
۲۰ مارچ ۲۰۰۰ء کی بات ہے۔ امریکی صدر بِل کلنٹن کے ہیلی کاپٹر کو طے شدہ منصوبے کے تحت بنگلا دیش کے نہایت غریب گاؤں جے پور میں اترنا تھا۔ امریکی صدر جنوبی ایشیا کے دورے پر تھے۔ انہیں جے پور میں برگد کے ۱۵۰؍سال بوڑھے درخت کے سائے میں مقامی لوگوں سے خطاب کرنا تھا۔ مگر آخری لمحوں میں یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں کو ایک قتل کی سازش کا پتا چلا تھا۔ برطانیہ میں سرگرم دہشت گرد گروہ ’’یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف بین الاقوامی اسلامی محاذ برائے جہاد‘‘، جسے اسامہ بن لادن نے تشکیل دیا تھا، کے ارکان نے ایک طویل ای میل میں القاعدہ کے حامیوں کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ امریکی صدر کے ہیلی کاپٹر پر میزائل داغ دیں اور ’’کلنٹن کو واپس تابوت میں لوٹائیں‘‘۔
ٹھیک اُسی دن جب کلنٹن کو جے پور کا دورہ کرنا تھا، صنعا میں موجود بن لادن کے منصوبہ سازی کے مرکز میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ فورٹ میڈ، میری لینڈ میں قومی سلامتی ایجنسی (این ایس اے) کے ماہرین برائے انسدادِ دہشت گردی کے لیے یہ یمنی ٹیلی فون نمبر ۵۷۸۔۲۰۰۔۱۔۰۹۶۷؍ اہداف کی فہرست میں سب سے اوپر تھا۔ وہ چوبیس گھنٹے(۷؍۲۴) اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ لیکن اب ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ اس وقت یہ جاننے کا کوئی تکنیکی ذریعہ نہیں تھا کہ یہ فون کون کر رہا تھا۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ فون کرنے والا مجرم خالد المحضار تھا۔ یہ شخص ان لوگوں میں سے ایک تھا، جنہیں بن لادن نے مستقبل کے نائن الیون حملوں کے لیے چُنا تھا۔ وہ سان ڈیاگو، کیلی فورنیا میں اپنے اپارٹمنٹ سے کال کر رہا تھا۔
این ایس اے کو محضار کے بِن لادن سے رابطے کے بارے میں علم تھا اور اس سے قبل وہ محضار کا نام منصوبہ سازی مرکز کے ساتھ جوڑ چکی تھی۔ اگر این ایس اے کو یہ معلوم ہوتا کہ اس بار وہ ایک امریکی نمبر سے بِن لادن کے سوئچ بورڈ تک پہنچ رہا ہے تو ایجنسی سان ڈیاگو کی فون لائن کی قانونی طور پر نگرانی کرنے کا حکم نامہ حاصل کر لیتی۔ دراصل امریکا میں مشتبہ دہشت گردوں اور جاسوسوں کی خفیہ طور پر گفتگو سننے کی منظوری ’’غیر ملکی انٹیلی جنس نگران عدالت‘‘ دیتی ہے۔ محضار کی مقامی ٹیلی فون کالوں پر نظر رکھ کر ایجنسی یقینی طور پر محمد عطا سمیت اُن ۹/۱۱ واقعہ کے ہائی جیکرز تک پہنچ جاتی جو مشرقی ساحل پر قیام پذیر تھے۔ دوسرے الفاظ میں شاید ۹/۱۱ کو بیچ راہ میں ہی روک دینا ممکن تھا۔
نائن الیون گزرنے کے ڈیڑھ دہائی سال بعد، سان ڈیاگو اپارٹمنٹ سے کی جانے والی وہ کال اور اس کے علاوہ آدھ درجن مزید کالیں اس گرما گرم بحث کا مرکزی حصہ ہیں جو مقامی نگرانی کے حوالے سے این ایس اے کی سرگرمیوں کے بارے میں جاری ہے، یعنی ایجنسی کی جانب سے عوام کے ٹیلی فونوں کا میٹا ڈیٹا جمع کرنا۔ (میٹا ڈیٹا اُس بنیادی ڈیٹا کو کہا جاتا ہے جس سے مزید تفصیلات تک پہنچنے میں مدد ملے، مثلاً کال کا نمبر، وقت، مقام اور دورانیہ وغیرہ)۔ جارج ڈبلیو بُش اور براک اوباما انتظامیہ کا دعویٰ رہا ہے کہ ۲۰۰۱ء کا ’’پیٹریاٹ ایکٹ‘‘ اس عمل کی اجازت دیتا ہے۔ (یہ قانون اس سال جون میں معیاد پوری ہونے پر ختم ہو گیا اور اس کی جگہ امریکی ’’فریڈم ایکٹ‘‘ لایا گیا۔ نئے قانون کے تحت ’’غیر ملکی انٹیلی جنس نگران عدالت‘‘ کے وارنٹ کے بغیر این ایس اے کو ٹیلی فون کے میٹا ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔)
این ایس اے کے ڈائریکٹر (۱۹۹۹ء۔۲۰۰۵ء) مائیکل ہیڈن نے فرنٹ لائن کو بتایا کہ ’’نہ تکنیکی لحاظ سے، نہ ہی فون پر ہونے والی گفتگو سے ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ وہ سان ڈیاگو میں تھے۔ اگر اس وقت ہمارے پاس میٹا ڈیٹا پروگرام ہوتا تو سان ڈیاگو کے وہ فون نمبرز فوراً نمایاں ہو جاتے‘‘۔ یہ وہ احساس ہے جس کا ادراک اوباما سمیت بہت سے قومی راہ نماؤں کو ہے۔
لیکن قومی سلامتی ایجنسی کے کچھ سابق اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق ۲۰۰۰ء میں ایجنسی کے پاس اس بات کا تعین کرنے کی تکنیکی صلاحیت یقینا موجود تھی کہ بن لادن کے منصوبہ سازی کے مرکز پر آنے والی کالیں، کیلی فارنیا سے کی گئی تھیں۔
ایک سابق اعلیٰ تجزیہ نگار جے کرک وائیب، جنہوں نے اکتوبر ۲۰۰۱ء تک اور مجموعی طور پر ۳۲ سال قومی سلامتی ایجنسی میں کام کیا ہے، نے کہا کہ ’’یہ لوگ این ایس اے کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ اس ناکامی کی وجہ سے ہزیمت کا شکار ہیں‘‘۔
یمن میں موجود اسامہ بن لادن کے منصوبہ سازی کے مرکز کی نگرانی اتنی سخت تھی کہ این ایس اے کے آزمودہ کار ’’ڈھلواں لوہا‘‘ (Cast Iron) کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں۔ وائیب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب آپ کے پاس اتنا اہم ہدف ہوتا ہے کہ آپ اس فریکوئنسی سے اپنے رسیوَر کو کبھی نہیں ہٹاتے، نہ ہی اس ہدف کی طرف سے اپنا رسیوَر بند کرتے ہیں۔‘‘ اور ظاہر ہے، ہر فون ٹرانسمشن کے ساتھ خود بخود وہ معلومات ہوتی ہیں جن کے ذریعے متعلقہ فون کمپنیوں سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ کسی خاص نمبر کا کھوج لگانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جو چیز درکار ہوتی ہے، وہ فون کمپنیوں کے ریکارڈ یا ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔
واشنگٹن میں کھانے کی ایک نجی محفل کے دوران این ایس اے کے سابق اعلیٰ انتظامی رکن ولیم بنے نے وضاحت کے ساتھ بتایا کہ نگرانی کی غرض سے کال کو کس طرح بیچ میں روکاجاتا ہے۔ ولیم بنے ایجنسی کی دنیا بھر میں جاری خفیہ نگرانی کی کارروائیوں کو خودکار بنانے کے انچارج تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جب آپ کے پاس اس طرح کا اہم نمبر (کاسٹ آئرن نمبر) ہوتا ہے تو اُسے متعدد جگہوں پر زیرِ نگرانی رکھا جاتا ہے۔ جیسے ہی اس نمبر سے کوئی کال آتی یا جاتی ہے، تمام جگہوں پر اشارہ موصول ہوتا ہے اور سب سے پہلے وہ کال ریکارڈ کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جیسے ہی این ایس اے ماہرین کو نقل نویس دستیاب ہوتا ہے، جلد از جلد اس کو تحریری شکل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ اشارہ سیٹلائٹ یا کیبل یا دونوں کے ذریعے جا سکتا ہے اور اس کے بعد تعاون کرنے والی فون کمپنیاں اسے سیدھا ہمارے ریکارڈرز میں بھیج دیتی ہیں۔‘‘
زمین پر موجود ڈشوں سے سیٹلائٹس کو ملنے والے اشاروں کے علاوہ، این ایس اے کی پہنچ سیٹلائٹس کے اندر تک بھی تھی۔ یہ پہنچ زیادہ تر مواصلاتی کمپنیوں کے عہدیداروں کے ساتھ خفیہ معاہدوں کے ذریعے حاصل ہوتی تھی اور بعض اوقات اعلیٰ انتظامیہ بھی اس بارے میں بے خبر ہوتی تھی۔ سیٹلائٹس تک رسائی کی بدولت این ایس اے اپنی مرضی سے ان ملکوں اور شہروں کے کوڈ یا مخصوص ٹیلی فون نمبرز منتخب کرنے کے قابل تھی جن کی وہ نگرانی کرنا چاہے اور معلومات خفیہ طور پر ایجنسی کے دفتر پہنچانا چاہے۔
ایک دوسرے اعلیٰ سطحی این ایس اے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ جن کمپنیوں کے ساتھ ایجنسی کے تعلقات تھے، ان میں ایک سیٹلائٹ مواصلاتی کمپنی ’’انمارسیٹ‘‘ بھی شامل تھی۔ بن لادن نے، جب وہ افغانستان میں تھا، اپنے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے اس کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ انمارسیٹ مسیح کے تحفظ کے لیے ہے۔ ہمارے پاس مخصوص انتظامات موجود ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ انتظام پرزم سے ملتا جلتا ہے۔ پرزم این ایس اے کا وہ پروگرام ہے جس کے تحت اس نے صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے مرکزی انٹرنیٹ کمپنیوں مثلاً ’’گوگل‘‘ اور ’’یاہو‘‘ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ این ایس اے ایک اور مرکزی سیٹلائٹ نظام کی بھی خفیہ طور پر نگرانی کے قابل تھی اور وہ تھا الثریا۔ متحدہ عرب امارات کی یہ کمپنی یورپ، ایشیا، افریقا اور مشرقِ وسطیٰ کے ۱۶۰ سے زیادہ ممالک کو موبائل کوریج فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی، اپنے قبیل کی دیگر کمپنیوں کی طرح، مواصلاتی اشاروں کو سیٹلائٹ کی طرف بھیجنے سے پہلے ایک خفیہ کوڈ کے ذریعے بدل دیتی ہے اور پھر واپس زمینی اسٹیشن کی جانب بھیجنے سے پہلے بھی ان اشاروں کو خفیہ کوڈ سے بدلا جاتا ہے۔ (تکنیکی زبان میں اس عمل کو انکرپشن کہتے ہیں)۔ تاہم این ایس اے نے اس کا خفیہ کوڈ توڑ لیا۔ ذریعہ نے بتایا کہ ’’ہماری معلومات تک پہنچ کا راز یہ تھا کہ ہم بہت پہلے ہی اثریا کمپنی کے کوڈ کا پتا لگا چکے تھے۔ عام طور سے ہم جب چاہتے، سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کو بیچ میں روک کر ہونے والی بات چیت سُن لیتے۔ ہم کوئی بھی ایسا نمبر منتخب کر سکتے تھے جو کال کر رہا ہو یا جس پر کال کی جا رہی ہو اور حرف بہ حرف کوئی بھی گفتگو براہِ راست یا بعد از وقوع سن سکتے تھے۔ ایک چیز جس میں این ایس اے نے کافی مہارت حاصل کر لی تھی، وہ سیٹلائٹ مواصلاتی نظاموں کا توڑ کرنا تھا‘‘۔
دوسرے الفاظ میں این ایس اے یمن میں موجود القاعدہ کے منصوبہ سازی مرکز سے آنے اور جانے والی ہر کال کو مانیٹر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، اُن ۲۲۱ کالوں کو بھی جو افغانستان میں موجود بِن لادن کے فون سے آئیں۔
نائن الیون کے بعد تھامس ڈریک، جو این ایس اے کی اعلیٰ انتظامی سروس کے رکن ہیں، کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایوانِ بالا کی ذیلی کمیٹی کو ایک بند کمرہ سماعت میں اس بارے میں آگاہ کریں کہ حملوں کے وقت ایجنسی کتنی باخبر تھی۔ اپنی تحقیق کے دوران ڈریک نے اُن ٹیلی فون کالوں کی نقول دریافت کیں جو المحضار نے صنعا کے منصوبہ سازی مرکز پر کی تھیں۔ ایک حالیہ عشائیہ میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ’’بنیادی طور پر ہم اس ٹھکانے کی ۱۹۹۶ سے ’کاسٹ آئرن‘ نگرانی کر رہے تھے۔ لوگ اس بات کا اندازہ نہیں کرتے کہ ایجنسی نیٹ ورک کے بارے میں درحقیقت کس حد تک جانتی تھی‘‘۔ (ڈریک نے ۲۰۰۷ء میں ایجنسی چھوڑ دی تھی اور بعد میں ان پر بالٹی مور سَن کو این ایس اے کی دستاویزات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ الزامات آخر کار رَد کر دیے گئے۔ راقم ان کی دفاعی ٹیم کا ایک رکن تھا۔)
جب ڈریک نے ہیڈن کا انکار سنا کہ این ایس کے پاس یہ متعین کرنے کی تکنیکی صلاحیت نہیں تھی کہ محضار سان ڈیاگو سے کال کر رہا تھا تو انہوں نے اس سے قطعاً اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا ’’یہ درست نہیں۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ ہر وہ نمبر جو اس سوئچ بورڈ میں آتا تھا، اس کے بارے میں کلی طور پر پتا ہوتا تھا کہ وہ نمبر کون سا ہے اور کہاں سے آیا ہے، صاف صاف پتا ہوتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ نمبر آگے نہ پہنچ پاتا‘‘۔
ڈریک کے مطابق ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ ۱۱/۹ حملوں سے پہلے این ایس اے دوسری وفاقی ایجنسیوں کے ساتھ اپنی معلومات کا تبادلہ نہیں کرتی تھی اور یہ واقع ہونے کے بعد اس نے اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ ڈریک نے بتایا کہ انہوں نے امریکی ایوان بالا کی ذیلی کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ میں یہ سب کچھ لکھا، مگر این ایس میں ان کے افسر نے اس رپورٹ کو رَد کر دیا اور بعد میں اس نے ان کا نام اس فہرست میں سے خارج کر دیا جنہیں کمیٹی کے سامنے بیان دینا تھا۔
جن باتوں کا انکشاف ڈریک نے کیا ہے، ان کی تصدیق مائیکل شوئیر بھی کرتے ہیں۔ مائیکل شوئیر ۱۱/۹ حملوں سے پہلے سی آئی اے کی بِن لادن ڈیسک پر مقرر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ این ایس اے یمن میں موجود القاعدہ کے منصوبہ سازی مرکز کی ’’کاسٹ آئرن‘‘ نگرانی کا نظام وضع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، مگر اس نے یہ خام معلومات ان کی ایجنسی کو دینے سے انکار کیا۔ شوئیر نے کہا کہ ’’انمارسیٹ کی کالیں بہت اہم تھیں اور ہمیں یہ بات اس لیے معلوم تھی کہ این ایس اے نے ہمیں بتائی تھی۔ نہ صرف ۱۱/۹ واقع ہونے سے پہلے بلکہ (۱۹۹۸ء میں) مشرقی افریقا اور دیگر جگہوں پر حملوںسے پہلے بھی‘‘۔
شوئیر کے مطابق چونکہ این ایس اے نے اپنی معلومات سی آئی اے کو دینے سے انکار کر دیا تھا، چنانچہ بے چارگی کی کیفیت میں سی آئی اے نے کالوں کو روک کر نگرانی کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا علیحدہ سیٹلائٹ ڈش بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخرکار، سی آئی اے نے کالوں کی گفتگو حاصل کرنے کی اپنی علیحدہ صلاحیت حاصل کرلی۔ لیکن ہم صرف ایک طرف کی گفتگو حاصل کر سکتے تھے، مجھے یاد نہیں کہ وہ سیٹلائٹ کی طرف جانے والے اشاروں کو حاصل کرنے کی صلاحیت تھی یا سیٹلائٹ سے زمین پر آنے والے اشاروں کو حاصل کرنے کی۔ (سیٹیلائٹ کی طرف جانے والے اشاروں کے ذریعے فون سے کی جانے والی کال پکڑی جاسکتی ہے جبکہ سیٹلائٹ سے زمین کی طرف آنے والے اشاروں کی مدد سے آنے والی کال کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔) یہ بنیادی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور اس کا ترجمہ کرنے کے بعد، سی آئی اے مزید معلومات کے لیے این ایس اے سے درخواست کرتی تھی، تاکہ ہم بہتر طریقے سے اسے سمجھ سکیں۔ مگر ہمیں کبھی وہ معلومات نہیں ملیں‘‘۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’’ہم نے تقریباً ۲۵۰ برقی پیغامات بھیجے، اور ان میںسے کسی ایک کا بھی کبھی جواب نہیں دیا گیا‘‘۔ نائن الیون کمیشن کے مطابق، معاملات کو جو چیز مزید بدتر کرتی ہے، وہ یہ حقیقت ہے کہ این ایس اے نے ایف بی آئی کے ساتھ بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا۔
نائن الیون حملوں کا کھوج لگانے یا دوسری ایجنسیوں کو اس بارے میں مدد فراہم کرنے میں ناکامی، ایک ایسی ایجنسی کے لیے جو رازوں سے بھری ہوئی ہے، عمیق ترین اور تاریک ترین ناکامی ہے۔ کئی سالوں سے اپنی بھیانک غلطی کے اصل اسباب سے پردہ اٹھانے کے بجائے، ایجنسی نے اس کہانی کو پھیلایا ہے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر وہ ۲۰۰۰ء میں سان ڈیاگو والی کال نہ پکڑ سکی۔ نتیجتاً بُش اور اوباما انتظامیہ نے وہ اقدامات کیے جن کی وجہ سے ایک دہائی سے زیادہ تک امریکیوں کی فون کالوں کی زبردست نگرانی ہوتی رہی۔
’’ڈریک نیٹ میٹا ڈیٹا پروگرام‘‘ جسے اس سال بالآخر وفاقی اپیل کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا، مقامی نگرانی کا آج تک چلایا گیا سب سے زیادہ خفیہ اور بڑا پروگرام تھا۔ لیکن عوام کو اس کا تب پتا چلا، جب ایڈورڈ اسنوڈن نے راز افشا کیے۔ آج این ایس اے کے دوسرے مخبرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس پروگرام کی بنیاد ایک جھوٹ پر تھی۔ وہ سخت سوالوں کے جوابات بھی مانگ رہے ہیں۔ نگرانی کے دوران بعض کلیدی فون نمبرز کس طرح چھوٹ گئے؟ وہ واقعی پکڑے نہیں جاسکے یا یہ کہانی محض ایک جھوٹ ہے؟ اور این ایس اے نے سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ ان تمام معلومات کا تبادلہ کیوں نہیں کیا، جو اس نے یمن میں بن لادن کے منصوبہ سازی مرکز سے حاصل کی تھیں؟
نائن الیون کے چودہ سال بعد، این ایس اے اور وائٹ ہاؤس کے لیے وقت آگیا ہے کہ حقیقت میں جو ہوا تھا، اُس سے پردہ اٹھائے اور ایک بار ہمیشہ کے لیے افسانے اور جھوٹ کو حقائق اور سچ سے بدل دے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Is the NSA lying about its failure to prevent 9/11?”. (“Foreign Policy”. July 15, 2015)
Leave a Reply