
عراق جنگ کے دوران امریکیوں نے ایک اصطلاح گھڑی تھی، پیوست صحافت (Embedded Journalism) جس کا بنیادی مطلب حکومتوں کی جانب سے میڈیا کا استعمال و غلط استعمال تھا۔ عراق میں داخل ہونے والے امریکن ٹینکوں میں صحافیوں کو بھی ٹھونس دیا گیا تھا تاکہ وہ جنگ کی، معصوم عراقیوں کے قتل عام کی خبریں دے سکیں اور تشدد کی تکالیف کو بتا سکیں۔ اس وقت سے ساری دنیا کا میڈیا اس اصطلاح سے جڑے رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے کام کر رہا ہے تاکہ حکومتوں کو خوش کیا جا سکے اور غلط معلومات کو سچائی کے نام پر پھیلایا جاسکے۔ بدقسمتی سے یہی بات ہندوستانی میڈیا پر بھی صادق آتی ہے جہاں رپورٹر، اشاعتیں، پبلی کیشنز اور نیوز چینل حکومتوں کے لیے اور حکومتوں کے ذریعہ کام کرتے ہوئے لوگوں کو بھٹکا رہے ہیں۔ جو لوگ دہلی میں حکومت کے مؤقف کو اختیار کرتے ہیں انہیں وزیراعظم کے دوروں میں شریک کیا جاتا ہے، انہیں ایسی خبریں دی جاتی ہیں جو دوسروں کو نہیں ملتیں، انہیں اقتدار کے گلیاروں تک رسائی ملتی ہے، انہیں گھڑی ہوئی معلومات دی جاتی ہیں اور موقع آنے پر انہیں اقتدار کی کرسیوں اور انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ انہیں صرف اپنے ضمیر کو قتل کرنا ہوتا ہے، صحیح کو غلط بتانا پڑتا ہے، صرف وہی سوال اٹھانے ہوتے ہیں جو ان کے ’آقا‘ یا ’استفادہ کنندگان‘ چاہتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ عوام کی آواز کوئی خبر نہ بن جائے۔ یہ روزانہ ہوتا ہے اور حکومت اپنے ٹیلی ویژن اور اخبارات کو ایسے انداز میں استعمال کرتی ہے جسے شاید سرکاری افسران تخلیقیت بتائیں، لیکن قدیم اصولوں کے لحاظ سے اسے صرف مکاری، گمراہ کن اور کُلّی طور پر بددیانتی کہا جائے گا۔ چنانچہ وزراء اپنے آپ کو بہت ہی کم وقت کے لیے چند ایک اونچے درجہ کے صحافیوں کے سامنے ’’انٹرویو‘‘ کے لیے پیش کرتے ہیں جو کہ درحقیقت پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور صرف اسی شرط پر دیا جاتا ہے کہ صحافی صرف ایسے سوالات پوچھیں جن کے جوابات موجود ہوں۔ پھر یہ گمراہ کن معلومات، معلومات میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور نئے مباحث یا حکومتوں کے لیے طے شدہ راستے پر چلنے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ آخر کس طرح آج کے صحافی حکومت کی فراہم کردہ اطلاعات کو انجیل کی بشارت سمجھتے ہیں۔ جس وقت ہم صحافی بنے تھے اس پیشہ کے ماہرین نے ہمیں حکومت کی کہی گئی ہر بات پر سوال اٹھانے اور بار بار سوال اٹھانے کی تربیت دی تھی۔ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ صحافی حکومت کے خیالات کی تشہیر کے لیے نہیں ہوتے، اس مقصد کے لیے تو خود حکومت کے پاس ایک طاقتور مشینری ہوتی ہے، ہندوستان میں صحافی عوام کی، غرباء کی، مظلوموں کی اور اچھوتوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ہیں۔
ان خصوصیات کو چند مخصوص نزاکتوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ زیادہ تر صدر مقاموں کی طرح دہلی میں بھی میڈیا کے لوگ چمک دمک کے ساتھ نمائندگی کرتے ہیں۔ امیر اور طاقتور، سیاست دان اور چنندہ صحافی کاندھوں سے کاندھے ملا کر بدمعاشوں کا ایک سلسلہ بناتے ہیں جو طاقت اور شہرت پر پلتا ہے۔ اور انہیں اصل صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ صحافت اس رپورٹر کے لیے بھی مردہ ہے جو سوچتا ہے کہ وہی خبر ہے یا وہ وہ خبر سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ دونوں ہی صحافت کے لیے موت کی گھنٹی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومتوں کو خبریں نیچے اوپر کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ میڈیا ان لوگوں کی مذمت کرتا نظر آتا ہے جنہیں پولیس ملک میں چند ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں پریڈ کراتی ہے۔ اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ یہ تمام لوگ بے قصور تھے اور کچھ اور ہی لوگ اس کے ذمہ دار تھے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ذمہ دارو ںکی شناخت ہو گئی لیکن ان لوگوں کا کیا ہو گا جنہیں گرفتار کیا گیا، ٹارچر کیا گیا اور جیلوں میں بند رکھا گیا؟ اس حقیقت کے ذمہ دار کون ہیں کہ ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں؟ اس کے لیے میڈیا اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ حکومتیں کیونکہ ہم ان زیادتیوں اور بدعنوانیوں پر گہری نظر رکھنے والے اور ان پر روک لگانے والے لوگ ہیں۔ لیکن جب صحافی پاور بلاک کا حصہ بن جاتے ہیں تو پھر مظلومین کے لیے بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جموں و کشمیر میں جو صحافی سچائی بتاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔ ایک سمجھوتہ کرنے والی حکومت پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کو لشکرِ طیبہ کے جنگجو بتاتی ہے اور دہلی میں میڈیا اس بارے میں بالکل غلط دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت اللہ نے جو خود بھی جموں و کشمیر پر حکومت کو مشورے دیتے ہیں، نیوز ایکس کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ یہ نوجوان بالکل بھی لشکرطیبہ کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن اس دعوے کو چیف منسٹر عمر عبداللہ اور ان کے سرپرست مرکزی وزیر داخلہ پی چدم برم نے پھیلایا ہے، جس کو میڈیا کی جانب سے حرفِ آخر سمجھ کر اٹھا لیا گیا۔ اس دعوے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کو دیکھیے، جیسا کہ اس نے حکومت اور میڈیا کی جانب سے اعتماد کے ایک اور پل کو توڑ دیا ہے۔ ٹھیک یہی صورتحال شمال مشرق میں بھی ہے اور اب یہ اہم ریاستوں کی بھی ہو رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کسی کو بھی ملک دشمن، دہشت گرد یا مائو نواز قرار دیا جا سکتا ہے اور میڈیا انہی خطوط پر آگے بڑھ کر چھتوں سے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتا نظر آتا ہے۔ جو دانشور، مائو نواز، غربت اور ترقیاتی کاموں سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کا تذکرہ کر رہے ہیں حکومت کی جانب سے انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ انہیں قتل بھی کیا جا رہا ہے اور اس دوران ’’اصل‘‘ میڈیا کی جانب سے احتجاج کی کوئی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ کیا یہی صحافت ہے؟ یا ہم سب صرف دلال بن چکے ہیں اور ہمارے ذہن سچائی کے بارے میں سوچے بغیر طاقتور انٹیلی جنس اور سرکاری اداروں کے پیچھے چل رہے ہیں؟ ہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ اپنے مخالفین کو دبانے اور ڈراکونی قوانین نافذ کرنے میں کمزور حکومتیں کتنی طاقتور ہوتی ہیں۔ ایک حکومت اپنے عوام سے جتنی زیادہ دور ہوتی جاتی ہے وہ سچائی کے بارے میں لکھنے والوں کے تعلق سے اتنی ہی تنگ نظر ہو جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایماندار صحافیوں کے خلاف ایکشن لینے کے لیے حکومت کے پاس تمام قوانین موجود ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک کے خلاف جنگ چھیڑنا، ایک ایسا الزام ہے جو حکومت اپنی آزادی سے استعمال کر سکتی ہے اور صحافیوں اور دیگر کو اپنی مرضی سے گرفتار کر سکتی ہے اور بند رکھ سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب چاہیں صحافیوں کو غائب کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومتیں ان صحافیوں کو گلے لگاتی ہے، ان کی تعریف کرتی ہے اور انہیں انعامات سے نوازتی ہے جو حکومت کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کی حمایت میں لکھتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود صحافت ایک عظیم پیشہ ہے۔ اور یہ کہ حکومت اور کارپوریٹ سازشیوں سے قطع نظر عوام کا جھکائو سچائی کی جانب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومتیں سچائی کو صرف ایک محدود عرصہ تک چھپا سکتی ہیں، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ چند اخبارات نے مل کر ایمرجنسی کو شکست دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سچائی باہر آہی جاتی ہے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply