کہ خزانے میں کچھ ہے ہی نہیں۔
ترقی پذیر دنیا کا مالیاتی بحران بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ حکومتیں قرضے لے لے کر کام چلاتی آئی ہیں۔ یہ سب کچھ مزید نہیں چل سکتا۔ اندرونی قرضوں کا حجم حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے۔ سبھی پریشان ہیں کہ اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے پائیں۔ نجی شعبے کی مدد سے کچھ کرنا بھی اب ممکن نہیں رہا کیونکہ وہ صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے غیرمعمولی حد تک محتاط ہوچکا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ایک عشرے قبل پرائیویٹ انویسٹمنٹ منیجرز نے حکومتوں کو نجی شعبے سے قرضے لینے کا راستہ سجھایا تھا۔ اب یہ سب کچھ بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اس وقت درمیانی اور کم آمدنی والے ۱۲۰ سے زائد ممالک کے بیرونی قرضوں کا ۸۵ فیصد خالص غیررعایتی نوعیت کا ہے، یعنی جو کچھ بھی واجب الادا ہے وہ ہر حال میں ادا کرنا ہی ہے۔ پنشن کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ عالمی بینک کے ماہرین معاشیات پیٹر نیگل اور ناؤتاکا سُگاوارا نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مزید ممالک کے دیوالیہ پن کی حد تک پہنچنے کے خدشات برقرار ہیں۔ ان دونوں ماہرین معاشیات نے پھر بھی کچھ محتاط رہتے ہوئے بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا کے بیشتر ممالک دیوالیہ ہو ہی جائیں گے۔ لبنان، ارجنٹائن اور زیمبیا کی طرح اُنہیں معیشتی ڈھانچے کی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ قرضوں کی بنیاد پر جینے والے ممالک کا یہی انجام ہوتا آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قرضوں میں دبے ہوئے ممالک میں سے کم و بیش ۴۰ فیصد انتہائی نوعیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بہت سے ممالک کو بیل آؤٹ پیکیج دے کر معیشت کی بحالی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد دی ہے۔ یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کا امریکا اس حوالے سے اپنا کردار اداکرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اب جی سیون ممالک نے قرضوں تلے خطرناک حد تک دبے ہوئے ممالک کو نئی زندگی دینے کے حوالے سے کچھ سوچا ہے تو امریکا نے بھی منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ صدر جوزف بائیڈن اس معاملے میں خاصی دلچسپی لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کئی ممالک کے لیے بیل آؤٹ پیکیج تیار کیے ہیں اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اب کے موسمِ گرما کے دوران ہی متعدد ممالک کو بیل آؤٹ پیکیج دے دیا جائے گا۔ مالیاتی امور کے بہت سے ماہرین اس صورتِ حال کو بھی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیل آؤٹ پیکیجز سے بھی بعض ممالک مزید قرضوں تلے دب کر رہ جائیں گے۔
قرضوں تلے خطرناک حد تک دبے ہوئے ممالک کے عوام کو نئی اور بہتر زندگی کی نوید اُس وقت مل سکے گی جب اُن کے قرضے معاف کردیئے جائیں۔ ایسا ہوگا تو جمہوریت بھی پروان چڑھ سکے گی۔ جب تک قرضوں کا بحران ختم نہیں ہوتا، عوام کی حقیقی حکمرانی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر پسماندہ ممالک کے قرض خواہ تھوڑی بہت رعایت دیں یعنی ادائیگیاں کچھ مدت کے لیے موخر کردیں تو یہ بھی ایک بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے بحران تو خیر ختم نہیں ہوگا تاہم قرضوں تلے دبے ہوئے ممالک کو سکون کا سانس لینے کا موقع ضرور مل جائے گا۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرضوں تلے دبے ہوئے ممالک کی مدد کرنے کے نام پر کیے جانے والے اقدامات وہاں پھیلی ہوئی بدعنوانی پر قابو پانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کرتے۔ جمہوری معاشروں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی پر قابو پانے سے متعلق کچھ کرنا تو دور کی بات ہے، کچھ سوچا بھی نہیں جاتا۔ یہی سبب ہے کہ بیل آؤٹ پیکیج مل جانے پر بھی بہت سے پس ماندہ ممالک ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پاتے، بدعنوانی برقرار رہتی ہے اور جمہوریت کی کشتی گرداب ہی میں پھنسی رہتی ہے۔ بدعنوانی پر قابو پانے کے حوالے کچھ نہ کیے جانے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج دنیا بھر میں جمہوریت زوال پذیر ہے۔ منتخب نمائندوں کی بدعنوانی پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام لایا ہی نہیں جارہا۔ یہ سب کچھ جب حد سے بڑھتا ہے تب آمریت کو راہ ملتی ہے۔ لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے تو آمریت ہی بھلی۔ کم از کم یہ دکھ تو نہ ہوگا کہ ہمیں ہمارے اپنے منتخب نمائندے لوٹ رہے ہیں۔
چند ایک ممالک نے اپنے طور پر کچھ کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت کا گراف بلند کرنے میں مدد ملی ہے۔ البانیا بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس نے آمریت کو پیچھے دھکیل کر جمہوریت کو خاصے منظم انداز سے پروان چڑھایا ہے اور یوں وہ جمہوری کلچر کے اعتبار سے کی جانے والی درجہ بندی میں اب امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
“Is democracy in decline globally?” (“theglobalist.com”. February 21, 2021)
Leave a Reply