
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے قطر کا بائیکاٹ کرنے والے چار ممالک سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ دنوں جدہ میں ملاقات کی۔ اِن کا اُن حکومتوں سے ٹاکرا ہوگا جو اس بات میں یقین رکھتی ہیں کہ خطے میں خطرناک بدامنی کے پیچھے دوحہ کا ہاتھ کارفرما ہے۔ ہم یہ توقع تو نہیں کرتے کہ یہ ممالک اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ انھوں نے دوحہ کے حکام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اسی بنیاد پر ان کا بائیکاٹ کیا ہے۔
ریکس ٹیلرسن نے دوحہ میں پریس کانفرنس کے دوران جو بیانات جاری کیے ہیں اور جو اشارے کیے ہیں، ان سے تو کوئی خوش امیدی نظر نہیں آتی کیونکہ انھوں نے مسئلے کو بہت سادہ بنا دیا ہے اور اس کا حل یہ نکالا ہے کہ دوحہ حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں اور اس کے تحت قطر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عزم کیا ہے۔ مسئلے کا کیا حل ڈھونڈا ہے؟
تحریف وتصریف
قطریوں نے تنازع کی حقیقی وجوہ پر انھیں الجھانے کی کوشش کی ہے اور انھوں نے الریاض سمجھوتے اور اس کے ضمیموں میں کیے گئے وعدوں سے پھر جانے کی تفصیل کے افشا سمیت روایتی نکات پر احتجاج کی کوشش کی ہے۔مگر انھیں اس پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ ان دستاویزات کو سی این این کے حوالے کردیا گیا تھا۔ان سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ قطر نے خفیہ طور پر جو وعدے وعید کیے تھے،بین الاقوامی میڈیا میں اس کے بالکل برعکس کہا تھا۔
قطر ہی کو اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے کیونکہ خفیہ راز افشا کرنے کی جنگ اسی نے شروع کی تھی اور اس نے ۱۳؍مطالبات سمیت کویت کی ثالثی سے متعلق چاروں حکومتوں کے خفیہ پیغامات کو سب سے پہلے افشا کیا تھا۔قطر نے دراصل ایسا اس لیے کیا تھا تاکہ ان چاروں حکومتوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے۔
جدہ کا آج کا اجلاس اس وجہ سے تلخ ہوسکتا ہے کہ ٹیلرسن بظاہر قطر کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔اس شبے کو ان کے بیانات کی وجہ سے بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ انھوں نے دوسرے فریق کو سنے بغیر ہی یہ کہہ دیا ہے کہ قطر کے مطالبات معقول ہیں۔کیا امریکی وزیر خارجہ اگر چاہیں تو ایسے ہی قطری موقف کی جانب مائل ہوسکتے ہیں؟انھیں یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح مسئلہ اور پیچیدہ ہوجائے گا جبکہ وہ پہلے ہی بہت پیچیدہ ہوچکا ہے اور بحران طول پکڑ گیا ہے۔
بائیکاٹ کرنے والے چاروں ممالک کو قطر کی سرگرمیوں کی وجہ سے مالیاتی ، سیاسی ، میڈیا اور سکیورٹی کی سطحوں پر نقصان پہنچا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ پیش رفتوں کے نتیجے میں ان کے نظاموں کو براہ راست ہدف بنایا جارہا ہے۔
ٹیلرسن کوئی مصالحت مسلط نہیں کرسکتے ہیں۔تاہم وہ متحارب فریقوں کے درمیان فاصلے کم کرسکتے ہیں کیونکہ وہ سب ان کے اتحادی ہیں۔اس لیے انھیں کسی ایک فریق کی جانب جھکاؤ کے بجائے غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے۔بالخصوص اس وجہ سے بھی یہ قطر ہی ہے جس نے متعدد مرتبہ وعدے کیے اور پھر ان سے مکرگیا۔
تبدیلی سے انکار
دوحہ کے حکام جب تک تبدیلی سے انکار کرتے چلے آئیں گے، اس وقت تک کشیدگی بڑھتی ہی چلے جائے گی۔ہم یہ بات جانتے ہیں کہ دوحہ کیسے سوچتا اور دوسروں کو کیسے دھوکا دیتا ہے۔ ہم اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ وہ عام حالات میں اپنی روش تبدیل نہیں کرے گا اور بائیکاٹ کرنے والے چاروں ممالک بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ افراتفری کا شکار خطے میں اپنے اپنے وجود کا دفاع کررہے ہیں اور اس صورت حال میں ایران کے مقابلے کا بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ قطری حکومت کو وہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے کھلا چھوڑ دیں۔
اس بحران کے واضح اہداف ہیں اور وہ قطر کوروکنا اور اس کے تبدیلی کے منصوبے کو ختم کرانا ہے۔اگر یہ ممالک ان مقاصد کو حاصل نہیں کرپاتے تو پھر وہ اپنے اپنے وجود اور استحکام ہی کو معرضِ خطر میں ڈال دیں گے۔ مصر دہشت گردی کے خلاف جدید تاریخ میں ایک بڑی جنگ شروع کرنے جارہا ہے۔وہ قطر کو اس میں ایک فعال فریق خیال کرتا ہے، جس نے اپنے خفیہ فنڈ اور میڈیا چینلوں کے ذریعے پروپیگنڈے سے ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کے جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت پر اْکسایا ہے۔
سعودی عرب کو بھی اسی قسم کے خطرات کا سامنا ہے اور ان میں قطر کے ملوّث ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔متحدہ عرب امارات کا بھی یہی موقف ہے اور اس نے بالکل ابتدائی مرحلے میں ان خطرات پر قابو پا لیا تھا۔اس نے انتہا پسند گروپوں اور ان کے نظریے سے نمٹنے کے لیے کسی سے بھی کوئی رو رعایت نہ برتنے کی پالیسی اپنائی تھی۔بحرین کو قطر کی وجہ سے سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
اب اس تناظر میں ٹیلرسن کیسے ان چاروں ممالک کو ذمے دار فریق سے مصالحت پر آمادہ کرسکیں گے جبکہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں؟ قطر ماضی میں کئی مواقع پر اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہا ہے تو اب اس کے ارادوں کی کیسے جانچ کی جاسکے گی؟
بائیکاٹ کرنے والے چاروں ممالک ہی قطر کو نتھ نہیں ڈالنا چاہتے ہیں بلکہ اس خطے کے دوسرے ممالک بھی ان کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قطر ہی طوائف الملوکی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمے دار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ قطر کو خود اس سے ہی بچا سکتے ہیں۔قبل اس کے کہ اس کو اپنے مذموم اقدامات کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
(عبدالرحمان الراشد ’’العربیہ نیوز چینل‘‘ کے سابق جنرل منیجر ہیں۔)
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۲؍جولائی ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply