
اس کا کوئی منکر نہیں ہے کہ جدید تاریخ میں نیٹو کامیاب ترین سیاسی عسکری اتحاد تھا، وہ خاصی مدت تک طاقت کے ساتھ موجود رہا، اور مزید ممبر ممالک کو جمع کرنے میں کامیاب ہوا، نیز اپنے بنیادی مقاصد ایک گولی چلائے بغیر حاصل کیے، مزید براں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد وسیع پیمانہ پر امن قائم کرنے کی ذمہ داریاں انجام دے کر اس نے اپنا نیا تعارف کرایا۔ افغانستان جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا، سوویت یونین کے زوال کے بعد زندہ رہ کر اس نے ان پیشن گوئیوں کا جم کر مقابلہ کیا کہ اس کے دن یا سال گنے چنے رہ گئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود میں اس نظریہ کا قائل ہوں کہ آئندہ دنوں میں نیٹو کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اسباب یہ ہیں:
اول: یورپ کے اقتصادی مسائل و مشکلات جنہوں نے نیٹو کے بنیادی ارکان (خاص طور سے برطانیہ) کو دفاعی اخراجات میں زبردست کمی کرنے پرمجبور کیا، چنانچہ یورپ کے تمام نیٹو ممبران نے دفاعی امور کے لیے GDP کا وہ حصہ مخصوص کیا جو تنہا امریکا سے بہت کم ہے، دفاعی اخراجات میں ان نئی کٹوتیوں کی وجہ سے نیٹو مستقبل میں یورپ کے حدود سے باہر مہموں میں فعال حصہ لینے کی پوزیشن میں نہ ہوگا، اس لیے ان فوجی مہمات کا بوجھ تنہا نیٹو کو اٹھانا پڑے گا۔
دوم: افغانستان کے خلاف منحوس طالع آزمائی جس کے طویل مدتی اثرات ہوں گے، وہ اتحاد کے تعاون کو منقسم کر دے گی۔ اور اگر امریکا اس کے اتحادیوں اور ایساف کی افواج کو فیصلہ کن واضح فتح حاصل نہ ہوئی (جس کا حاصل ہونا بہت بعید ہے) تو شکست کا الزام شاید نیٹو اتحاد پر لگے گا، اس کے علاوہ امریکی کمانڈروں کو ان قیود و شرائط پر اعتراض ہوگا جو نیٹو اتحاد کے ممبران (جیسے جرمنی) نے اپنی شرکت کے بارے میں لگا رکھی ہیں، نیز یورپی رائے عامہ یہ پوچھے گی کہ امریکا کو اس بات کی اجازت کیوں دی گئی کہ وہ دس برس سے زیادہ مدت کے لیے ان کو افغانی دلدل میں پھنسا دے۔ ناکامی کی ذمہ داری کی اہمیت سے اگر صَرف نظر بھی کر لیا جائے تو بنیادی بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں نیٹو اتحاد کی طرف سے اس جیسی دوسری مہم انجام دینے کا احتمال نہیں ہے۔
سوم: ترکی کے بارے میں اختلاف جاری ہے جو ۱۹۵۰ء سے نیٹو اتحاد کا فل ممبر ہے۔ مجھے بعض لوگوں کی طرح حالیہ دنوں میں ترکی کی بیرونی سیاست کے اقدامات سے تو کوئی پریشانی نہیں ہے، مگر خطے کے بنیادی مسائل کے بارے میں انقرہ کے مختلف سفر سے متعلق مجھے شکوک و شبہات ہیں، یہ بات سفارتی و اقتصادی طور پر ترکی کی تہران سے قربت سے ظاہر ہوتی ہے، جب کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ایران کے خلاف اپنے دبائو کو بڑھا رہے ہیں۔ مزید براںمشرقِ وسطیٰ کے مسائل خاص طور سے فلسطین۔ اسرائیل نزاع سے متعلق ترکی کے امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ نیز امریکا و یورپ میں شدت اختیار کرتا ہو ا اسلام فوبیا کا مظاہرہ ترکی کے ساتھ اختلافات بڑھا سکتا ہے اور چونکہ نیٹو اتحاد میں امریکا کے بعد ترکی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور نیٹو اتحاد بڑی حد تک اتفاق اور اجماع آراء سے کام کرتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ افتراق کا برا اثر پورے اتحاد پر پڑے۔
ان سب اسباب کو ایک ساتھ جمع کر کے اور یہ سوچ کر کہ ایک اہم عالمی طاقت کے طور پر نیٹو کا مستقبل ماضی کی طرح روشن نہیں ہے تو ان مایوس کن قیاس آرائیوں کا معمول کے مطابق یہ جواب ہوگا کہ اپنی پوری تاریخ میں نیٹو نے خطرناک بحرانوں کو دیکھا اور ان پر قابو پایا مگر یہ بات سوچنے کی ہے کہ ان میں سے بیشتر اختلافات سرد جنگ کے سیاق میں اس وقت ہوئے تھے جب کہ یورپ و امریکا کے رہنمائوں کے پاس ان پر قابو پانے اور ان کو کنٹرول میں رکھنے کے اسباب موجود تھے۔ اس سب کے باوجود مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ نیٹو اپنے کسی ممبر کو کھو دے گا یا وہ خود ختم ہو جائے گا۔ مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوگی جب بیرونی سیاست کے نمایاں ماہرین اعتراض کریں کہ نیٹو خطرناک مسائل سے دوچار ہے اور اس وجہ سے نیٹو کا واقعی حالات سے زیادہ رشتہ ناطہ نہیں رہے گا۔
(بشکریہ : ہفت روزہ ’’الامان‘‘، بیروت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)
Leave a Reply