کیا حماس واقعی جنگ کی ذمہ دار ہے؟
اویزالبن ایک جرمن ماہر سیاسیات اور صحافی خاتون ہیں جنہوں نے عرب ممالک میں اسلامی تحریکوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور پہلے انتفادہ کے دوران کچھ عرصہ غزہ میں بھی گزارا ہے۔
انہوں نے حال ہی میں غزہ میں جنگ بندی کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ مضمون کے ابتدا میں انہوں نے اس بات کی پرزور تردید کی ہے کہ حماس ایک ریڈیکل اور دہشت گرد تنظیم ہے۔ ان کے مطابق حماس ایک سیاسی جماعت ہے جس کی سماجی خدمات کی وجہ سے فلسطینی قوم میں گہری جڑیں ہیں حماس کا القاعدہ سے بھی کوئی تعلق نہیں، یہ حماس ہی تھی جس نے غزہ میں پناہ لینے والے القاعدہ کے ممبرز پکڑ کر مصر کے حوالے کیے تھے۔ القاعدہ نے اپنی ویب سائٹ میں حماس کی جمہوری عمل میں شرکت کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دے کر تنقید کی ہے۔ جہاں تک ریڈیکل ہونے کی بات ہے حماس کی طرح الفتح کا بھی عسکری ونگ ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا ہے حماس کی طرح الفتح میں بھی لوگ ہیں جو ’’روڈ میپ‘‘ کے خلاف ہیں۔ اگر ان وجوہات کی وجہ سے الفتح کو ریڈیکل نہیں کیا جا سکتا تو حماس کو کیوں ریڈیکل قرار دیا جائے۔
وہ ’’کیا حماس تنہا راکٹ حملوں کی ذمہ دار ہے؟ کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صرف حماس اسرائیلی قصبوں پرراکٹ حملوں کی ذمہ دار ہے۔ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ ان حملوں میں بہت سی تنظیمیں شریک تھیں ان میں قومی کمیٹی کے نصرالدین بریگیڈ، جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین ڈی ایف ایل پی کے قومی مزاحمتی بریگیڈ، قومی محاذ آزادی (پی ایف ایل پی) کے ابوعلی مصطفی بریگیڈ، قومی محاذ آزادی برائے فلسطین جنرل کمانڈو (پی ایف ایل پی )، جہاد اسلامی کے قدس بریگیڈ، حماس کے حامی قسام بریگیڈ اور الفتح کا عسکری ونگ اقصیٰ بریگیڈ شامل تھے اور یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ۲۰۰۷ء گرما میں الفتح کے تمام مسلح دستے غیر مسلح کر دیئے گئے تھے وہ اب تک متحرک تھے۔
حماس صرف ۱۵ فیصد راکٹ حملوں کی ذمہ دار ہے اور ان میں سے بھی آدھی تعداد کا ہدف اسرائیلی فوجی اور فوجی تنصیبات ہی ہیں۔ اسرائیلی قصبے سیدوت پر برسنے والے راکٹوں کی بڑی تعداد کی ذمہ داراقصیٰ بریگیڈ ہے جو الفتح کا عسکری ونگ ہے۔
غزہ پر حماس کے کنٹرول کے چھ ماہ بعد تک زیادہ تر مسلح کارروائیاں اقصیٰ بریگیڈ کے کھاتے میں جاتی ہیں حماس جہاد اسلامی اور قومی کمیٹی کے بعد چوتھے نمبر پر آتی ہے۔
وہ آگے چل کر سُرنگوں کی حقیقت کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسرائیل نے ہر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے اس ناکہ بندی نے غزہ کے مکینوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ سرنگیں کھود کر ضروریات زندگی کی اشیا مصر سے اسمگل کریں اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ ان سرنگوں کے ذریعے ایرانی اسلحہ آ رہا ہے یہ صریح مبالغہ آرائی ہے اور عملی طور پر ناممکن ہے کیونکہ مصر اور ایران میں سفارتی تعلقات تک نہیں ہیں ثانیاً نوے کی دہائی میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد غزہ سے منسلک علاقے کی کئی سالوں سے کڑی نگرانی ہو رہی ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جون ۲۰۰۸ء میں طے پانے والے امن معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس معاہدے کی بنیادیں شروع ہی سے کمزور تھیں اس کے باوجود حماس کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ۵ نومبر تک معاہدے کی پاسداری کی۔ ۴ سے ۵ نومبر کی رات کو حماس کے کئی عہدیدار اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے اس معاہدے کی پہلی کمزوری یہ تھی کہ یہ ایک زبانی معاہدہ تھا۔ کیونکہ اسرائیل کے نزدیک حماس سے تحریری معاہدہ اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا اس معاہدے میں یہ بات طے پائی تھی کہ اسرائیل ۱۰ دن کے اندر سرحدیں کھول دے گا ۔ لیکن معاہدہ ہوتے ہی اسرائیل نے پر اس پر عمل کرنے کے بجائے مزید مطالبات کرنے شروع کر دیئے جس میں اپنے ایک فوجی کی رہائی بھی شامل تھی جو حماس کے قبضے میں تھا۔ جبکہ اسی وقت اسرائیل کے پاس ۹ ہزار فلسطینی قیدی تھے جن میں سے ہر ایک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید تھے۔ ان قیدیوں میں حماس کے ۳۳ ارکانِ پارلیمنٹ بھی شامل تھے جنہیں اسرائیل غزہ سے اغوا کر کے لے گیا تھا۔ اس معاہدے کی کمزوریوں کے باعث حماس دوسرے مزاحمتی گروپوں کی جانب سے مسلسل دبائو کا شکار رہی جو فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور سرحدیں کھولنے کی قطعی تاریخ کا مطالبہ کر رہے تھے۔
۲۴ جون ۲۰۰۸ء کو اسرائیلی فوج نے نابلس میں جہاد اسلامی کے دو نوجوان عہدیداروں کو قتل کر دیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کے عسکری ونگ القدس بریگیڈ نے اسرائیلی قصبے سیدوت پر راکٹ داغے۔ حماس کے وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ نے اس کے باوجود تمام مزاحمتی گروپوں سے ایک ڈرامائی اپیل میں جنگ بندی کا احترام کرنے کو کہا۔ حماس کی حکومت نے اقصیٰ بریگیڈ کو بھی وارننگ دی کہ ان کے اقدامات جنگ بندی کو متاثر کر سکتے ہیں اور اس طرح اسرائیل کو ناکہ بندی مزید طویل کرنے کا جواز مل سکتا ہے بعد ازاں حماس نے اقصیٰ بریگیڈ کے کئی ممبر گرفتار کیے۔
حماس کی طرف سے اس بات کے شبے کا اظہار کیا گیا کہ عباس حکومت اقصیٰ بریگیڈ کے ذریعہ اسرائیل کو اکسا کر جنگ چھڑوانا چاہتی ہے جس کا الزام بعد میں حماس کو دے دیا جائے۔
اس معاہدے کی ایک اور کمزوری یہ بھی تھی کہ کیوں کہ بین الاقوامی برادری نے حماس کو تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ بائیکاٹ کا شکار تھی۔ غزہ سے پھینکے جانے والے راکٹوں پر تو پوری دنیا کی نظر تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے بین الاقوامی مبصرین موجود نہیں تھے۔
۱۹ جون ۲۰۰۸ء یعنی جنگ بندی کے پہلے دن اسرائیل کی جنگی کشتیوں نے فلسطینی ماہی گیروں پر فائرنگ کی۔ اسی دن اسرائیلی طیاروں نے دھماکے پیدا کرنے والے بم پھینک کر غزہ کے رہائشیوں کو خوفزدہ کیا اور اسرائیلی فوجیوں نے خان یونس کے علاقے میں فلسطینی کاشتکاروں پر فائرنگ کی۔ ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخر میں اسرائیل نے ایک سرنگ کے مالک ابوعداب کو پکڑ لیا جو منشیات کا سابقہ اسمگلر بھی تھا۔ اسرائیل کے مطابق تفتیش کے دوران اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے حماس سے پیسے لے کر اسرائیلی فوجی کو اغوا کیا۔ حماس نے اس الزام کی تردید کی لیکن اسرائیل نے بجائے اس کہ وہ مصر کے ذریعے اس الزام کی تحقیقات کرواتا۔ ۴ نومبر کو حماس کے چھ ممبروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔
اس دوران دارالبلاء کے رہائشی علاقوں پر اسرائیل کی طرف سے راکٹ پھینکے گئے۔ وادی سلقہ میں ھواری خاندان کے دو گھر تباہ کر دیئے گئے اور خاندان کے سات افراد کو اغواء کر کے اسرائیل لے جایا گیا جس میں تین خواتین بھی شامل تھے اس دن اسرائیلی فوج نے فرانسیسی قونصل خانے کے عملے کو غزہ جاکر صورتحال کا جائزہ لینے سے روک دیا۔
اگلے دن غزہ کے شمال اور خان یونس کے رہائشی علاقوں پر اسرائیل کی طرف سے گولہ باری کی گئی اور خان یونس میں اسلامی جہاد کے ایک رکن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ان کارروائیوں کے ردعمل کے طور پر حماس اقصیٰ بریگیڈ اور اسلامی جہاد نے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود حماس جنگ بندی ختم کرنا نہیں چاہتی تھی اس نے مصر سے مصالحت کے لیے درخواست کی اور خبردار کیا کہ اگر ناکہ بندی ختم نہیں کی گئی تو مزید تشدد کو ہوا مل سکتی ہے کیونکہ دوسری مزاحمتی تنظیموں نے کبھی بھی اس جنگ بندی کو دل سے قبول نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسرائیل امن کی آڑ میں ایک بڑی جنگ کی تیاری کر رہا ہے (یہ بات صحیح نکلی اس بات کی تصدیق اسرائیل کے فوجی حکام کے مختلف بیانات سے بھی ہوتی ہے) اس لیے دوسری تنظیمیں اور حماس کا اپنا عسکری ونگ قسام بریگیڈ بھی جنگ بندی کے بارے میں تحفظات کا شکار رہا۔
۸ نومبر کو مختلف مقامات پر اسرائیلی بلڈوزر غزہ میں داخل ہوئے اور اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں۔ ۱۲ نومبر کو حماس کے مزید چار اراکین اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اس کے علاوہ ایک بار پھر اسرائیلی طیاروں نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا اس طرح کے واقعات نے دوسری مزاحمتی تنظیموں کو دلبرداشتہ کر دیا۔ ڈی ایف ایل پی نے ۱۳ نومبر کو کہا کہ اسرائیل جنگ بندی نہیں چاہتا بلکہ امن کی آڑ لیکر مزاحمت کو کمزور کرنا چاہتے ہے اسی دن اسرائیل نے اقوام متحدہ کے امدادی قافلے کو غزہ میں جانے سے روک دیا۔ اس طرح کشیدگی بڑھتی گئی اگلے دن تمام تنظیموں نے اسرائیل پر راکٹ برسائے جبکہ اسرائیل نے غزہ کے شمال میں بمباری کی۔
۱۶ نومبر کو اسرائیل کے وزیر مال برداری نے اسرائیل حماس کی مرکزی قیادت کے قتل کا مطالبہ کیا اور ایک حملے میں قومی کمیٹی کے چاراراکین اسرائیل کے ہاتھوں ہلاک کر دیئے گئے اس طرح پچھلے دنوں میں ٹارگٹ کلنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۵ تک پہنچ گئی۔
قومی کمیٹی نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کا ذمہ قرار دیا۔ ۱۷ نومبر کو ڈی ایف این پی اور اسلامی جہاد نے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے ۱۸ نومبر کو اسرائیلی ٹینک ایک بار پھر غزہ میں داخل ہو گئے اور ان کا پی ایف ایل پی اور الفتح کے حامی مجاہدین نامی گروپ سے مسلح تصادم ہوا۔ اسی دوران غزہ میں خوراک کی قلت میں سنگین تر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ۵۰ فیصد بیکریاں آٹے کی قلت کی وجہ سے بند ہو گئیں اور بقیہ جانوروں کے چارے کو استعمال کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
۲۰ نومبر کو حماس کا ایک اور رکن ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا۔ حماس پر دوسری مزاحمتی تنظیموں اور خود اپنے حامیوں کی جانب سے دبائو بڑھ گیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے روکے مگر کس طرح؟
۲۳ نومبر کو مصر کے سفارتی حلقوں نے بتایا کہ مصر کے ذریعے اسرائیل اور حماس کے درمیان پرانی شرائط کی پابندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ حماس کے نمائندے ایمان طٰحہٰ نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ دوسری مزاحمتی تنظیمیں جنگ بندی کے لیے تیار ہیں اگر اسرائیل سرحدیں کھول دے۔ اسرائیل کی طرف سے کوئی ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا اس کے برعکس اسرائیلی وزیر دفاع نے سرحدیں کھولنے کا پرانا حکم راکٹ حملوں کا جواز بنا کر واپس لے لیا ان راکٹ حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی اس طرح کے بے نام راکٹ حملے اگست ۲۰۰۸ء میں بھی غزہ سے کیے گئے جو صحرا میں جا کر گرے اس پر حماس کے رہنما محمد الظہار نے ۱۲ ستمبر ۲۰۰۸ء کو ان حملوں کا الزام اسرائیلی ایجنٹوں کو دیا جو اس طرح اسرائیل کے لیے جنگ کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
۲۴ نومبر کو قومی کمیٹی کا ایک اور رکن اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا ۲۸ نومبر کو خان یونس میں ایک اور فلسطینی شہری اسرائیل کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا اسی دن مجاہدین نامی تنظیم نے اسرائیلی چوکی پر حملہ کر کے آٹھ فوجیوں کو زخمی کر دیا اور انہوں نے اس کے جواز میں کہا کہ اسر ائیل امن کی آڑ میں جنگ کی تیار کر رہا ہے اور اس کا مقصد حماس یا فتح کو ختم کرنا نہیں بلکہ فلسطینی مزاحمت کا خاتمہ ہے۔ جنگ بندی سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ہم فلسطین کی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ غزہ کے رہائشیوں میں طویل ناکہ بندی سے بد دلی پھیلتی جا رہی تھی اور تنظیموں کا رویہ جارحانہ ہوتا جا رہا تھا۔ ۳۰ نومبر کو اسلامی جہاد نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اقصیٰ بریگیڈ نے سیدوت پر راکٹ داغے۔
قطر نے حماس اور اسلامی جہاد کو خبردار کیا کہ اسرائیل ایک بڑے حملے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ حماس کی سیاسی قیادت نے اپنے عسکری ونگ اور دوسری مزاحمتی تنظیموں سے پرزور اپیل کی کہ وہ اسرائیل پرراکٹ حملے بند کر دیں۔ لیکن حالات حماس کے قابو سے باہر ہوتے چلے گئے آخر تنگ آکر شام میں بیٹھی قیادت سے اپیل کی گئی کہ وہ حماس کے اپنے عسکری ونگ قسام بریگیڈ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے لیکن کشیدگی کے باعث یہ کوششیں ناکام رہیں۔
اسی دوران جنگ بندی کے معاہدے کی آخری تاریخ ۱۹ دسمبر کو ختم کر دی گئی حماس مخمصے میں پھنس گئی ایک طرف وہ جنگ بندی کے عمل میں توسیع چاہ رہی تھی جو بند گلی میں رُک گیا تھا دوسری طرف حماس تنہائی کا شکار تھی اور ساتھ ہی تمام دوسری تنظیموں کے اتفاق رائے سے ایک حل چاہتی تھی لہٰذا دسمبر کے اوائل میں حماس نے دوسری تمام تنظیموں سے ان کی رائے طلب کی۔ ۲ دسمبر کو اسرائیلی ٹینک دوبارہ غزہ میں گھس آئے ایک فضائی حملے میں دو کم عمر لڑکے مارے گئے اس دن جہاد نے اتفاق کیا کہ معاہدے کا فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچا اور خود اسرائیل نے اس کی کوئی پابندی نہیں کی۔ پی ایف ایل پی نے بھی جنگ بندی میں توسیع کو مسترد کر دیا اور حماس سے اس مسئلے پر مذاکرات سے انکار کر دیا اور حماس پر الزام لگایا کہ حماس دوسری تنظیموں کی مخالفت کے باوجود جنگ بندی میں توسیع چاہ رہی ہے۔ ان تمام حالات میں اقصیٰ بریگیڈ کا کردار غیر واضح رہا ایک طرف تو وہ عباس حکومت سے وفاداری کا اعلان کرتے رہے لیکن عباس حکومت کے موقف کے برعکس اسرائیل پر راکٹ بھی پھینکتے رہے۔ ایک اور فیکٹر جس نے کشیدگی کو بڑھایا وہ اسرائیل کے شہر ہیبرون میں ۵ دسمبر کو اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینیوں پر حملے تھے۔ فلسطینی تنظیموں نے اسے ’’نسلی صفائی‘‘ قراردیا اور اس کے ردعمل کے طور پر اقصیٰ بریگیڈ ڈی ایف ایل پی اور جہاد کے قدس بریگیڈ کے ویسٹ بینک سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جبکہ حماس نے جنگ بندی کو نقصان پہنچانے کی خاطر صرف مظاہروں پر اکتفا کیا۔ ویسٹ بنک میں کشیدگی بڑھ گئی ۳۶۰ افراد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جن میں ۶۵ بچے بھی شامل تھے۔اسرائیلی وزیر خارجہ نے جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے اعلان کیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔
۵ نومبر سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی جاری تھی اور ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت انتہا کو پہنچ چکی تھی اوران حالات میں کوئی بھی مزاحمتی تنظیم جنگ بندی کی توسیع کو فائدہ مند سمجھنے پر تیار نہیں تھی ڈی ایف ایل پی اور اقصیٰ بریگیڈ کمیٹی اور جہاد باقاعدگی سے اسرائیلی قصبوں پرراکٹ برسا رہے تھے حماس کی سیاسی قیادت ان کو روکنے میں بے بس تھی خود حماس کا اپنا عسکری ونگ بھی توسیع میں فائدہ سمجھنے پر تیار نہیں تھا۔
۱۴ دسمبر کو حماس نے باضابطہ طور پر جنگ بندی میں توسیع سے انکار کر دیا اس کے باوجود اسماعیل ہانیہ پرامید تھے کہ شاید مصر اپنا مصالحتی کردارادا کرے گا جنگ بندی معاہدے کے آخری دن تمام تنظیموں نے الگ الگ مظاہروں میں جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا جس میں الفتح بھی شامل تھی جس نے رملہ میں بیٹھی اپنی قیادت کے موقف کے برعکس جنگ بندی میں توسیع سے انکار کیا۔ ۲۰ دسمبر کو حماس نے تمام تنظیموں سے ایک مشترکہ مزاحمتی محاذ قائم کر نے کی اپیل کی روس کی جانب سے جنگ بندی کی توسیع کی اپیل پر جواب میں حماس کے نمائندے نے تلخی سے کہا کہ عالمی برادری مظلوموں پر دبائو ڈالنے کے بجائے ظلم کرنے والوں کے ہاتھ روکے۔ اس دوران مصر پراسرار طور پر خاموش رہا بلکہ حماس اس بات پر حیران تھی کہ مصرنے اس دوران اسرائیلی فوجی حکام اور مصر کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بھی حماس کو مطلع نہیں کیا۔
۲۳ دسمبر کو حماس کے سابق وزیر خارجہ محمد الظہار نے کہا کہ حماس جنگ بندی میں توسیع کے لیے تیار ہے اگر اسرائیل جون میں طے شدہ شرائط کی پابندی کرے۔ آگے چل کر لبن لکھتی ہیں کہ حماس نے بلاشبہ سیاسی اندازوں میں غلطی کی مگر حماس پر یہ الزام لگانا کہ اس نے جان بوجھ کر اسرائیل سے مسلح تصادم شروع کرنے کی کوشش کی پچھلے صفحات میں مذکور کوششیں اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس نے آخری وقت تک اس معاہدے کو بچانے کی کوشش کی۔ جنگ بندی میں توسیع سے انکار حماس کی طرف سے اعلانِ جنگ نہیں تھا بلکہ اسرائیل پر دبائو ڈالنے کی کوشش تھی۔ اس دبائو کا مقصد سرحدوں کو کھلوانا تھا لیکن حماس کی سیاسی پوزیشن اس منزل پر پہنچنے کے لیے بہت کمزور تھی لیکن معاہدے کے ختم ہونے کی ذمہ داری کسی طرح بھی حماس کو نہیں دی جا سکتی۔
۱۔ اسرائیلی حکومت جس نے اس معاہدے کی کسی بھی شرط کی پاسداری نہیں کی۔
۲۔ عباس حکومت جو اسرائیلی حملے میں حماس کی شکست کی صورت میں غزہ پر دوبارہ کنٹرول کی امید رکھے ہوئے تھی لیکن بعد میں انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ اسرائیلی حملے کا مقصد حماس کی شکست سے کہیں بڑھ کر تھا۔
۳۔ عرب کی ’’معتدل حکومتیں‘‘ جو مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر حماس کو کمزور دیکھنا چاہتی تھیں۔
۴۔ امریکا اور یورپی یونین بھی اس کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے بغیر کسی تحقیق کے صرف حماس کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسرائیلی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتی رہیں اور اس طرح اپنی خاموشی کے ذریعے اسرائیل کو گرین سگنل دیا مزید یہ کہ امریکا اور یورپی یونین نے غزہ میں قانونی طور پر منتخب حماس کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے بحران کو سنگین بنایا۔
امریکی مشرق جوان کول نے ۵ جنوری ۲۰۰۹ء کو لکھا کہ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں پھینکے جانے والے راکٹوں میں سے ۹۵ فیصد اپنے نشانے پر نہیں لگے۔ باقی ۵ فیصد راکٹوں سے اس سارے عرصے میں صرف ۱۵ اسرائیلی ہلاک جبکہ اتنے ہی عرصے میں اسرائیل نے پانچ ہزار فلسطینی ہلاک کر دیئے جن میں ایک ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ کچھ صحافی حضرات حقائق سے آگہی کے بغیر حماس کو جان بوجھ کر اپنے لوگوں کو مروانے کا الزام دیتے رہے ہیں۔
{}{}{}