
اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی رہتی ہے۔ اس وقت بھی ایران کی جانب سے اسرائیل کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد ایک سے زائد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کا انٹیلی جنس چیف مائر ڈیگن کہتا رہا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری یا حصول سے باز رکھنے کیلئے جو کچھ بھی کرنا پڑا وہ کیا جائے گا اور اگر اس معاملے میں چند مفادات کو داؤ پر لگانا پڑے تو ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔
اسرائیل کے سخت گیر سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سربراہوں میں مائر ڈیگن سر فہرست ہے۔ اس کی بد دماغی اور بد مزاجی مشہور ہے۔ اس کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ فوجی کالج میں تربیت کے دوران وہ فارغ اوقات میں چاقو ہاتھ میں لیکر درختوں اور کھمبوں پر کچھ نہ کچھ کھرچتا رہتا تھا۔ جیسے کسی سرکس کا کوئی انٹرٹینر کرتا ہے۔ اسے ابتدائی تمغوں میں سے ایک اس وقت ملا تھا جب اس نے غزہ کے علاقے میں ایک فلسطینی سے دستی بم چھین لیا تھا۔ اس نے فوج میں جو وقت گزارا اس میں اس کی توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ مسائل کو طاقت سے حل کیا جائے۔ فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی مسائل کو طاقت سے حل کرنے کی روش ہی پر وہ گامزن رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اسے دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کرنے والے ذرائع پر نظر رکھنے والی ٹاسک فورس کی سربراہی سونپی گئی۔ ایک مرحلے پر جب اسے بتایا گیا کہ ایک بینک ایران سے حماس کے لیے فنڈز حاصل کرتا ہے تو اس نے بینک کو جلا ڈالنے کا حکم دیا۔
موساد کی سربراہی کرتے ہوئے مائر ڈیگن کو آٹھ سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران اس نے کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ موساد کے سربراہ کو ادارے کے اہلکار اور افسران زیادہ احترام نہیں دیتے مگر ڈیگن کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ موساد میں سربراہ کو بالعموم پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ مگر ڈیگن کا معاملہ مختلف ہے۔ سویلین لیڈر بھی اس کے مشوروں کو مانتے اور اہمیت دیتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے وہ بہت کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اب اس نے ایران کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کو لاحق تمام خطرات کو وہ اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
امریکی صدر بارک اوباما ایران سے بات چیت کے حق میں ہیں۔ وہ فلسطینیوں سے بھی کوئی فوری ڈیل چاہتے ہیں۔ عوامی سطح پر اس حوالے سے کوئی تنازع نہیں پایا جاتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بھی کہتے رہے ہیں کہ ایران سفارت کاری کے ذریعے سخت گیر اقدامات سے گریز کی راہ پر گامزن ہو۔ اسرائیل پر ایران کے حملے کا خطرہ برقرار ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے لیے کارروائی کی تو خطے میں امریکی مفادات بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ امریکی فوجیوں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا کچھ ہوا تو مشرق وسطیٰ میں سب کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ مائر ڈیگن کی رائے یہ ہے کہ ایران کی جانب سے کوئی فوری حملہ متوقع نہیں اور اسی لیے اس پر حملے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا اپنا اندازہ ہے کہ ایران ۲۰۱۴ء تک ایٹمی ہتھیار تیار یا حاصل کرسکے گا۔ یہ اس کا ذاتی اندازہ اور تبصرہ ہے۔ موساد کے افسران کے سامنے وہ جو کچھ کہتا ہے اس سے بہت سوں کو مختلف اشارے ملتے ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کو ڈیگن کی باتوں ہی سے سخت گیر رویہ اپنانے کی تحریک ملتی ہے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ مائر ڈیگن کا رویہ اب نیتن یاہو کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی طرف لے جارہا ہے۔
اسرائیل کے لیے ایران ایک بڑا خطرہ سہی مگر خود اسرائیل کے اندرونی مسائل بھی کم خطرناک نہیں۔ کرپشن غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان میں حزب اللہ ملیشیا کے خلاف جنگ کے بعد سے ڈیگن مزید مستحکم ہوکر ابھرا ہے۔ اب اس کا شمار ملک کی مضبوط ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ ڈیگن نے موساد کو مزید سفاک بنادیا ہے۔ شام میں عماد مغنیہ کو ہلاک کرنے میں کامیابی نے ڈیگن کی پوزیشن مزید مستحکم کردی ہے۔ شام کے ایک ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ بھی موساد ہی کے پلیٹ فارم سے کیا گیا۔ امریکا نے دنیا کو بتایا کہ ایران کے شہر قم میں یورینیم افزودہ کیا جارہا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی موساد نے لے لیا۔ میڈیا میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈیگن کو وزیر اعظم کے دفتر نہیں جانا پڑتا بلکہ نیتن یاہو خود ڈیگن کے دفتر آکر بریفنگ لیتے ہیں۔
ڈیگن پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ ایران پر زیادہ توجہ دینے کے چکر میں دوسرے بہت سے امور کو یکسر نظر انداز کر رہا ہے۔ اسرائیل میں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو شام کو بڑے خطرے کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اس کے پاس بڑی فوج ہے اور ہتھیار بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ڈیگن کا خیال ہے کہ اسرائیل کو شام سے دوستی بڑھانی چاہیے تاکہ ایران اس سے متنفر ہو جائے۔ جب تک ایران اور شام کے درمیان اعتماد کا رشتہ برقرار ہے تب تک اسرائیل کے متعلقہ مفادات کی تکمیل ممکن نہیں۔
ڈیگن نے ۱۹۴۵ء میں سائبیریا کی ایک فریٹ کار میں پولینڈ تک سفر کیا تھا۔ تب وہ پانچ سال کا تھا۔ جس جہاز میں اس نے سفر کیا وہ کئی بار ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ طوفان میں بھی وہ ہاتھ میں نارنگی لیے عرشے پر کھڑا رہا۔ اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اس نے فوج میں کمانڈو بننے کی ٹھانی۔ فوج کے سلیکشن بورڈ نے اسے دھتکار دیا۔ اسرائیل فوج کے بعض افسران کا کہنا ہے کہ اس بے عزتی کو ڈیگن اب تک بھولا نہیں۔ بعد میں اس نے آرمر یونٹ میں اپنا نام لکھوایا اور کئی جنگوں میں حصہ لیا۔
۱۹۷۰ء میں اسرائیلی فوج کی جنوبی کمان کے سربراہ ایرل شیرون نے ۲۵ سالہ ڈیگن کو غزہ کی پٹی میں ایلیٹ فورسز کے دستے کی کمان سونپی۔ ایک بار وہ چند ساتھیوں کے ساتھ بھیس بدل کر غزہ گیا اور کئی فلسطینی حریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتار کر واپس آگیا۔ وہ لڑائی کے معاملے میں بے حد سفاک تھا اور بلا ضرورت بھی گولی چلانے کا قائل تھا۔ اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سے خطرات مول لیے اور اسرائیل کے چند مفادات کو نقصان بھی پہنچا۔ اسرائیلی اخبارات نے بھی اس کے طریق کار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ڈیگن نے خود بھی تسلیم کیا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی تاہم قتل کے احکام مختلف ضرور تھے۔ اس حوالے سے ایلیٹ فورسز پر پابندیاں کم تھیں!
۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے موساد کی جوانی پر مشتمل تھے۔ امریکا کو سرد جنگ کے دوران موساد کی ضرورت تھی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے وسط میں موساد نے کسی طرح روسی مگ طیارہ معائنے کے لیے حاصل کرلیا تھا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں فلسطینی گروپ ایک بڑے چیلنج کی شکل میں سامنے آئے۔ ۱۹۷۲ء کے میونخ اولمپکس میں فلسطینیوں نے اسرائیلی کھلاڑیوں کے دستے کے ارکان کو قتل کردیا تھا۔ اس دہائی میں موساد نے فلسطینی حریت پسندوں کو بھی بڑی تعداد میں قتل کیا۔
۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں موساد کا کردار گھٹ گیا۔ مقبوضہ علاقوں میں امن کے قیام اور سرکش عناصر سے نمٹنے کی ذمہ داری اسرائیلی انٹیلی جنس کی اندرونی شاخ شن بیت کو سونپ دی گئی۔
۱۹۹۷ء میں موساد کے سربراہ ڈینی یٹوم نے چند ایجنٹ عمان بھیجے تاکہ حماس کے لیڈر خالد مشعل کو زہریلا انجیکشن لگاکر موت کے گھاٹ اتاریں۔ اس مشن میں ناکامی پر ڈینی یٹوم کو مستعفی ہونا پڑا۔ یٹوم کے جانشین افرائیم ہالیوی خطرات مول لینے سے گریز کرتے تھے۔ ان کے دور میں عام ڈگر سے ہٹ کر چند ہی مشن مکمل کیے گئے۔ اس دوران یورپ اور امریکا کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی کہ موساد کے پاس خفیہ معلومات کم ہیں۔ عام طور پر موساد کا بجٹ خفیہ رکھا جاتا ہے تاہم یہ بات سامنے آگئی کہ افرائیم ہالیوی کے زمانے میں موساد کے بجٹ میں ایک چوتھائی کمی کردی گئی۔
ڈیگن نے ۲۰۰۰ء میں بنیامین نیتن یاہو کی انتخابی مہم جارحانہ انداز سے چلائی تھی۔ ۲۰۰۱ء میں اسے موساد کی سربراہی کا موقع ملا۔ اس نے اس ادارے کو خاصے جارحانہ انداز سے چلایا۔
اس نے دیگر بڑے خفیہ اداروں سے مل کر کام کرنے کا طریقہ اپنایا۔ وہ بہت کچھ بہت تیزی سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔
ڈیگن کے مختلف طریقۂ کار نے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی مخالفین بھی پیدا کیے۔ خفیہ اداروں کی سب سے بڑی جنگ فنڈز کے لیے ہوتی ہے۔ شن بیت بھی میدان میں تھی۔ موساد کو کم وسائل سے ایک بڑا حصہ لینا تھا۔ ملک کی دوسری خفیہ ایجنسیوں میں مخالفین کو خاموش رکھنا بھی بڑا مسئلہ تھا۔ ملٹری انٹیلی جنس میں بھی ڈیگن کے مخالفین پیدا ہوگئے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ملٹری انٹیلی جنس نے موساد جانا چھوڑ دیا۔ ڈیگن کے طریقۂ کار نے موساد میں بھی بہتوں کو پریشان کیا۔ وہ اچانک معائنے کے لیے پہنچ جایا کرتا تھا۔ ایجنٹوں پر دباؤ ڈالنا اس کا معمول تھا۔ وہ ہر حال میں بہترین نتائج چاہتا تھا۔ اس کے لیے وہ کسی کو رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس کے طریقۂ کار سے بد دل ہوکر متعدد افراد مستعفی ہوئے۔ ڈیگن نے کسی بھی صورت حال کی پروا نہ کی اور نئے سرے سے کام شروع کردیا۔ اس نے ایران پر غیر معمولی توجہ دینا شروع کی۔ حزب اللہ، حماس، اسلامی جہاد اور دیگر تنظیموں کو ہدف بنانے پر توجہ دی جاتی تھی جس سے موساد کی طاقت بٹ کر رہ گئی تھی۔ ڈیگن نے سمجھایا کہ کوئی بھی خفیہ ایجنسی تمام کام نہیں کرسکتی۔ چند اہم اہداف کو اپنانا ضروری ہے۔ اس نے ایران کو نشانے پر لیا۔
۲۰۰۲ء میں امریکا اور اسرائیل کے ایجنٹوں نے مل کر یہ انکشاف کیا کہ ایران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مدد سے یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔ یہ انکشاف دراصل ایرانی اپوزیشن نیشنل کونسل آف ریزسٹنس نے کیا تھا۔ اس انکشاف نے دنیا بھر میں کھلبلی مچادی۔ اس کے بعد عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں کئی حادثے ہوئے۔ سائنس دان غائب ہونے لگے۔ لیبیا کی ایک ایٹمی تنصیب میں آگ لگ گئی۔ طیارے گرنے لگے۔ ان تمام واقعات میں موساد کا ہاتھ تھا۔ ڈیگن نے جتنا فنڈ چاہا وہ اسے ملا۔
اسرائیل کی طاقتور ترین شخصیات میں ڈیگن کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اہم امور میں اس سے مشاورت کی جاتی ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس نہیں جاتا بلکہ خود وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو مشاورت کے لیے اس کے دفتر آنا پڑتا ہے۔ جو لوگ دمشق سے تعلقات بہتر بنانے کے حق میں ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانا ڈیگن اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے وہ وائٹ ہائوس کی پالیسی بیان کر رہا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے خفیہ ادارے بھی ایران کے معاملے میں موساد کے ہم نوا ہیں۔ ڈیگن اپنی پسند کی راہ پر گامزن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو کسی بھی طرح ختم کردیا جائے۔ اس معاملے میں وہ چند چھوٹے مفادات کی قربانی دینے کو بھی برا نہیں سمجھتا۔ اس کے طریقۂ کار سے اختلاف رکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر اسے فی الحال کسی کی پروا نہیں۔
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply