
کیا کوئی چیز، یا کوئی شخص ہمیں سوئچ آف کرسکتا ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کہیں، کوئی وجود محض ایک بٹن دبائے اور جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ ختم ہو جائے؟ بات بہت عجیب سی لگتی ہے، مگر ماہرین نے اس سوال پر صدیوں غور کیا ہے کہ انسان کی زندگی کیا ہے، حقیقت یا افسانہ۔
کیا ہم اس تصور پر یقین کرسکتے ہیں کہ ہماری دنیا، ہمارا وجود کوئی کمپیوٹر پروگرام ہے، ہولو گرام ہے یا کسی کا خواب ہے؟ کیا آپ کو کبھی کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی اعلیٰ ہستی کا تصور یا خواب ہے؟ کبھی کبھی حالات ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی امر پر یقین کرنے کی تحریک نہیں ملتی، اور جی چاہتا ہے کہ ہر چیز پر سے اپنا اعتقاد اٹھا دیں! فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اس سوال پر غیر معمولی حد تک غور و خوض کیا ہے کہ ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ اور خود ہمارا وجود بھی واقعی وجود رکھتا ہے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال سر اٹھائے کہ یہ تمام سوالات بے معنی ہیں، اس لیے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، محسوس ہو رہا ہے وہی اصلیت ہے، حقیقت ہے۔ اور جو کچھ ہمارے حواس کی حدود میں نہیں وہ درحقیقت نہیں ہے۔ جو لوگ صرف حواس کی حد میں رہ کر بات کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ واقعی ہے۔ اس کے بارے میں یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ بیک وقت ہو بھی سکتا ہے، اور نہیں بھی ہوسکتا!
سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ جسے ہم حقیقت کہتے ہیں وہ کچھ اتنی زیادہ حقیقی نہیں! حقیقت کے مضافات میں ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفہ اور نظریاتی طبعیات گلے ملتے ہیں، اور جہاں سائنس اور مذہب کسی حد تک اپنی بساط لپیٹ کر سکون کا سانس لیتے ہیں!
اپنے ذہن کی نشست پر اچھی طرح، جم کر بیٹھ جایے۔ حفاظتی بیلٹ کس لیجیے، کیوں کہ جو کچھ بھی اب آپ کے سامنے آنے والا ہے وہ دماغ کی چُولیں ہلا دینے والا ہے! یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بہت پریشان ہو اُٹھیں اور اپنے وجود اور کائنات کے بارے میں آپ نے جو تصورات یا عقائد قائم کر رکھے ہیں ان کے بارے میں آپ کا عزم متزلزل ہو جائے! جسے ہم حقیقت کی دنیا کہتے ہیں وہ اتنی حقیقی نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم چند دائروں میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں۔ جب آپ کسی بھی شے کو زیادہ قریب سے دیکھیں تو اس کی دراڑیں زیادہ نمایاں ہوتی جاتی ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی اداکار سیٹ پر کھڑا ہو اور دیوار سے ڈر رہا ہو، مگر پھر اُسے اندازہ ہو جائے کہ جسے وہ دیوار سمجھ رہا ہے وہ تو گتے کے ٹکڑے ہیں جنھیں دیوار کی شکل دے دی گئی ہے!
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب تو سائنس فکشن کی فلموں میں ہوتا ہے! آپ نے اگر ’’دی میٹرکس‘‘ دیکھی ہو تو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دے رہا ہے وہ اس حد تک موجود نہیں جس حد تک موجود محسوس ہو رہا ہے۔ ’’دی میٹرکس‘‘ میں یہی تصور پیش کیا گیا ہے کہ ہم کہنے کو تو موجود ہیں، مگر در حقیقت موجود نہیں ہیں۔ اور ممکنہ طور پر ہماری حیثیت اس سوفٹ ویئر کی سی ہے جسے کسی کمپیوٹر پر چلایا جا رہا ہو، اور کمپیوٹر آف کرتے ہی وہ سوفٹ ویئر بھی آف ہو جائے! ہوسکتا ہے کہ ہم سے کہیں زیادہ ذہانت کی حامل کوئی نسل یہ کمپیوٹر گیم چلا رہی ہو، اور پھر وہ اس گیم سے بیزار ہوکر اسے سوئچ آف کردے! یعنی آپ ابھی ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے نہیں ہیں!
کہیں یہ سب کچھ پڑھ کر آپ پریشان تو نہیں ہو رہے؟ اگر ایسا ہے تو ذہنی طور پر اُلجھنے سے گریز کرتے ہوئے پڑھتے رہیے۔ لیکن یاد رکھیے کہ آنے والی سطور میں آپ جو کچھ پڑھیں گے وہ زندگی کے بارے میں آپ کے نظریے کو شاید مکمل طور پر بدل کر رکھ دے!
’’فائن ٹیوننگ‘‘ والی کائنات؟
ہوسکتا ہے بہت سوں کو یہ بات بہت عجیب محسوس ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پر محسوس اور غیر محسوس دونوں سطحوں پر، یہ گمان گزرتا ہے کہ ہماری کائنات اس مقام تک خود بہ خود نہیں پہنچی۔ کسی برتر وجود نے اِسے ہمارے لیے fine-tune کیا ہے، حالات کو اس طرح تبدیل کیا ہے کہ روئے ارض پر، کہکشاں میں یا پھر اس کائنات میں کہیں بھی زندگی کا وجود ممکن ہوسکا ہے۔ کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس کائنات کو فعال رکھنے والے طبعی قوانین کسی کے تیار کردہ ہیں؟ کیا ہر معاملے میں ناقابل یقین حد تک قطعیت اور موزونیت خود بہ خود پیدا ہو جایا کرتی ہے؟ ہم جس کائنات کا حصہ ہیں اس کے تمام طبعی معاملات انتہائی موزونیت کے حامل ہیں۔ کہیں بھی کوئی ایسی کھوٹ دکھائی نہیں دیتی جس کی موجودگی میں زندگی کے میلے کی رونق برقرار رہ سکتی ہو۔
اسکول میں آپ کو طبعیات کا مضمون شاید خشک ترین محسوس ہوا ہو۔ طبعیات کے قوانین کا مدار کسی نہ کسی معین حقیقت پر ہے۔ مثلاً قوانین تجاذب بھی کسی نہ کسی بنیاد پر قائم ہیں۔ چند ایک امور معین (constant) ہیں۔ ان کی عدم موجودگی کائنات کی تفہیم کو شدید مشکل بنا سکتی ہے۔ قوت تجاذب ہی ذروں کے سینے میں قوت کو متحرک رکھتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوت، جو کڑکتی ہوئی بجلی اور کمپیوٹرز کی روح رواں ہے، طبعی قوانین کے تابع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ ان قوتوں کی وہ خاصیت اتنی ہی کیوں ہے جتنی ہے؟ یہ خاصیت کچھ کم یا زیادہ ہوتی تو کیا ہوتا؟
برطانوی ہیئت داں فریڈ ہوئلے ان سائنس دانوں میں سے ہے، جنھوں نے پہلے پہل یہ دریافت کیا کہ کائنات میں جو بھی خاصیت پائی جاتی ہے وہ حادثاتی نوعیت کی نہیں۔ یعنی جو کچھ بھی معین حیثیت سے موجود ہے، وہ خود بہ خود معین نہیں ہوگیا بلکہ اُسے اس مقام تک لایا گیا ہے! اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ اگر اپنی موجودہ شکل سے ذرّہ بھر بھی مختلف ہوتا تو کہکشائیں، ستارے، چاند، سورج، زمین کچھ بھی نہ ہوتا۔ اور ہم بھی نہ ہوتے!
ذرّے (atom) کے سینے میں چُھپی ہوئی قوت کا اندازہ لگایے۔ اگر یہ خفیف سی بھی زیادہ ہوتی تو کائنات کی تشکیل کے وقت ستاروں کے معرض وجود میں آنے کا عمل شاید اگلے ہی سیکنڈ میں ختم ہو جاتا کیوں ستارے اپنی ہی گرمی کے باعث پھٹ جاتے! ہمارا سورج بھی نہ ہوتا۔ اور یوں ہمارے ہونے کی راہ بھی ہموار نہ ہوئی ہوتی۔ اور اگر ذرّات کے سینے میں قوت ذرا بھی کم ہوتی تو یہ مختلف گیسوں کے سالموں کو باہم متحد رکھنے میں کام یاب نہ ہوئے ہوتے۔ اس صورت میں ستارے اپنی توانائی سے محروم ہو جاتے اور ہمارے معرض وجود میں یا منصۂ شہود پر آنے کی راہ بھی مسدود ہو جاتی!
یہ تو ہوا ذرّات کی ماہیت کا معاملہ۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شے ایک خاص تناسب کے بغیر دکھائی نہیں دیتی۔ برطانوی ہیئت داں سر مارٹن ریز کہتے ہیں ’’ہمیں کائنات میں جا بہ جا اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ اسے ہمارے لیے fine-tune کیا گیا ہے، یعنی حالات سازگار بنائے گئے ہیں۔ کسی نے تمام امور کو ایک طے شدہ تناسب کے ساتھ پیش کیا ہے۔‘‘ ہمارے ذہنوں کو ہلا دینے والا سوال یہ ہے کہ اگر کائنات میں کوئی بھی معاملہ ایک خاص تناسب اور عدل کے بغیر دکھائی نہیں دیتا، تو ایسا کیوں ہے؟ ہیئت دان اس امر پر متفق ہیں کہ یہ سب کچھ محض حسن اتفاق کا نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ تو پھر کون ہے جس نے قوانین طے کیے، اصول مرتب کیے؟
سب سے پہلے تو اس تصور کو اپنایے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے صرف وہی حقیقت نہیں ہے۔ آپ کہیں گے کہ کُرسی ایک ٹھوس حقیقت ہے جس پر بیٹھ کر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔ اسی طور آپ یہ دلیل بھی پیش کرسکتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے کمپیوٹر کی اسکرین ایک حقیقت ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ہر حقیقت کی پشت پر ایک اور یعنی حقیقی حقیقت موجود ہے جس کی موجودگی میں آپ کی اپنی حقیقت (جو آنکھوں کے سامنے ہے) محض ایک سراب کی سی ہے۔
آپ کسی بھی شے کی حقیقت تک کس طرح پہنچتے ہیں؟ ظاہر ہے اس کا تجزیہ کرکے! تجزیے سے مراد کسی بھی شے کے اجزا کو الگ الگ کرکے ان کا جائزہ لینا، ان پر غور کرنا۔ فرض کیجیے آپ نے کسی بھی چیز کے ٹکڑے کیے تو اس کے سالموں تک پہنچے۔ سالموں کو چیرا تو ذرّات تک پہنچے۔ اگر کسی ذرّے کا دل چیر کر دیکھا تو اس میں مرکزی حصہ ملا جس کے گرد الیکٹران گردش کرتے ہوئے پائے گئے۔ اب اگر آپ ذرّے کے مرکزی حصے کو چیر کر دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے، کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں ہے! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک آپ نے کیا دیکھا اور کیا پایا؟ کچھ بھی نہیں! بات بہت حیرت انگیز ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں، حتمی تجزیے میں اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں!
سائنس دان کہتے ہیں کہ ایٹم کا مرکزی حصہ جن ریزوں پر مشتمل ہوتا ہے انھیں انگریزی میں particles کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لفظ اس لیے استعمال ہو رہا ہے کہ کوئی اور موزوں لفظ میسر ہی نہیں۔ particle کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں گیند کا تصور ابھرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوانٹم فزکس میں گیند جیسی کسی بھی ایسی ٹھوس چیز کا کوئی تصور موجود نہیں جسے آپ دیکھ اور چُھو سکیں۔ quarks، electron اور photon کی مانند “particles” بھی اتنے عجیب و غریب اور ہمارے دائرۂ علم میں موجود کسی بھی دوسری شے سے اس قدر مختلف ہیں کہ ان کے لیے ہمارے پاس کوئی موزوں لفظ ہے ہی نہیں۔ پارٹیکلز بیک وقت دو مقامات پر ہوسکتے ہیں اور وہ لہر کی صورت سفر کرنے کے علاوہ مادّے کے جُز کے طور پر بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مدار اس بات پر ہے کہ آپ ان کے ساتھ کس نوعیت کا تفاعُل چاہتے ہیں۔ پارٹیکلز اچانک معرض وجود میں آسکتے ہیں، اور پھر اتنی ہی تیزی کے ساتھ غائب بھی ہوسکتے ہیں۔ پارٹیکلز کو گرفت میں لے پانا انتہائی دشوار ہے اور اب تک ناممکن ثابت ہوا ہے۔ بیک وقت یہ بتانا ممکن نہیں کہ اس وقت کوئی پارٹیکل کہاں ہے اور اس کی حرکت کی رفتار کیا ہے!
مگر خیر، پارٹیکل بھی تو کوئی نہ کوئی ’’چیز‘‘ ہی ہے نا! یہی سبب ہے کہ طبیعت داں string theory کی طرف لپک رہے ہیں۔ اس نظریے کی رُو سے مادّے کا تصور موہوم سے دائروں کے تصور سے وابستہ ہے۔ یہ دائرے ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ مگر ان کا پیدا کیا ہوا ارتعاش ہماری معلومات کے دائرے میں موجود کسی بھی دوسری چیز کے پیدا کردہ ارتعاش سے یکسر مختلف ہوتا ہے، کیوں یہ ارتعاش دس مختلف سمتوں میں ہوتا ہے! ہم جنھیں پارٹیکلز کہتے ہیں وہ در اصل ان دائروں یعنی strings کے ارتعاش سے پیدا شدہ موسیقی کے سوا کچھ نہیں! یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ مادّہ در اصل کسی اور شے کا اظہار یا کسی عمل کا نتیجہ ہے!
اب ایک بار پھر کائنات کی طرف آیے۔ ہمارے سروں پر جو ستارے جگمگا رہے ہیں اور ہم جس خلائے بسیط میں پائے جاتے ہیں وہی کائنات ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کائنات سے پرے کیا ہے؟ ماہرین کے خیال میں یہ تصور اب تک ممکن نہیں۔ ایک لمحہ وہ بھی تھا جب کچھ بھی نہ تھا۔ اور پھر ایک دھماکا ہوا جسے بگ بینگ کہتے ہیں۔ اس کے بعد کائنات کے پھیلنے کا عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ یہ توسیع ’’لاشیئیت‘‘ کے سمندر میں موجزن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ کائنات سے پرے ہے (یا ہوسکتا ہے) اس کے لیے ہم ’’لاشیئیت‘‘ کا لفظ بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ ایک تصور یہ ہے کہ دو بڑے بُلبُلے ٹکرائے تو ہماری کائنات معرض وجود میں آئی۔ ماہرین اب اس تصور کو اہمیت دے رہے ہیں کہ کائنات ایک نہیں، بلکہ کئی ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہماری کائنات میں کئی کائناتیں گڈمڈ کردی گئی ہوں! اب ایک نظریہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جسے ہم ’’مکانیت‘‘ کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ صرف نظر کا دھوکا ہو۔ ممکن ہے کہ چند جہتیں ایک دوسرے سے ٹکراکر ’’مکانیت‘‘ کا تصوراتی دھوکا پیدا کر رہی ہوں! اور کسی کائنات کو معرض وجود میں لانا کون سا بڑا مسئلہ ہے؟ ماہرین کہتے ہیں غیر معمولی مقدار میں توانائی لے کر بہت چھوٹی سی جگہ میں اسے جمع کیجیے، ایک بڑا دھماکا ہوگا (جو ایک اور بگ بینگ کہلائے گا) اور یوں ایک نئی کائنات معرض وجود میں آ جائے گی! مگر یہ سب کچھ آپ دیکھ نہیں پائیں گے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں جو بُلبُلہ پیدا ہوگا وہ ہمارے بُلبُلے (کائنات) سے بہت مختلف ہوگا۔
اگر آپ اُلجھ رہے ہیں تو کوئی بات نہیں، ٹھہر جایے اور ایک دوسرے پہلو سے معاملات کا جائزہ لیجیے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری کائنات کسی اور ذہین تر تہذیب کی تیار کردہ ہو؟ اس پہلو پر غور کرنے سے اندازہ ہوسکے گا کہ ہماری کائنات اس قدر ’’سازگار‘‘ کیوں ہے۔
ہم جس مکانیت میں ہیں وہ مکانیت ہے ہی نہیں۔ ہم جس مادے سے بنے ہیں اس کا کوئی وجود نہیں۔ جو کچھ ہے وہ محض نظر کا دھوکا معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود آپ کو ایک بات سے ضرور اطمینان ہوتا ہوگا کہ آپ کا وجود تو اصلی ہے! آپ چاہیں تو ایسا سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ آپ کو چُھو سکتے ہیں، آپ کی بات سن سکتے ہیں، آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا وجود ہے۔ مگر ٹھہریے، زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔
آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیے۔ اور دیر تک دیکھتے رہیے۔ آخر کار آپ کو ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ آئینے میں جو چہرہ ہے وہ آپ کا ہی نہیں، کسی اور کا بھی ہے۔ آپ کو اپنے آپ کسی اور کے وجود کا گمان ہونے لگے گا۔ یہی معاملہ شعور کا بھی ہے۔ ہمارا ذاتی وجود (self) ہمارے ذہن کی پیداوار ہے۔ دماغ ہمیں جو کچھ دکھاتا اور سناتا ہے وہی کچھ ہمارے شعور کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ شعور پانچ حواس اور ان کے ذریعے آنے والی معلومات کے تجزیے سے مل کر بنا ہے۔ شعور خواہ کچھ ہو، در حقیقت اس کا وجود دماغ کا مرہون منت ہے۔ یہ معاملہ بھی بہت حد تک سوفٹ ویئر جیسا ہی ہے۔ یعنی کمپیوٹر کی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ ہے تو سہی مگر نہیں ہے، کیوں کہ سب کچھ virtual ہے یعنی حقیقت نہیں بلکہ حقیقت نُما ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا عقیدہ ہے کہ روح نام کی کوئی شے بھی ہے۔ مگر طبیعیات دان اور ہیئت دان کہتے ہیں کہ ایسا کُچھ نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے، کرتے یا محسوس کرتے ہیں وہ صرف ذہن کی کارفرمائی ہے، اور کُچھ بھی نہیں! اور تجربات سے یہ بات کسی حد تک ثابت بھی کی جاچکی ہے۔ دماغ کو اگر چھیڑا جائے تو خیالات برہم ہو جاتے ہیں، اور پھر ہمارا self اجنبی سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور یہ کیفیت برقرار رہے تو ہمیں اپنا وجود اپنے ہی جسم سے باہر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اِسی کو out of body experience کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اِسے ’’موت کی چوکھٹ تک ہو آنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ موت کا مزا چکھنے کے لیے مرنا ضروری نہیں۔ لیباریٹری میں ایک ایسا ہیلمٹ سر پر لگایے جس میں گھومنے والے مقناطیس لگے ہوں۔ جب یہ مقناطیس حرکت کرتے ہیں تو ذہن کی فعالیت میں اچھا خاصا خلل واقع ہوتا ہے۔ آپ کو یہ محسوس ہونے لگے گا جیسے آپ اپنے جسم کے دائرے میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف احساس ہے، ورنہ آپ تو اپنے جسم کی حدود میں ہی رہتے ہیں! اور اس تجربے سے گزرنے کے لیے مقناطیس والا ہیلمٹ بھی درکار نہیں۔ جہاں زمین کی کشش کم ہو اس مقام پر بھی یہ تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو یہ سب کچھ اس مقام پر بھی ہوتا ہے جہاں آکسیجن کا تناسب کم ہو۔ ذہن کی مخصوص کیفیت آپ کو جسم کی حد سے باہر موجود ہونے کا احساس دلا سکتی ہے۔ مراقبے یا عمیق عبادت کے دوران بھی ایسا ممکن ہے۔ جو لوگ پورے خشوع و خضوع سے حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں اُنھیں بھی کُچھ ایسا ہی محسوس ہوا کرتا ہے۔ ’’ذہن سے باہر‘‘ کی اس کیفیت میں آپ کو ایسا محسوس ہوسکتا ہے جیسے آپ سے کسی نے ملاقات کی ہے۔ مثلاً اگر آپ مذہبی اعتقادات رکھتے ہیں تو آپ کسی عظیم مذہبی ہستی سے ملاقات محسوس کریں گے۔ اگر آپ بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں تو محسوس ہوگا کہ کسی مردہ شخص کی روح آپ سے ملنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کا ذہن اس کیفیت میں انھیں یہ یقین دلاتا ہے کہ ان سے ملنے کوئی غیر ارضی مخلوق آئی ہے! حقیقت یہ ہے کہ آپ کا ذہن آپ کو جو کُچھ دکھا رہا ہوتا ہے، وہی کُچھ آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں!
لاکھ کوشش کے باوجود سائنس دان اور فلسفی اب تک حقیقت کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔ وقت، جہتوں، خلاء اور دوسری بہت سی ’’حقیقتیں‘‘ کسی بھی وقت فنا ہوسکتی ہیں، وجود سے محروم ہوسکتی ہیں۔ کائنات میں کب کیا ہو جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ جو چند سانسیں ہیں، غنیمت ہیں! آپ سوچیں گے کہ جب کسی بھی شے کا کوئی حقیقی وجود ہے ہی نہیں، اور اگر سب کُچھ دھوکا یا سراب ہے تو پھر موت یا معدومیت سے کیا ڈرنا؟ ہمارا خواب اچانک ختم ہو جائے تو خواب میں آنے والے ہم سے ناراض ہوتے ہیں؟ نہیں! اگر ہم کمپیوٹر گیم روک دیں تو اس کے کردار ہم سے خفا ہوتے ہیں؟ نہیں، نا! بس تو پھر ہم بھی اگر کسی کا خواب، یا کوئی کمپیوٹر گیم ہیں تو سوئچ آف کیے جانے پر کیوں ناراض ہوں گے؟ مختصراً یہ کہ
چل سکے بس جب تلک ساغر چلے!
(تلخیص و ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Is our reality just somebody’s dream?” (“exitmundi.com”.
Leave a Reply