
ایران کے نئے صدر حسن روحانی کی حکومت کے سیاسی موقف پر غوروفکر کرتے ہوئے اگر آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایران کی سیاست میں محض تبدیلی نہیں بلکہ ایک انقلاب آرہا ہے تو آپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے۔
ایران حکومت کا روئے سخن زیادہ تر مغرب، اور خصوصاً امریکا کی جانب رہا ہے۔ ’نئے ایرانی‘ دنیا کو اپنی اس خواہش سے مطلع کرنے کو بے تاب ہیں کہ نئی انتظامیہ اپنے ماضی ٔ قریب سے تعلق توڑنا چاہتی ہے، یعنی اس زمانے سے جس میں سابق ایرانی حکومت نے امریکا کے حوالے سے انتہائی مخالفانہ اور مخاصمانہ رویہ اپنا رکھا تھا، وہی امریکا جسے آیت اللہ خمینی ’شیطانِ کبیر‘ کہا کرتے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نظریات سے طاقت پانے والی سیاست پسپا ہو رہی ہے اور مفادات کو سامنے رکھ کر کی جانے والی سیاست پیش قدمی کر رہی ہے، جسے تکنیکی اصطلاح میں Realipolitik کہتے ہیں یعنی نظریاتی سیاست اب عملیت پسندی کو جگہ دے رہی ہے۔
’نئے ایرانی‘ اعتراف کرتے ہیں کہ برسوں سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں نے اسے اس ماہیتِ قلبی پر مجبور کیا، اور اس عمل کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک ’اعتدال پسند‘ صدر کو لانے والے انتخاب کی اجازت دی گئی۔ ایران کی مقتدرہ میں صفِ اول کی شخصیات کو خوف تھا کہ طویل اقتصادی پابندیوں کی بنا پر ایرانی عوام جن مشکلات سے دوچار ہوتے چلے آرہے ہیں، وہ کسی بھی وقت ان کا غصہ بھڑکا سکتی ہیں، جس سے عوامی احتجاج کا لاوا پھٹ سکتا ہے۔ ایسا عوامی احتجاج اِس وقت بھڑک اٹھتا تو نہایت تباہ کن ہو سکتا تھا کیونکہ اِس وقت تو ایران اور اس کے ہم خیال علاقائی ممالک شام میں ایک اور عوامی لہر کو کچلنے میں پوری طرح مصروف ہیں۔
ماضی سے اپنا تعلق توڑنے کے سلسلے میں ایک مہم بھی چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد پچھلی حکومت کو بدنام کرنا ہے، اس پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور سرکاری خزانے میں اربوں ڈالر کی لوٹ مار کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ یہ الزامات عالمی اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔
’نئے ایرانی‘ ایک اور عجیب و غریب دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ ایسی کوئی کوشش ’’اسلامی اقدار کے خلاف ہوتی‘‘۔ اس مضحکہ خیز جواز سے ایک اور سوال ابھرتا ہے: ’’کیا آپ پاکستانیوں کو برے مسلمان سمجھیں گے کہ انہوں نے ایٹم بم بنا لیا؟‘‘
اسرائیل فلسطین تنازع کے بارے میں ’نئے ایرانی‘ کوشش کرتے ہیں کہ لب کشائی نہ کریں۔ اگر موقف دینے پر اصرار کیا جائے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ جس چیز پر فلسطینی اور اسرائیلی متفق ہو جائیں گے، وہی ایران کو بھی قبول ہو گا۔
صدر روحانی سے قربت رکھنے والے ایک ایرانی دانشور نے صاف کہا ہے ’’ہم کون ہوتے ہیں فلسطینیوں کی طرف سے فیصلہ کرنے والے کہ انہیں کیا ماننا چاہیے اور کیا نہیں ماننا چاہیے؟‘‘
حال ہی میں ایران کے سرکاری دورے پر جانے والے فلسطینی مقتدرہ کے حکام نے بھی ایران کے اس نئے موقف کی تصدیق کی ہے۔ فلسطینی حکام نے بتایا کہ ایرانیوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ نئی ایرانی حکومت فلسطینیوں کی خواہش کا احترام کرے گی اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلے، وہ ان کا معاملہ ہے۔
فلسطینی مقتدرہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ایک ایسے وقت جب ایران کے ’’حماس کے ساتھ تعلقات بدترین سطح پر چل رہے ہیں‘‘ ایرانی حکام نے ان مہمانوں کو نہایت عزت اور احترام سے نوازا۔
مغرب کی طرف کھڑکی کھولنے کی ’نئے ایرانیوں‘ کی کوششیں عدیم النظیر ہیں اور کم از کم سابق صدر محمد خاتمی دور کے بعد سے نہیں کی گئی ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ کیا نئی ایرانی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہے گی، تو مذکورہ ایرانی دانشور نے کہا ’’فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو کسی معاہدے پر پہنچنے دیں، پھر دیکھیں گے‘‘۔
’نئے ایرانی‘ حکمراں ہمسایہ ملکوں خصوصاً بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بحرین کے شیعہ مسلمان اس بات پر برافروختہ ہیں کہ ایران بحرین کی شاہی حکومت کے خلاف عوامی لہر کی حمایت کرنے میں بخل سے کام لے رہا ہے۔
شام کے سوال پر ’نئے ایرانی‘ سینہ تان کر کہتے ہیں ’’خطے میں کئی آمریتیں موجود ہیں، آپ صرف شام کی حکومت کو کیوں گرانا چاہتے ہیں؟‘‘ مذکورہ ایرانی دانشور سے اس موضوع پر جو بھی سوال کیا جائے ان کا لگا بندھا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’آپ صرف ایران پر کیوں انگلی اٹھا رہے ہیں جبکہ تمام دوسری علاقائی اور عالمی طاقتیں شام کے معاملات میں پوری طرح ملوث ہیں۔‘‘
شام کے موضوع پر بحث میں یہ بات دلچسپ ہے کہ شام میں ایران کا جو بھی کردار ہے، اس میں اس بات کا کوئی حوالہ نہیں آتا کہ ایران اس حکومت کی مدد کر رہا ہے جو اسرائیل کی مخالف ہے۔
ایران کے اندرونی حلقوں کی سرگرمیوں سے باخبر ہونے کے دعویدار مبصروں کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حلقوں میں ایران کے ’اعتدال پسند‘ اور ’سخت گیر‘ عناصر کے مابین کشمکش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روحانی انتظامیہ کی عملیت پسندی کے نتائج بہت دور رس ہوں گے۔
دوسری طرف، ایسے بھی مبصرین ہیں جن کے نزدیک ایرانی موقف میں ’واضح‘ تبدیلی محض آرا کا اختلاف ہے، موقف میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے اور مغرب کے حوالے سے ایران کی حالیہ گرم جوشی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم نہیں تو کم از کم نرم کرا لی جائیں۔
(ڈاکٹر عزام تمیمی ’الحوار‘ ٹی وی چینل کے چیئرمین اور ایڈیٹر انچیف ہیں، وہ حماس اور راشد غنوشی پر دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں)۔
(“Is Iran truly changing under Rouhani?”… “The Middle East Monitor”. Feb. 27, 2014)
Leave a Reply