
ہماری نئی پراڈکٹ کے بارے میں روزانہ تیس سے چالیس افراد ضرور پوچھتے ہیں۔ یہ ۲۳ سالہ سید محبوب شاہ ہیں جو کال ٹیکس (Caltex) پیٹرول پمپ کے ایک فلنگ اسٹیشن پر گاڑیوں میں فیول بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ سید محبوب شاہ اپنی کمپنی کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں۔ کال ٹیکس نے مارکیٹ میں اپنی نئی پراڈکٹ ’’لائف ایکسٹینڈڈ ریڈی ایٹر کولنٹ‘‘ کو متعارف کرانے کے لیے اشتہار بازی کی مہم تیار کی ہے اور اس کے لیے اپنے ملازمین کو بھی چلتے پھرتے اشتہار یا سائن بورڈ کی صورت اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔
سید محبوب شاہ سے روزانہ تیس چالیس افراد نئی پراڈکٹ کے بارے میں اس لیے پوچھتے ہیں کہ اس نے اس پراڈکٹ سے متعلق خصوصی طور پر بنائی گئی ٹی شرٹ زیب تن کر رکھی ہے۔ یہ ٹی شرٹ اس کے یونیفارم کا حصہ نہیں ہے لیکن یہ اس اشتہاری مہم کا حصہ ہے جسے کمپنی نے پورے ملک کے لیے ڈیزائن کیا ہے۔ چونکہ سید محبوب شاہ اس کمپنی کا ملازم ہے‘ اس لیے وہ مجبور ہے کہ وہ اپنی دیگر ذمہ داریوں کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ ایک چلتے پھرتے اشتہار کا کام بھی کرے جبکہ اس اضافی کام کے لیے اسے کوئی اضافی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔
کال ٹیکس کے پیٹرول پمپ پر کام کرنے والے ایک اور ملازم نذیر احمد کا کہنا ہے ’’ہمیں تو مالکان جو کہیں گے‘ وہ ہم کریں گے‘‘۔ وہ اس پیٹرول پمپ پر گذشتہ آٹھ ماہ سے کام کر رہا ہے۔ اسے یہ کام بڑی سفارشوں اور دعاؤں کے بعد ملا ہے۔ نذیر احمد نے اس سوال پر کہ کیا اشتہار والی شرٹ پہننے کا حکم جاری کرنے سے پہلے کمپنی نے اس کی مرضی جاننے کی کوشش کی تھی یا نہیں‘ حیران ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ملازموں سے کون پوچھتا ہے۔ انہیں تو بس حکم دیا جاتا ہے‘‘۔
چھوٹے درجے کے ملازمین کو اشتہار کی حیثیت سے پیش کرنے کا ’’اچھوتا خیال‘‘ محض کال ٹیکس ہی کا نہیں ہے۔ دیگر کئی اور کمپنیاں بھی یونیفارم کو اپنی مصنوعات کی اشتہار بازی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ’شیل‘ بھی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے اپنے ملازمین کا یونیفارم استعمال کرتی ہے۔ یونیفارم لباس کا حصہ ہے۔ لباس کے انسانی نفسیات پر اثرات کے بارے میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سہیل علی کا کہنا ہے کہ ’’لباس انسانی شخصیت کے اظہار کا ایک مناسب اور اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ اپنی مرضی سے اور اپنی شخصیت کے مطابق لباس پہنتے ہیں اور یوں اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
اشتہار والے یونیفارم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سہیل علی کہتے ہیں کہ ’’جب کوئی کسی پراڈکٹ سے متعلق لباس پہنتا ہے تو دراصل اس وقت وہ اپنی شخصیت کو کہیں الگ رکھ چھوڑتا ہے اور اپنے آپ کو اشتہاری مہم کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے ایسا لباس پہنے تو یہ دوسری بات ہے۔ لیکن اگر اسے اس پر مجبور کیا جائے تو اس کا مطلب کارکن سے اس کی شخصیت چھیننے کے مترادف ہے جو سراسر انسانی حقوق کے خلاف ہے‘‘۔ کارکنوں کو تشہیری مواد سے مزین لباس پہنانے کا معاملہ نہ صرف ماہرینِ نفسیات کی نگاہ میں نہایت سنجیدہ ہے بلکہ ماہرینِ قانون بھی اس اقدام پر معترض ہیں۔ ماہرِ قانون لیاقت بنوری اس معاملے کو ایک اور ہی زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کسی کی مرضی کے خلاف کوئی کام کروانا چاہے اس کی نوعیت ٹھیک ہو یا غلط‘ اگر اس کا ذکر معاہدہ ملازمت میں نہ کیا گیا ہو تو قانون کی نگاہ میں یہ قابلِ گرفت اقدام ہے‘‘۔ لیاقت بنوری کہتے ہیں کہ اگر کمپنیاں اپنے ملازمین کو کاروباری امور میں کسی بھی لحاط سے شامل کرتی ہیں‘ چاہے ان کی حیثیت محض ملازم ہی کی کیوں نہ ہو تو لیبر قوانین کی رو سے وہ کمپنی کے منافع میں حق دار بن جاتے ہیں۔
محبوب شاہ ملازمت کے نتیجے میں ملنے والے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں دو سال سے کام کر رہا ہوں اور میری تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ مجھے آج بھی ۳۲۲۵ روپے ملتے ہیں۔ جب ملازمت چھوڑ دوں گا تب بھی مجھے کچھ نہیں ملے گا‘‘۔ محبوب شاہ کا کہنا ہے کہ اسے کسی طرح کے میڈیکل کی سہولت بھی حاصل نہیں ہے۔ وہ اولڈ ایج بینیفٹ (Old age benifit) جیسی کسی سہولت سے بھی ناواقف ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کی اسکیم برائے بہبود کارکنان میں رجسٹریشن کی اولین ذمہ داری آجر کی بنتی ہے۔ اس حوالے سے کال ٹیکس کراچی ہیڈ آفس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے عملہ میں سے کوئی بھی اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مذکورہ پراڈکٹ ڈیزائن کرنے کا کام جن صاحب کے سپرد تھا‘ انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ’’آپ نے جو کرنا ہے کر لیں‘ ہم ملازمین کو اپنی پراڈکٹس والی ٹی شرٹیں پہنانے سے پہلے ان کی رضا مندی لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘‘۔
وہ اس بات سے بھی انکار کرتے ہیں کہ اس اضافی خدمت کے نتیجے میں کمپنی کو اپنے ملازموں کو کچھ اضافی پیسے دینے چاہییں۔ وہ اپنی تیار کردہ اشتہاری مہم سے کافی مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اشتہاری مہم کے نتیجے میں پراڈکٹ کی سیل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے‘‘۔ کسی ہورڈنگ کی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ اسے شہر میں کسی جگہ نصب کرنے کے لیے مقامی حکومت سے نہ صرف اجازت نامہ لینا پڑتا ہے بلکہ اس کے لیے کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چھوٹے درجے کے ملازمین کو بطور اشتہار استعمال کرنے کے بدلے انہیں کچھ بھی نہیں ادا کیا جاتا۔ ان کے جسموں کو تجارتی کمپنیاں اپنی ملکیت تصور کرتی ہیں جہاں ’’اشتہار کی موثر تشہیر بلامعاوضہ‘‘ ہوتی ہے۔
سید محبوب شاہ آٹھ گھنٹے کے بجائے بارہ گھنٹے کام کرتا ہے اور اس کے بعد اپنے گھر وہ صرف اپنی نیند پوری کرنے جاتا ہے۔ وہ مہینے میں ۳۱۲ گھنٹے کام کرتا ہے اور اپنی تنخواہ کے حساب سے اسے فی گھنٹہ دس روپے بیالیس پیسے معاوضہ ملتا ہے۔ کمپنی کی مصنوعات کی تصویروں سے آراستہ یونیفارم پہن کر وہ اپنے آپ کو ان مصنوعات جیسی ہی ایک شے محسوس کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی بے روزگاری تشویش ناک حد تک جاپہنچی ہے‘ سید محبوب شاہ جیسے لوگوں کے پاس انتخاب کا اختیار موجود نہیں ہے کہ وہ نوکری دینے والے ادارے کی کسی ایسی بات سے انکار کرنے کا رسک لے سکیں جو انہیں ایک فرد سے محض ایک شے بن جانے پر مجبور کر دے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’صارف کی پسند‘‘۔ راولپنڈی۔ شمارہ۔ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply