انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا، اس کا زوال اورپس ماندگی ساری انسانیت کے لیے تشویش ناک ہے۔ اگرعروجِ آدمِ خاکی سارے انسانوں کے لیے مایۂ افتخار ہے تو زوالِ بشر بھی سب انسانوں کے لیے باعثِ رنج ہونا چاہیے۔
مشرق کے زوال پر تو بڑے نوحے لکھے جا چکے اور حکمائے بشر نے اس کی نجات کے لیے فکر انگیز نسخے تجویز کیے ہیں لیکن اہل مغرب کو اپنی خرد فروزی اوردانش مندی پر گذشتہ دو صدیوں سے بڑا ناز ہے۔ مغرب میں انسانی فکر کی آزادی اور فکر کے ارتقانے جو جلوے دکھائے ہیں ان کے خیرہ کن ہونے کا کوئی بیناشخص انکار نہیں کر سکتا۔ مغرب کے دانش مندوں نے کلیسا کے استبداد کا جس جرأت مندی سے مقابلہ کیا اُسے آج تک آزاد منش انسان خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ حرّیت فکر اور حقوق انسانی کے بلند بانگ آوازے میں اُن کا بڑا حصہ ہے۔ قانونی اور آئینی حکومتوں کے قیام و ارتقامیں اُن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کائنات کے رازوں اورخزانوں کی دریافت میں اُن کا بڑا کردارہے۔علوم طبیعی و انسانی کے حیرت انگیز فروغ کاکارنامہ ان صدیوں میں اُن کے نام ہے۔
البتہ کلیسا کے استبداد کے خلاف ’’ردّعمل‘‘میں کچھ منفی پہلو بھی موجود تھے اور ’’ردّعمل‘‘کے مزاج میں یہ بات شامل ہے۔ مشرق و مغرب کے کئی فیلسوف مغربی تہذیب کی بنیادوں میں کارفرما معرفتِ کائنات کے نقائص کی طرف متوجہ کرتے چلے آئے ہیں اوران کی پیش گوئیوں کے مطابق یہ تہذیب رفتہ رفتہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم آج بھی حکم فرما قوتوں کے اجتماعی شعور میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرکے تباہی کو روکاجاسکتا ہے یا ٹالا جاسکتا ہے۔
اسی جذبے کے تحت ہم اس امر کی نشاندہی مناسب سمجھتے ہیں کہ ہماری رائے میں مغربی سماج رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی خطرناک لہر کی گرفت میں جارہا ہے۔
سیکولرزم کا مغربی تصور ابتدا میں کلیسا کے استبداد کے خلاف انسانی وجدان کی آواز کے طور پر مشخص ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کسی انسان یا انسانی گروہ کو زبردستی اپنی عقاید یا نظریات کسی فرد یا معاشرے پر مسلط کرنے کا حق نہیں، کیونکہ کلیسا کے اہل حل و عقد خدا، انسان، کائنات، زمین، تاریخ، افراد گویا ہر چیز کے بارے میں اپنے افکار’’ناگزیر اورغیر متبدل مذہبی عقاید‘‘ کے نام پر مسلط کیے ہوئے تھے اورانھیں دلیل و شاہد کی بنیاد پر بھی نہ ماننے والوں پر وہ ظلم روا رکھتے اورشکنجوں میں کستے۔ کلیسا کے استبداد کی یہ تاریخ بڑی وحشت ناک اور غم انگیز ہے۔ اس کے خلاف مغرب کے آزاد اندیش انسانوں نے ہر فرد بشر کو کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ اختیار کرنے میں آزاد ہونے کا حق دیا۔ ان کی رائے تھی کہ انسان لباس، زبان، مذہب، رائے، شادی وغیرہ میں آزادہے۔ حکومت کو اس آزادی کا نگہبان ہونا چاہیے،حکومت کے افراد جو مرضی رائے اور عقیدہ رکھیں لیکن حکومت کا کوئی ایسا عقیدہ نہ ہو جسے وہ زبردستی عوام پر مسلط کرے۔ اسی کو سیکولرزم کہتے تھے۔ سیکولرزم اُن کے نزدیک ’’غیرفرقہ وارانہ نظام حکومت‘‘ سے عبارت تھا۔ کلیسا کے ذمہ داروں نے اپنے آپ کو’’دین کا علمبردار‘‘ اور سیکولرزم کو ’’لادینیت‘‘ سے تعبیر کیا۔ بہت سے مغربی دانشورجب سیکولرزم کو روحانیت(Spirtulism) کے مقابل استعمال کرتے تو اُن کا موقف یہ ہوتا کہ روحانیت کے امور اس کے علماء کے ذمے ہیں جبکہ دنیاوی اور سیاسی امور اُن کے حیطۂ علم و مہارت سے باہر ہیں لہٰذا دونوں کے اہل علم اورماہرین اپنی اپنی حدود میں اظہار نظر کریں۔ ضروری نہیں کہ ہم ایسی لگی بندھی (Hard & Fast) تقسیم کو قبول کریں تاہم یہ امر واقعیت رکھتا ہے کہ مشرق کی سرزمین پر ہمارے بعض اہل دین نے مغرب کے اس پس منظر سے شاید ناواقفیت کی بنیاد پر سیکولرزم کو اپنے ہاں کے ’’دین‘‘ کے مقابلے میں ’’لادینیت‘‘ سمجھ لیا۔ ہمیں اس وقت اس بارے میں گفتگو نہیں کرنا۔ ہماری رائے میں مغرب میں رفتہ رفتہ ’’سیکولرزم‘‘ کو ’’مذہب‘‘ بنایا جارہا ہے اور سیکولرزم کے جن’’مظاہر‘‘ پر حکمران طبقے کا’’ایمان‘‘ ہے اُنھیں زبردستی اُسی طرح معاشرے پر نافذ کررہا ہے جس طرح کبھی کلیسا اپنے تصورات اورمظاہر دین کو زبردستی نافذ کرتا تھا۔ اس کی ایک مثال پردے اورحجاب کے خلاف مغرب میں جاری’’جہاد‘‘ ہے۔
سیکولرزم کے بنیادی اورسادہ تصور کے مطابق تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ مغرب میں موجود ہر خاتون کو آزادی ہوتی۔ جو خاتون حجاب اختیارنہیں کرتی اُسے زبردستی حجاب کا پابند نہ بنایا جاتا اور جو خاتون حجاب کو اختیار کرناچاہتی اُسے زبردستی بے حجاب نہ کیا جاتا یعنی کسی کا طرز عمل زبردستی دوسرے پر نہ ٹھونسا جاتا لیکن ہو کیا رہا ہے؟ بالکل سیکولرزم کی روح کے منافی مغرب میں حکمران طبقے میں موجود متشدد عناصر کے نزدیک بے پردگی اور بے حجابی سیکولرزم کا مظہر اور قدر (Value) ہے جبکہ حجاب اس کے خلاف ہے لہٰذا جو عورت اسے اختیار کرتی ہے اُس کے خلاف ایسی قانون سازی کی جائے اورایسی فضا بنائی جائے کہ ہماری اصطلاح میں اُس کا حقہ پانی بند کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ مجبور ہوکر حجاب اتار دے۔ اس صورت حال کو وحشت ناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
مغرب کی مختلف حکومتیں اس سلسلے میں قانون سازی کر چکی ہیں۔ مختلف اداروں نے اپنے طور پر اس کے بارے میں ضوابط اور قوانین بنا لیے ہیں۔ یورپی پارلیمان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔یوں لگتا ہے جیسے چند عورتوں کا حجاب، جن کی تعداد مغرب میں 0.5فیصد بھی نہیں ہے، مغربی معاشرے کی ترقی اور سلامتی کے راستے میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
حجاب کے خلاف عوامی جذبات اس قدر برانگیختہ کیے جا چکے ہیں کہ جرمنی میں مصر کی ایک خاتون مروہ الشربینی کو بھری عدالت میں ایک جنونی نے فقط حجاب کی وجہ سے قتل کر ڈالا جس نے ’’شہیدہ حجاب‘‘ کے نام سے شہرت حاصل کی۔
معاملہ حجاب کی مخالفت پر ہی نہیں رُک گیا۔ سویٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے خلاف برپا کی جانے والی تحریک اور مغرب میں مساجد کے قیام میں پیدا کی جانے والی نفرت انگیز رکاوٹیں، مسلمانوں کے مسلسل احتجاج کے باوجود رسول اسلامؐ کے توہین آمیز کارٹونوں کی کثرت اورپھر سرعام اعلانات کے بعد قرآن مجید کو جلانے کے واقعات سب مغربی معاشرے میں عدم رواداری، عدم برداشت، انتہا پسندی اور شدت پرستی کی بڑھتی اور امنڈتی ہوئی لہر کی غمازی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مغرب میں آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق اور سیکولرزم کا مثبت تصور سب کچھ خطرے میں ہے۔
ہمیں اس امر کا اعتراف ہے کہ ان میں سے بعض واقعات کے خلاف مغربی دانشوروں، بعض سیاستدانوں اور بہت سے مذہبی رہنمائوں نے آواز اٹھائی ہے۔ اُن کا یہ طرز عمل لائق ستائش اور قابل قدر ہے۔ انہی بیدار ضمیر انسانوں کے وجود سے امید کی ایک کرن ابھرتی ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا شدت پسندوں کی ہیجان انگیز روش کے مقابلے میں ان دردمندوں کی آواز کب تک اورکس قدر تاثیر آور رہے گی۔انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے شور اورہنگامے میں کہیں ان کی صدانقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر نہ رہ جائے۔
فرض کیجیے کہ مغرب کے چند ملین مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر، قانون اور پولیس کے ذریعے یا سماجی دبائو سے بعض چیزوں پر قائل اور مائل کر بھی لیا جائے تو مزاجوں کی یہ تشدد پسندی معاشرے میں کیا رس گھولے گی۔ کیا یہ دیگر مختلف طبقات میں نفرت، عداوت اورمعرکہ آرائی کی صورت میں ظہور نہ کرے گی؟ اس سے آخر کار مغرب کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہم بڑی دردمندی سے مغرب کے اہل حل وعقد سے عرض کریں گے کہ
فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ؟ (سورۃ التکویر:۲۶)
پس تم کدھر کوجاتے ہو؟
☼☼☼
Leave a Reply