
۲۰۰۸ء میں جب عالمی معاشی بحران آیا تو لولا سانشیز کو جنوب مشرقی اسپین میں اپنے آبائی شہر مورشیا کے پبلک اسکول میں لگی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس کا مستقبل پر سے اعتماد بھی اٹھ گیا۔ وہ اس وقت ۲۸ برس کی تھی۔
جب ملک میں بیروزگاری نے وائمر ریپبلک کی حدوں کو چھوا تو سانشیز نہ چاہتے ہوئے بھی اسپین کی بھٹکی ہوئی نسل میں جا شامل ہوئی۔ خوبرو، پڑھے لکھے ۲۰ سال سے کچھ زائد کے نوجوان، جنہیں اچھی نوکری کی محض موہوم امیدیں تھیں، اپنے بہت سے ساتھیوں کی طرح وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اس کے پاس ملک چھوڑنے کی سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ سو وہ پہلے آئس لینڈ گئی جہاں اس نے ہسپانوی زبان پڑھائی اور پھر اسکاٹ لینڈ پہنچی جہاں اسے بطور ویٹرس کام مل گیا۔ میکسیکن ریستوران میں کام کرنے کے دوران اس نے امریکا بھی جانے کی کوشش کی۔ بیرونِ ملک مختصر عرصہ گزارنے کے بعد وہ بہتر نوکری کی تلاش میں وطن لوٹ آئی، مگر مایوس رہی۔ وہ کہتی ہے: وہ اپنا خاندان نہیں بنا سکتی، گھر نہیں خرید سکتی، گاڑی نہیں خرید سکتی۔ اس بحران نے اسے زندگی میں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔
گزشتہ موسمِ بہار میں سانشیز ریڈیو پروگرام میں پبلو اِگلی سِیئس ٹوریون کا انٹرویو سن رہی تھی، جو کہ ’’پونی ٹیل‘‘ رکھنے والے سیاسیات کے ایک پروفیسر ہیں، جنہوں نے میڈرڈ کی کومپلیوٹینس یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔ ان لوگوں نے اسے ’’پوڈیموس‘‘ (ہم کرسکتے ہیں) کا نام دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈولتی ہوئی ہسپانوی معیشت کو کنارے لگائیں گے اور حکومتی نظام کو از سرِ نو قائم کریں گے۔ پروفیسر کی باتوں نے سانشیز کی ان امیدوں کو زندہ کردیا جو ختم ہوچکی تھیں۔
۳۶ سالہ اِگلی سِیئس نے ہسپانوی عوام، بالخصوص مواقع سے محروم نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے اپنی تیزی سے پھیلتے مقلدین پر زور دیا کہ وہ سیاسی حلقے قائم کریں، یعنی کارکنوں کا ایک ایسا مضبوط جتّھا جو اُن کی جدوجہد کو آگے لے جاسکے اور ووٹرز کو متحرک کرسکے۔ ان حلقوں نے ایک مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کردی اور باوجود اس کے کہ پارٹی حجم اور تنوع کے اعتبار سے پھیلتی گئی، ارکان کو لگا کہ ان کی بات سنی جاتی ہے۔ ان حلقوں نے ہسپانویوں کو عدیم المثال انداز میں متحرک کردیا۔ ۲۰۱۱ء میں بدعنوانی، بیروزگاری اور عوامی خدمات میں بڑی کٹوتیوں کے خلاف احتجاجاً ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، لیکن جیسا کہ امریکا میں ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو!‘‘ تحریک کے ساتھ ہوا، یہ مظاہرین بھی اپنے غم و غصہ کو کسی تعمیری نتیجے سے بدلنے میں ناکام رہے۔ سانشیز اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے پوڈیموس پُرعزم رہنے کا ایک نیا جواز تھا۔ وہ کہتی ہے: ’’مجھے لگا کہ یہ اسپین کو بدلنے کے لیے کسی کے ساتھ مل جانے کا وقت ہے۔ محض میری نسل کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے‘‘۔
عوامی سطح سے جو چیز ۲۰۰۸ء میں براک اوباما کو وائٹ ہاؤس تک لائی، اس سے متاثر ہوکر سانشیز نے مورشیا میں ایک حلقہ قائم کیا۔ یہ گروہ اولاً تو چند لوگوں تک محدود تھا جو کافی پینے کے لیے ملتے تھے، مگر پھر یہ وسیع ہوتا گیا اور ایک بیروزگار استانی مقامی رہنما بن گئی۔ گزشتہ موسمِ بہار میں اس کے حلقے کے لوگوں نے انتخاب لڑنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کی اور وہ مان گئی۔ مئی ۲۰۱۴ء میں سانشیز نے یورپی پارلیمان میں ایک نشست جیت لی، جس میں اس کے ساتھ ’’پوڈیموس‘‘ کے جنرل سیکرٹری اِگلی سِیئس سمیت چار مزید ارکان بھی تھے۔ جیتنے والوں کی کارکردگی دم بخود کردینے والی تھی۔ چھ ماہ پہلے تک ’’پوڈیموس‘‘ کا کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب اس نوخیز گروہ نے بارہ لاکھ ووٹ لے لیے، جو کُل ووٹوں کا آٹھ فیصد تھے۔ ’’یہ ایک بہت زیادہ خوشگوار حیرت تھی،‘‘ ’’صبح تک میں ایک ویٹرس تھی، رات ڈھلتے ڈھلتے میں ایک رکنِ پارلیمان بن چکی تھی‘‘۔
ہسپانوی معیشت نے بحران کے بعد بحالی کا عمل بمشکل شروع کیا ہے۔ معاشی بحالی کا آغاز یہاں گزشتہ برس ہوا ہے۔ بیروزگاری کی شرح بدستور ۲۳ فیصد ہے، جوکہ یونان کے بعد یورپ میں سب سے زیادہ ہے، اور قومی قرضہ ۲ء۱ کھرب ڈالر ہے، جس کی بابت بیشتر معیشت دان کہتے ہیں کہ بہت خطرناک اور غیر متوازن ہے۔ لہٰذا یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ پوڈیموس کو کامیابی مل رہی ہے۔ حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ یہ جماعت اب اسپین کی سب سے مقبول سیاسی قوت ہے۔ جنوری میں ملک کے سب سے بڑے ’’کفایت شعاری مخالف‘‘ مظاہرے کے دوران میڈرڈ میں اس کے ایک لاکھ حامی جمع ہوئے۔ اگر آج قومی انتخابات ہو جائیں تو جائزوں کی رُو سے اِگلی سِیئس ملک کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔
امریکا میں رون پال کی صدارت کی طرح دو سال قبل اِگلی سِیئس کے عروج کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اسپین کے دو بڑے سیاسی گروہ، حکمراں (قدامت پسند) پیپلزپارٹی اور سوشلسٹس نے گویا اقتدار پر تالا لگا رکھا تھا اور اس اچانک تبدیلی کی بہت کم لوگ پیشگوئی کر پائے تھے۔ تاہم جب یہ ہوگیا تو اب سمجھ میں بات آتی ہے، خاص طور پر جنوری میں یونان کی معروف ’’سائریزا‘‘ پارٹی کی غیر متوقع کامیابی کے بعد۔ عوامی راج کا نظریہ سارے یورپ میں رواج پارہا ہے، جس کی عبوری وجہ وہ معیشتیں ہیں، جو اُن لوگوں کی مدد میں ناکام رہیں جو اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے۔
پوڈیموس یورپ کے نئے جزوی انقلاب کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے اور اس کے رہنماؤں کے پاس کچھ دلیرانہ معاشی تجاویز ہیں۔ ان میں کم سے کم اجرت میں اضافہ، ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی، ہفتے میں کام کرنے کے گھنٹے ۳۵ تک کرنا، مخصوص ٹیکسوں اور یورپی سرحدوں کے کنٹرول کا خاتمہ، عوامی سہولیات، ان بینکوں کو قومیانا جنہیں بحران کے بعد عوام کے پیسے سے بچایا گیا اور منافع کمانے والی کمپنیوں کو برطرفیاں نہ کرنے کا پابند بنانا شامل ہیں۔ پارٹی کے کسی سرکردہ رہنما نے اس مضمون کے لیے مؤقف نہیں دیا لیکن عوامی فورمز پر وہ اپنا ایجنڈا واضح کرچکے ہیں۔ وہ ملک کے بائیں بازو کے لوگوں کو اکھٹا کرنا چاہتے ہیں، سیاسی طبقے سے اقتدار لینا چاہتے ہیں اور اسپین کی دولت کو عام لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے کوئی بات نئی نہیں ہے اور زیادہ تر امور پر ہسپانوی بائیں بازو کی قوتوں کے لیے آگے بڑھنا آسان ہوگا۔ اِگلی سِیئس ایک جوان اور خداداد صلاحیت کے حامل مقرر ہیں۔ اپنی ’’پونی ٹیل‘‘ اور ملگجی داڑھی سے وہ ایسے شخص معلوم ہوتے ہیں جس کے ساتھ بیٹھ کر ’’بیئر‘‘ پینے کا دل چاہے۔ اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں وہ ایک خالص بیرونی شخصیت معلوم ہوتے ہیں، ایک ایسے سیاستدان کی مانند جس کے پاس تعلیمی صدر نشینی کی راحتیں چھوڑ کر ملک کو بدعنوان حکمرانوں سے نجات دلانے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا ہو۔
پھر بھی کچھ آزاد خیال لوگ اِگلی سِیئس اور ان کی جماعت کے بارے میں شبہات رکھتے ہیں۔ ان کو پریشانی ہے کہ پوڈیموس کے وینزویلا کی سوشلسٹ حکومت کے ساتھ روابط کہیں اسے مطلق العنانیت کی طرف نہ لے جائیں۔ حالیہ مہینوں میں اِگلی سِیئس نے اپنی اپیل کو مزید پھیلانے کی کوشش کی ہے اور ان کے کچھ رفقا نے یہ شک کرنا شروع کردیا ہے کہ اِگلی سِیئس کا اصل مقصد تبدیلی کی خاطر کم اور خود اپنے لیے اقتدار حاصل کرنا زیادہ ہے۔ پارٹی کی کامیابی کا دار و مدار اس صلاحیت پر ہے کہ وہ نچلی سطح پر فیصلہ سازی کے حامیوں اور اندرونی تبدیلی پر یقین رکھنے والے مرکزی سطح پر فیصلہ سازی کے معروف حامیوں میں فاصلے کیسے کم کرے گی۔ بارسلونا کی پومپیو فابرا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر گوئلیرمو کورڈیرو گراشیا کہتے ہیں کہ پوڈیموس کے زیادہ تر حامی وہ غیر متاثرہ شہری ہیں جو سیاسی جماعتوں اور اداروں پر اعتبار نہیں کرتے۔ یہی حقیقت پوڈیموس سے متعلق شبہات پیدا کرتی ہے۔
سانشیز پارٹی ناقدین کو مسترد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں پوڈیموس ایک حقیقت ہے اور بہت جلد لوگ دیکھیں گے کہ یہ کھوکھلے وعدوں والی جماعت نہیں ہے۔ ان کے بقول: ’’ہم محض عام لوگ ہیں، جو غیر معمولی کام کررہے ہیں۔ ہم نے یہ سب اپنے پیسے سے کیا ہے، ایک ایک یورو جوڑ کر‘‘۔
۱۹۷۸ء میں میڈرڈ میں پیدا ہونے والے پبلو اِگلی سِیئس ٹوریون کا نام انیسویں صدی میں ہسپانوی سوشلزم کے بانی پبلو اِگلی سِیئس پوزے کے نام پر رکھا گیا۔ ان کی والدہ ایک تجارتی یونین کی وکیل تھیں اور والد لیبر انسپکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے پروفیسر بھی تھے۔ اِگلی سِیئس نوجوانی کے وقت سے سیاست میں ہیں، جب وہ اسپین کی کمیونسٹ یوتھ یونین میں شامل ہوئے۔ انہوں نے قانون اور سیاسیات میں ڈگریاں حاصل کیں اور سوئٹزرلینڈ کے یورپین گریجویٹ اسکول سے مواصلات میں ماسٹرز کیا، جہاں انہوں نے سیاسی نظریات، سنیما اور تجزیۂ نفسی کی تعلیم حاصل کی۔
لیکن اِگلی سِیئس کوئی عمومی دانشور نہیں ہیں۔ انہوں نے برسوں دو سیاسی مباحثوں کی میزبانی کی ہے، جس کی بدولت وہ کیمرے کے آگے بہت پرسکون رہتے ہیں۔ انہوں نے ناکامیوں کا سامنا بھی پُرسکون انداز میں کیا ہے۔ گزشتہ برس ایک مباحثے میں انہوں نے کہا کہ ’’ناکامی میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ میرے رشتے کے پردادا کو گولی سے ہلاک کیا گیا۔ میری دادی کو سزائے موت دی گئی اور انہوں نے پانچ سال جیل میں گزارے۔ میری نانی، دادی نے خانہ جنگی میں شکست کے بعد کی ذلت برداشت کی۔ میرے والد کو جیل میں ڈالا گیا۔ میری والدہ خفیہ طور پر سیاست کرتی رہیں‘‘۔
ان کا بیانیہ ایک منکسر مزاج استاد سے متذبذب سیاست دان بن جانے والے کا ہے۔ حقیقت میں اِگلی سِیئس کو تمام باتوں کا علم ہے، کیونکہ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے ایسے رہنما ہیں جس نے برسوں منصوبہ بندی کی ہے۔ پوڈیموس کے حلقے اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح نچلی سطح تک حمایت حاصل کی جائے اور اسپین کی بدعنوان اشرافیہ پر اس کی توجہ کو ہی نصابی کتب میں عوامی راج کا نام دیا جاتا ہے۔
اب تک ان کی حکمتِ عملی کام کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ عام طور پر یورپی پارلیمانی انتخابات کو ووٹرز اپنا غصہ اتارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس پارلیمان کے ارکان اسپین جیسے ملک کو چلانے میں کوئی خاص کردار نہیں رکھتے۔ پھر بھی گزشتہ مئی پوڈیموس کے لیے بڑی کامیابی لے کر آیا۔ اپنی انتخابی ناکامی کے ایک روز بعد ہی سوشلسٹ رہنما الفریڈو پیریز روبالکابا نے اعلان کیا کہ وہ پارٹی کی سربراہی چھوڑ دیں گے۔ ایک ہفتے بعد شاہ جان کارلوس تخت سے دستربرداری پرراضی ہوگئے۔
اِگلی سِیئس اور ان کے حامیوں کے پاس ہسپانوی پارلیمان میں داخلے سے قبل آٹھ مہینے ہیں اور اس دوران شکوک میں مبتلا بہت سے افراد کو پلٹایا جاسکتا ہے۔ بیرنی ویلاپو وہ دوسری شخصیت ہیں جن سے میں نے جنوری میں بارسلونا جانے کے بعد پوڈیموس سے متعلق بات کی گئی۔ پہلے صاحب یوگا کے استاد تھے جو اِگلی سِیئس کا نام یاد نہیں کرسکے اور اسے ’’لمبے بالوں والا آدمی‘‘ کہتے رہے۔ ویلا ۲۵ برس کے ہیں اور ایک بینک میں ملازم ہیں۔ وہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور پوڈیموس کی بہت سی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں، مگر آئندہ موسمِ خزاں میں وہ اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ وہ مشرقی اسپین کے زیادہ تر باشندوں کی طرح اپنے آبائی علاقے کیٹیلونیا کی آزادی کے خواہاں ہیں اور انہیں پوڈیموس اور اِگلی سِیئس کا معاشی بدحالی پر ضرورت سے زیادہ بولنا بھی نہیں بھاتا۔
کیٹیلونیا اور دیگر علاقوں میں ویلا سمیت جن لوگوں سے بھی بات کی گئی، انہوں نے اصرار کیا کہ پوڈیموس کے ساتھ ان کا سب سے بڑا اختلاف پسِ پردہ رہنے والے لوگ ہیں۔ ہسپانوی بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کے خیال میں اِگلی سِیئس اور ان کے ساتھیوں کے ارادے مبہم ہیں کہ وہ کس طرح اپنے پروگرام پر خرچہ کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کریں گے، خاص طور پر جب ملک کے بھاری قرضوں کی بات کی جائے۔ ملک کے وزیراعظم ماریانو راجوئے نے گزشتہ ماہ ایک تقریر میں خبردار کیا کہ پوڈیموس محض ذہنی انتشار، غیر واضح تصورات اور اندرونی لڑائی کی پیشکش کرتی ہے۔ انہوں نے ہسپانویوں کو مشورہ دیا کہ وہ غیر سنجیدگی، نااہلی اور عوامی نعروں کے روسی جوئے خانے میں اپنے بچوں کا مستقبل نہ گنوائیں۔
ایک اور شکایت جو ووٹر اکثر کرتے ہیں، وہ کسی حد تک گھسی پٹی لگتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اِگلی سِیئس پر اعتبار نہیں کرتے، کیونکہ وہ طاقت کے بہت خواہاں ہیں۔ کچھ کے نزدیک اِگلی سِیئس کی حکمتِ عملی ایک اور عوامی نعرے لگانے والے کی یاد دلاتی ہے، وہ شخص جس سے پوڈیموس کے قریبی تعلقات تھے، یعنی وینزویلا کے آنجہانی صدر ہیوگو شاویز۔
پارٹی کی وینزویلا سے مرکزی وابستگی نظریاتی ہے۔ پوڈیموس مارکسی دور کے بعد نظریات پیش کرنے والے ارنیستو لاکلاؤ کے سیاسی فلسفے سے متاثر ہے۔ لاکلاؤ کا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی حاصل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ معاشرے میں بتدریج (انتخابات کے ذریعے) اثرو رسوخ بڑھانا اور حکمران اشرافیہ کو اپنا واضح ہدف بنانا ہے۔ اگر آپ اِگلی سِیئس کی گفتگو سنیں تو وہ اکثر طبقاتی نظام سے متعلق ہوتی ہے اور پوڈیموس کی طرح شاویز نے بھی اپنا راستہ نچلی سطح پر چھوٹی انجمنیں قائم کرکے ہی طے کیا۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے تیل کی آمدنی سرکاری سماجی منصوبوں پر خرچ کی، جسے عرصے سے نظرانداز غریب طبقے کی جانب سے بڑی پذیرائی ملی۔ لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ مطلق العنان بھی ہوتے گئے۔ شاید یہی ہسپانوی بائیں بازو کی پریشانی کی وجہ ہے، کیونکہ اِگلی سِیئس نے ایک مرتبہ وینزویلا کو ’’دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں سے ایک‘‘ قرار دیا تھا۔
پوڈیموس کے وینزویلا سے تعلقات محض نظریاتی ہی نہیں معاشی بھی ہیں۔ پارٹی کے تینوں بانیان، یعنی اِگلی سِیئس، جون کارلوس مونیدیرو اور انیگو ایری جون، شاویز حکومت کے مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
مبصرین کے نزدیک پارٹی کا اصل مسئلہ نچلی سطح کی احتجاجی تحریک سے خود کو ایک منظم سیاسی جماعت میں بدلنا ہے۔ یہ ارتقا درجہ بندی اور جچی تُلی حکمتِ عملی چاہتا ہے۔ پوڈیموس کے فیصلوں میں حلقوں کی آراء شامل ہوتی ہیں، مگر حالیہ مہینوں میں رابطہ کونسل کہلائے جانے والے گروپ کے پاس زیادہ طاقت آگئی ہے، جس کے ارکان اِگلی سِیئس منتخب کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ پارٹی کا پیغام منظم طریقہ سے عام ہو، تاکہ ووٹر بیزار نہ ہو جائیں۔
پارٹی کی جانب سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو راغب کرنے کے لیے ایک قدم گزشتہ ماہ اٹھایا گیا جب پوڈیموس نے تاجر برادری کو ساتھ ملانا شروع کیا، اور بینکوں اور دیگر کمپنیوں کو معاشی پالیسیوں سے آگاہ کیا گیا۔ صنعت کار متاثر تو نہ ہوئے مگر یہ قدم بتاتا ہے کہ اِگلی سِیئس محض ایک نظریاتی رہنما نہیں ہیں۔
عملیت پسندی اِگلی سِیئس کے فلسفے کا ایک مدت سے حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے شاگردوں سے اس مشکل کے بارے میں بھی بات کی جو انہیں سیاست پر ان لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیش آتی ہے جنہوں نے لینن اور مارکس کو نہیں پڑھا۔ پروفیسر نے شاگردوں کو اپنے مقاصد دوبارہ جانچنے کی ترغیب دی۔ گزشتہ برس ایک مباحثے میں انہوں نے سوال کیا کہ ’’کیا آپ کو دکھائی نہیں دیتا کہ مسئلہ آپ خود ہیں اور سیاست کا راست باز ہونے سے کچھ لینا دینا نہیں، بلکہ سیاست کامیاب ہوجانے کا نام ہے؟‘‘
اِگلی سِیئس کہتے ہیں کہ سیاسی کامیابی اپنے مثالیے (Ideal) کو جمہور کے مطالبے سے ہم آہنگ کرنے کا نام ہے جس کا مطلب ہے کہ ’’تضادات کے ساتھ سفر کیا جائے‘‘۔ اپنے نکتے کی وضاحت کے لیے انہوں نے لینن کی مثال یہ کہہ کر دی: ’’وہ بالوں سے محروم شخص جو ایک عبقری (Genius) تھا‘‘۔ اِگلی سِیئس کے بقول ۱۹۱۷ء میں روسی انقلاب کے دوران لینن نے روسی عوام کو، چاہے وہ سپاہی تھے، مزدور یا کسان، ایک سادہ پیغام دیا، اس نے جدلیاتی مادیت کی بات نہیں کی۔ اس نے ’روٹی اور امن‘ کی بات کی اور یہی بیسویں صدی کے بڑے اسباق میں سے ایک ہے۔
عملیت پسندی نومبر کے پارلیمانی انتخابات جیتنے میں پوڈیموس کی مدد کرے گی یا نہیں، یہ ایک کھلا سوال ہے۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ پارٹی کی حکمتِ عملی بہت مبہم ہے اور اِگلی سِیئس نچلی سطح کے کارکنان کی خواہشات کو ان لوگوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے جو پارٹی کو روایتی انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔ حالیہ جائزوں نے ظاہر کیا ہے کہ شاید پوڈیموس کی حمایت کم ہورہی ہے، جبکہ کچھ لوگ آنے والے مہینوں میں پارٹی کی مقبولیت مزید کم ہونے کی پیشگوئی کررہے ہیں، خاص طور پر اگر ’’سائریزا‘‘ یونان میں توقعات پوری کرنے میں ناکام رہی تو۔
لولا سانشیز کو امید ہے کہ منفی باتیں کرنے والے غلط ثابت ہوں گے۔ ان کی اسپین میں رہ کر گزارا کرنے کی صلاحیت کا دار و مدار اسی پر ہے۔ وہ پوڈیموس سے متعلق عوامی خدشات کو سمجھتی ہیں۔ مگر وہ پُراعتماد ہیں کہ ہسپانوی عوام کی اکثریت کو بہتر مستقبل دینے کے لیے پارٹی کی قابلیت پر لوگ اعتبار کریں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمارے پاس زندگی کا صرف ایک سال تھا اور ہمیں بہت سی چیزیں طے کرنی تھیں، ہم ہنوز اپنی جماعت اور اپنے پروگرام کو حتمی شکل دے رہے ہیں، لیکن لوگ اس بارے میں بہت واضح سوچ رکھتے ہیں کہ انہیں کس قسم کے ملک میں زندہ رہنا ہے‘‘۔
(مترجم: حارث بن عزیز)
“Is Pablo Iglesias Spain’s Barack Obama or its Vladimir Lenin?”. (“Newsweek”. April 4, 2015)
Leave a Reply