اپنے قیام کے تیس سال بعد فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں قائم ہونے والی تنظیم ’’حماس‘‘ اپنے بنیادی اصول و اقدار پر غور و فکر کر رہی ہے۔یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب تنظیم کی اعلیٰ قیادت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں سامنے آئی ہیں جو کہ ازخود ایک مثبت عمل ہے۔یہ تبدیلیاں کافی عرصے سے زیر بحث تھیں۔
ان تبدیلیوں پر (جو کہ مقامی حلقوں کو اعتماد میں لینے اور اپنے آپ کو بانی تنظیم اخوان المسلمون سے دور رکھنے کے لیے کی گئی ہیں) مشرق وسطیٰ اور مغربی حلقو ں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آنے کی امید ہے۔ جبکہ حماس کی قیادت کا خیال ہے کہ اس رد و بدل سے علاقائی طاقتوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی،جیسا کہ مصر جو کہ کسی بھی ممکنہ ڈیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور یہ بات خارج ازامکان نہیں کہ یہ قدم انھیں اس تبدیلی کی طرف لے جائے گا جس کا مطالبہ بہت عرصے سے یورپی ممالک کر رہے تھے۔
گزشتہ سال، حماس نے مصر سے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کی بھر پور کوششیں کی تھیں۔وہ صدرسیسی کے ملک کو غزہ کے مستقبل کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔
حماس کی بنیاد ۱۹۸۷ ء میں رکھی گئی۔حماس نے اپنا چارٹراس وقت تشکیل دیا جب پہلی تحریک انتفادہ اپنے عروج پر تھی۔ یہ پرعزم نوجوان غزہ کی پٹی میں نہایت جوش اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھے اور جہاد کا نعرہ لگایا۔ حماس نے اسرائیل کی جو تعریف کی وہ یہود مخالف ”Protocols of the Elders of Zion.“ سے مما ثلت رکھتی ہے۔
حماس نے اپنے آپ کو اسلامی مزاحمتی تحریک کے طور پر اور اس وقت کی غالب جماعت ’’فتح‘‘کے حریف کے طور پر متعارف کروایا۔حماس کے راہنماؤں نے PLO کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
جیسا کہ حماس کی قیادت اپنے منشور پر نظرثانی کے لیے تیار ہے، انہوں نے اسرائیل کے خلاف جہاد کی تحریک کو پس پشت ڈال دیا ہے اور نیا منشور راہنماؤں کو کئی عرصے سے فائز عہدوں سے ہٹا ئے گا۔ نظرثانی شدہ چارٹر اس بات کے امکانات پیدا کرے گا کہ حماس کی قیادت فلسطینی ریاست کے لیے سیاسی حل کی طرف آئیں۔ تاکہ ویسٹ بنک، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم میں انہیں ریاست کا ٹھکانہ مل جائے۔ یہ ایک طرح سے حماس کا دو ریاستی حل کی حمایت ہی ہے۔
اس نئی حماس کی حیثیت اور طاقت کا معاملہ یہ ہے کہ تحریک کے بنیاد پرست عناصر، جیسا کہ ’’القسام بریگیڈ‘‘ کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کر لیا ہے۔نظرثانی شدہ منشور حماس کے معتدل راہنماؤں کے اثر ور سوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرح سے یہ مزاحمت پر سیاست کی فتح ہے۔
القسام بریگیڈ کے ’’یحییٰ سنوار‘‘(سنوار IQB کے بانیان میں سے ہیں اور حماس کے ابتدائی دور سے ہیں جب وہ کسی قسم کی مصلحت پسندی سے اجتناب کرتی تھی)کو نئی قیادت میں سابق وزیراعظم فلسطینی نیشنل اتھارٹی اسماعیل حانیہ کی جگہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے اور ان کی تنظیم نے تمام تر فیصلوں کی نہ صرف تائید کی ہے بلکہ اس پر بھر پور تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔
یہ مصالحت پسندانہ ا انداز حما س کے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ازسر نو تعلقات کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر عبد الفتا ع السیسی، اسرائیل اور غزہ کے رہنماؤں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔
اس مصالحت کی فضا میں اس بات کا انحصارمصر پر ہے کہ وہ حماس کو مزاحمت کی راہ سے ہٹا کر سیاسی راہ پر لانے کی کتنی کوشش کرتا ہے۔ حماس کی قیادت، اخوان المسلمون اور صدر مرسی کی ابھرتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے پر امید تھی۔ فوجی قوتوں نے السیسی کی قیادت میں اخوان کا تختہ ۲۰۱۳ء میں الٹ دیا تھا۔ بہرحال، نئی مصری قیادت حماس پر بالکل اعتماد نہیں کرتی اور اسے اسلامی قوتوں کے تناظر میں ایک بڑا مسئلہ سمجھتی ہے۔
گزشتہ سالوں میں حماس کی قیادت نے قاہرہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے اور اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔حماس کی قیادت اپنی حدود سے واقف ہے اور غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینی صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ قاہرہ کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔
مصر نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کی ناکہ بندی میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔جس سے حماس کی حکومت کا اس علاقے میں انسانی بحران پروان چڑھااورمعیشت تباہی کا شکار ہو گئی۔ مگر اس کے باوجود حماس نے اپنی طاقت اور قوت کو ختم ہونے نہیں دیا۔
نظرثانی شدہ منشور حماس کو فلسطین کی تحریک ہونے پر زور دے گا۔یعنی اس بات کا قوی امکان ہے کہ حماس مصر کی اخوان سے اپنے تعلق کو پس پشت ڈال دے گی،جیسا کہ اردن کی اخوان نے کیا ہے۔حماس کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ ریاض اور قاہرہ کی جانب سے دہشت گرد ٹھہرائی جانے والی تنظیم کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا کتنا مشکل ہو گا۔
حماس کا نیا منشور اورآئندہ ہونے والی سیاسی قیادت میں تبدیلیاں بہت اہم ہوں گی۔یہ حماس کو دوبارہ مصری بلاک میں لے آئیں گی۔فتح اور حماس میں اتحاد کی فضا کو دوبارہ پروان چڑھانے کے لیے اورغزہ کے مستقبل کے حوالے سے صدرسیسی کی حکومت کا بڑ ااہم کردار ہے۔فلسطینی سیاست میں موجودہ سیاسی بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کی پٹی تعمیرنوسے محروم رہے گی اور اس کی وجہ سے اسرائیل کی سلامتی کو ہمیشہ خطرہ برقرار رہے گا۔امریکی حکومت صدر السیسی کی مشرق وسطیٰ کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔
(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)
“Is Hamas re-branding to orient towards Egypt?”. (“brookings.edu”. April 9, 2017)
Leave a Reply