یمن کی قومی ایئر لائن یمنیا کے دوران پرواز تقسیم کیے جانے والے جریدے میں آج بھی ملک کے شمال میں کافی کی پیداوار کے لیے مشہور پہاڑی علاقوں میں قدیم عرب کا منظر پیش کرنے والے دیہات اور کبھی ملکہ صبا کا مسکن قرار پانے والی مشرقی وادیوں کی جانب سیاحوں کی توجہ مرکوز کرنے والے مضامین ملتے ہیں۔ مگر آج کل یمن میں اپنی عمومی ڈگر سے ذرا ہٹ کر چلنے والے کسی بھی شخص کو غیر معمولی مہم جوئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ملک کا دو تہائی حصہ حکومت کی عملداری سے باہر ہے۔ اس پر علیحدگی پسند عناصر یا مقامی قبائلیوں کا کنٹرول ہے جو مرکزی حکومت سے اپنی شرائط منوانے کے لیے غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کرتے ہیں۔ عام طور پر ان سیاحوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ جون میں البتہ اس کے برعکس ہوا۔ جرمنی کی دو اور جنوبی کوریا کی ایک سیاح سمیت نو غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا گیا اور بعد میں ان کی مسخ لاشیں چرواہوں نے دریافت کیں۔ اس نوعیت کے واقعات کے بعد حکومت نے سیاحوں اور صحافیوں کو دارالحکومت صنعا اور عدن سے ملحق ساحلی علاقوں کے سوا کہیں بھی جانے سے روک دیا۔
گزشتہ ماہ سنیوں کی اکثریت والی حکومت نے حَوثی کے نام سے معروف شیعہ باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ ان پر غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ حکومت اور شیعہ باغیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ ۲۰۰۴ء میں شروع ہوا تھا جب حکومت نے ایک ’’حَوثی‘‘ لیڈر کو قتل کیا تھا۔ اس قتل کے نتیجے میں شیعوں کے زیدی فرقے کے پیروکار یہ محسوس کرنے لگے کہ سنی اکثریت والی حکومت انہیں ختم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اور باغیوں کی لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور شمالی صوبے صعدہ میں لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ باغیوں سے جھڑپوں کے دوران حکومت نے بمباری اور گولہ باری بھی کی ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنائے جانے والی اجتماعی سزا کے طریق کار اور امداد روک کر مقامی باشندوں کو باغی ہونے پر مجبور کرنے والے اقدامات نے یونیسیف اور دیگر اداروں اور تنظیموں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس صورت حال کا موازنہ سوڈان میں دارفر کی صورت حال سے کریں۔
صنعا میں متعین مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ یمن میں غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت میں القاعدہ کے ارکان کا ہاتھ ہے۔ سعودی عرب اور عراق میں غیر معمولی دبائو کے باعث القاعدہ کے ارکان اب یمن کے پہاڑی علاقوں سے وارداتیں کر رہے ہیں۔ امریکی حکام اور دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہرین اس خیال کے حامل نہیں، یمن بہت جلد صومالیہ کی طرح ناکام ریاست میں تبدیل ہوجائے گا، تاہم چند اشارے ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات ابتر ہوتے جائیں گے۔ ایک طرف شیعہ باغی ہیں، دوسری طرف ساحلی علاقوں میں قزاق دندناتے پھر رہے ہیں اور تیسری جانب معیشت کی خرابی ہے۔ تیل کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور پھر پانی کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے۔
جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں واقع یمن ۲ کروڑ ۳۸ لاکھ نفوس کی آبادی والا ملک ہے جس کا شمار مشرقی وسطیٰ کی غریب ترین اقوام میں ہوتا ہے۔ ۱۹۹۰ء تک جنوبی اور شمالی یمن میں بٹا ہوا ملک اب متحد حالت میں ہے۔ اس خطے میں جہادی کلچر طویل مدت تک پنپتا رہا ہے۔ سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے یمن سے سیکڑوں مجاہدین افغانستان گئے۔ عراق میں ہلاک، زخمی اور گرفتار ہونے والے یمنی باشندوں کی تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی خطے کے مسلح مناقشوں کے لیے سب سے زیادہ جنگجو یمن ہی فراہم کر رہا ہے۔ صنعا کے چائے خانوں اور مغربی سفارت خانوں میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ خانہ جنگی میں جنوبی یمن کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے شمالی یمن نے جہادیوں کو استعمال کیا۔ یہ خانہ جنگی ۱۹۹۴ء میں ختم ہوئی۔ نائن الیون کے بعد یمنی حکومت اور القاعدہ کے رابطوں کا خاتمہ ہوا کیونکہ یمن کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کا خطرہ پیدا ہوچلا تھا۔ یمن نے ۲۰۰۲ء میں ڈرون کے ذریعے میزائل حملے میں القاعدہ کے ایک لیڈر کی ہلاکت میں امریکا کی معاونت کی تھی تاہم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دوسرے شدت پسندوں کو اس وقت تک چھیڑنے سے گریز کیا گیا ہے جب تک ان کے باعث کوئی مشکلات پیدا نہ ہوں۔
القاعدہ نے نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یمن میں غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ستمبر ۲۰۰۸ء میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ سال رواں کے اوائل میں القاعدہ کے یمن کے سربراہ نھر الواحثی نے سعودی عرب میں کام کرنے والے القاعدہ عناصر کے ساتھ انضمام کا اعلان کیا تھا کہ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس تبدیلی کی بنیاد پر امریکا کے نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ یمن ممکنہ طور پر خطے میں جہادیوں کے بڑے تربیتی میدان اور القاعدہ کے سب سے بڑے اڈے کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ یمن میں مضبوط اڈا قائم کرنے کی صورت میں القاعدہ بحیرہ احمر کے داخلی راستے سے نہر سوئز تک اور سعودی عرب اور خلیج فارس پر بھی حملے کرسکتی ہے۔
امریکا کو اس بات پر تشویش ہے کہ یمن کی حکومت اس صورت حال کو خاطر خواہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ جولائی میں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے یمن کا دورہ کیا تاکہ صدر علی عبداللہ صالح کو عسکریت پسندوں کے خلاف سخت تر اقدامات کے لیے قائل کرسکیں۔ یمن کے بارے میں امریکی ماہر گریگوری جانسن کا کہنا ہے کہ صنعا اور واشنگٹن کی پالیسیوں اور نظریات میں بہت فرق ہے۔ یمن کی حکومت القاعدہ کے مقابلے میں شیعہ علیحدگی پسندوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔ اس کی ترجیحات میں القاعدہ تیسرے نمبر پر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یمنی حکومت اس مسئلے کو یمن کا مسئلہ سمجھتی ہی نہیں۔ اس کی نظر میں یہ ایک بیرونی معاملہ ہے۔
الواحثی اور القاعدہ کے دیگر اہم ارکان اور رہنما ماضی میں یمن کی جیلوں سے فرار ہوتے رہے ہیں، امریکا کی گوانتاناموبے جیل سے رہائی پانے والے عناصر یمن میں زیادہ سرگرم ہوکر ابھرے ہیں۔ امریکا کی پوری توجہ صرف طاقت کے استعمال پر مرکوز ہے۔ وہ بات چیت پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔ گریگوری جانسن کہتے ہیں ’’کسی بھی عسکریت پسند گروپ کی کمر توڑنے کے لیے اس کے سرکردہ ارکان کو ختم کرنا پڑتا ہے اور امریکا ایسا کرتا رہا ہے۔ کسی بھی مسئلے کے بنیادی اسباب اور محرکات کا جائزہ لینا اور انہیں دور کرنا بھی لازم ہے۔ خاص طور پر افلاس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اگر افلاس اور دیگر وجوہ ختم کرنے پر توجہ نہ دی گئی تو چند سال بعد القاعدہ کے نئے ورژن سے لڑنا پڑے گا۔‘‘
یمن میں افلاس ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تعلیم کی سطح مایوس کن حد تک کم ہے۔ ملک بھر میں اسلحے کا کلچر عام ہے۔ پانی کی قلت بھی برقرار ہے اور نئی نسل ایک خاص قسم کے نشے کی لت میں بھی مبتلا ہے۔ خط نامی ایک جڑی بوٹی کے تازہ پتوں میں پائے جانے والے کمپائونڈ سے ایمفیٹامائن کا سا کیف پیدا ہوتا ہے۔ عام سا اندازہ ہے کہ یمن میں ۹۰ فیصد مرد اور ۲۵ فیصد خواتین یہ پتے چباتی ہیں اور اس کی پیک گال میں جمع کرتی رہتی ہیں جو رفتہ رفتہ گلے سے نیچے اترتی جاتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے زیر کاشت رقبے کا بڑا حصہ اس پودے یا پتے کی کاشت کے لیے مختص ہے جس پر ملک میں دستیاب پانی کا ایک تہائی صرف ہوتا ہے۔ یمن میں پانی کی قلت نمایاں ہے۔ اس کا بیشتر حصہ زیر زمین ذخائر سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ذخائر ہزاروں سال سے قائم ہیں تاہم ان میں اضافے کی رفتار کم ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ۲۰ لاکھ کی آبادی والا شہر صنعا ۱۰ سال کی مختصر مدت میں خشک ہوسکتا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیاں اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی نقل مکانی سے القاعدہ جیسی تنظیموں کے پنپنے کی گنجائش میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آبی امور کے ماہر جرمن امدادی ادارے جی ٹی زیڈ کے مقامی ڈائریکٹر مائیکل کلنگلر کہتے ہیں ’’قحط زدہ علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کو ابھی سے خیمے خریدنا شروع کردینا چاہئیں۔‘‘
نشے کی لت سے یمن کے باشندوں کو چھڑانے کے بارے میں یمنی حکومت سنجیدہ ہے نہ امریکا۔ عوام کو حکومت کی ناکامیوں کا شدت سے احساس ہے۔ صنعا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور نشے کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ عادل الشجاع کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی۔ چار گھنٹے تک بولنے اور نشہ آور اشیا چبانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’خط‘‘ چباتے رہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔ صرف ایک گروپ ایسا ہے جو ملک سے اس نشے کو ختم کرسکتا ہے۔ اور ستم ظریفی تو دیکھیے کہ یہ گروپ القاعدہ ہے!
(بحوالہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ ۵ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply